آڈیو لیکس  – دلچسپ حقائق

( وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں ہونیوالی خفیہ گفتگو کی ریکارڈنگ کا افشا کیسے ممکن ہوا اور اس کے اہم پہلو کیا ہیں ) 

تحقیق و تحریر :

سیّدزادہ سخاوت بخاری

اختتام ہفتہ رفتہ سے ، سوشل میڈیا سے لیکر الیکٹرونکس میڈیا تک ،  اس گفتگو سے گونج رہا ہے کہ جو انتہائی سیکوریٹی زون یعنی مملکت خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہاوس اسلام آباد میں جناب وزیراعظم سمیت چند اہم شخصیات کے درمیان براہ راست ہوئی ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ، آئیے جائزہ لیتے ہیں ۔

اس سے قبل کہ اس کے تیکنیکی ( Technical ) پہلو پر بات ہو اور ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ٹیلیفون پر نہیں بلکہ براہ راست ، آمنے سامنے بیٹھ کر کی جانیوالی گفتگو کی ریکارڈنگ کس طرح ممکن ہوئی ، کس نے کی ، کیوں کی اور پہر اسے پبلک کیوں کیا وغیرہ ،  یہ جان اور مان لینا ضروری ہے کہ سائینسی دریافتیں ( Scientific Discoveries ) باالخصوص ،  ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہماری سوچ سے آگے نکل چکی ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جینے والے ہر انسان کو اب انتہائی چوکس ، ہوشیار اور خبردار ہوکر جینا پڑے گا ورنہ آپ کا کوئی راز ، راز نہیں رہ سکے گا ۔ اسی طرح کے جاسوسی ماحول سے جرمنی اور اس کے مفتوعہ یورپی ممالک کے لوگ اس وقت گزرے جب جرمنی کے چانسلر ایڈوولف ہٹلر نے 1933 میں ایک بدنام ذمانہ خفیہ ایجنسی گیسٹاپو ( Gestapo ) کی بنیاد رکہی تاکہ اپنے پرائے سب کی سوچ اور اعمال سے باخبر رہا جاسکے ۔

چونکہ اس وقت ( 1933 ) تک ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی آج کے معیار جیسی نہ تھی لھذا ہٹلر اور اس کے مشیروں نے خفیہ معلومات کے حصول کی خاطر  بقول مورخین, گھریلو خواتین ( House Wives )  کو آلہء کار بنایا ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں شوہر بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو گیسٹاپو کا ایجنٹ سمجھتی تھی ۔

یہاں اس طرف بھی اشارہ کرتا چلوں کہ اب انسان تلاش اور کھوج ( Scientific Research ) کے اس مقام تک آن پہنچا ہے کہ مستقبل قریب میں ، زندہ تو زندہ ،  آپ اپنے مرحوم آباء و اجداد کی باتیں بھی سن سکیں گے ۔ سائینس دان جنہوں نے  لاسلکی ( Wireless System ) دریافت کرکے ہمیں ریڈیو اور ٹیلیوژن جیسی ایجادات مہیاء کیں  ، اب ان برقی لہروں ( Frequencies ) کی تلاش میں ہیں ، کہ جن پر ، حضرت آدم سے لیکر اس گھڑی تک کے انسان کی آوازیں  زندہ تیر رہی ہے ۔ یاد رہے آواز تحلیل یا فناہ نہیں ہوتی بلکہ نظام کائنات کے اندر موجود  برقی لہریں اسے اپنے اندر جذب کرکے محفوظ بنا دیتی ہیں ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کا موبائل فون ، بالخصوص مہنگا موبائیل ، گونگا تو ہوسکتا ہے لیکن کسی صورت بہرا نہیں ہوتا ۔ آپ اسے استعمال نہ بھی کررہے ہوں تو بھی وہ اپنے ارد گرد کی آوازیں سن رہا ہوتا ہے یعنی اگر اس کی زبان بند ہو تب بہی  اس کے کان ،  آلہء سماعت ، ریسیور ( Receiver ) کام کرتا رہتا ہے ، البتہ جو آواز اس کے اندر پہنچ رہی ہے اگر کوئی دوسرا اسے سننا یا ریکارڈ کرنا چاہے تو اس فون کا نمبر حاصل کرکے اس پر ایک پیغام ( Message ) بہیج دیں تو اس میسیج میں چھپا ایک برقی جاسوس ( Bug ) آپ کے ایجنٹ کے طور پر اس فون میں بیٹھ کر وہ ساری آوازیں واپس آپ تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے گا.

بتایا جارہا ہے کہ  یہ سوفٹ وئر ایک اسرائیلی کمپنی نے تیار کیا اور پوری آئی ٹی ورلڈ میں اس کی دھوم مچی ہے ۔ یاد رکہیں یہ سوفٹ وئر فون سیٹ ( Phone Set )  کے پاس بیٹھ کر ہونیوالی گفتگو کو سننے اور ریکارڈ کرنے کے کام آتا ہے جبکہ فون پر ہونیوالی گفتگو سننے کے الگ جاسوسی آلات ہیں جو آپ کے آفس ، بیڈ روم وغیرہ میں نصب کئے جاتے ہیں لیکن انہیں پکڑنا آسان ہے چونکہ وہ نظر آجاتے ہیں ۔ صدر ، وزیراعظم ، آرمی چیف اور دیگر اعلی عہدیداران کے دفاتر اور گہروں کی ،  آئی بی IB ( اینٹیلیجنس بیورو )  کے اہلکار ہر 15 دن میں ایک مرتبہ مختلف آلات کی مدد سے پڑتال کرتے ہیں تاکہ اگر کہیں جاسوسی آلہ( Bug ) لگا ہو تو پتا چلایا جاسکے لیکن اس اسرائیلی سوفٹ وئر ایجنٹ کا توڑ ابھی سامنے نہیں آیا لہذا ترقی یافتہ ممالک کے حکام خود بھی اور دیگر شرکاء کو حساس اجلاسوں میں فون ساتھ لانے کی اجازت نہیں دیتے ۔

یہ ایک طریقہء واردات ہے جو ماہرین نے بیان کیا لیکن اس کے علاوہ بھی گفتگو ریکارڈ کرنے کے کئی خفیہ آلات موجود ہیں ۔  ادھر حکومت نے ان آڈیو لیکس کو جعلی یا بناوٹی قرار نہیں دیا بلکہ انہیں اصلی مان کر ایک جے آئی ٹی تشکیل دیدی ہے جو اس بات کا کھوج لگائیگی کہ وزیراعظم ، سرکاری حکام اور ن لیگ کے اعلی عہدیداروں کی نجی اور براہ راست گفتگو کس نے ، کس طرح ریکارڈ کی اور کہاں سے سوشل میڈیا تک پہنچی ۔ میڈیا کے مطابق یہ کارنامہ انجام دینے والوں کے پاس اس قسم کی حساس گفتگو کے 140 ریکارڈ شدہ کلپ موجود ہیں ۔

سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ متعلقہ پارٹی سے ، مبینہ طور پر حکومت کی بات چیت جاری ہے جنہوں نے بقیہ کلپس جاری نہ کرنے کے عوض ، 5 ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ دوسری خبر کے مطابق انہوں نے کسی کی ایکسٹینشن کا کہا ہے ، تیسری خبر یہ کہ ان کی مرضی کے بندے کو آگے لانے کی بات کی ہے اور ایک خبر یہ کہ فوری طور پر الیکشن کرائے جائیں ورنہ تمام کلپس جاری کردئے جائینگے ۔ قصہ مختصر جتنے منہ اتنی باتیں ۔  دیکھتے ہیں حکومتی جے آئی ٹی کیا خبر سناتی ہے سارا سچ جھوٹ سامنے آجائیگا ۔

قارئین کرام :

آڈیوز میں کیا کیا باتیں ہوئیں وہ سب کی سب سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر آچکی ہیں لہذا میں نے جان بوجہ کر ان پر تبصرہ نہیں کیا البتہ یہ امر باعث تشویش ہے کہ اس سے قبل صرف ٹیلیفون ٹیپ کئے جاتے تھے مگر اب ہمارے حکمرانوں کی نجی اور سرکاری گفتگو بھی محفوظ نہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم ہاوس میں ہونیوالی بات چیت بڑی مہارت سے ریکارڈ کرلی گئی ۔   اگر یہی حال رہا تو قوم اور ملک کا کیا بنے گا ۔

آڈیو لیکس  – دلچسپ حقائق

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سرپرست، اٹک e میگزین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

سیّد زادہ سخاوت بخاری

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

Next Post

"داود تابش کی شہد آگیں انعات"

منگل ستمبر 27 , 2022
داود تابش کی کتاب پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس مضامین کی کمی نہیں ہے وہ جہاں حضور ﷺ سے پیار کرتے ہیں وہاں مودتِ اہل بیت رسولﷺ سے بھی سرشار ہیں
“داود تابش کی شہد آگیں انعات”

مزید دلچسپ تحریریں