قلعہ اٹک ایک لاکھ روپے میں فروخت کر دیا گیا

iattock

تحقیق و تحریر: راجہ نور محمد نظامی

ماخذ: سہ ماہی ذوق

شاہ افغانستان محمودشاہ درانی کے وزیر فتح خان اور پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے درمیان 1812ء میں قلعہ رہتاس ضلع جہلم میں معاہد ہوا ۔ جس کے ذریعے رنجیت سنگھ نے کشمیر کی مہم سرکرنے کے لئے دیوان محکم چند کی سرکردگی میں بارہ ہزار سپاہی بطور امداد اور راجوری وپیر پنجال سے گزرتے وقت افغان فوج کو تمام سہولتیں پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس کے عوض اسے کشمیر کے مال غنیمت سے نولاکھ روپے اور ملتان پر حملہ کرنے کے لئے ایک فوجی دستہ وزیر فتح خان نے دینے کا وعدہ کیا۔فروری 1812ء میں وزیر فتح خان نے کشمیر پر حملہ کیا ۔معاہدہ مذکور کی وجہ سے دیوان محکم چند کے زیر کمان بارہ ہزار کی فوج ہمراہ تھی ۔ایک زبردست جنگ کے بعد گورنرکشمیر عطا محمد خان کو شکست ہوئی ۔عطامحمدخان اور معزول شاہ کابل شاہ شجاع گرفتار کر لئے گئے ۔ دیوان محکم چند نے ان دونوں کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ انگریزمورخ مرے لکھتا ہے کہ کشمیر پر چڑھائی سے پہلے ہی رنجیت سنگھ اٹک کے حاکم سردار جہاں داد خان سے ساز باز کر رہا تھا۔ رہتا س میں وزیر فتح خان سے ملاقات کے بعد لاہور روانگی سے پیشتر رنجیت سنگھ نے اپنی فوج کا ایک دستہ دریائے سندھ کے آس پاس دیا سنگھ کی زیر کمان متعین کر دیا تھا۔

وزیر فتح خان کی کامیابی اور اپنے بھائی عطا محمد خان کی گرفتاری کی خبر سن کر سردار جہاں داد خان نے رنجیت سنگھ کو پیغام بھیجا کہ قلعہ اٹک کا سودا کرنے اور قبضہ کرنے کے لئے اپنے نمائندے بھیجے۔ رنجیت سنگھ نے فوری طورپر فقیر عزیز الدین کو قلعہ اٹک کا سودا کرنے اور قبضہ کرنے کے لئے بھیجا اور دیگر اشخاص بھی اس علاقے پر تسلط مضبوط کرنے کے لئے اس کے ساتھ تھے۔ اس نے کشمیر کی مہم کے لیڈر دیوان محکم چند کو حکم بھیجا کہ اٹک کی کارروائی کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی وہ لاہور پہنچ جائیںاور شاہ شجاع کو ہمراہ لائیں ان(سکھوں ) کے چلے جانے کے بعد اٹک کی کارروائی کا حال(وزیر فتح خان )کو معلوم ہواتو وہ بہت بگڑا اور غاصبانہ کارروائی پر بہت واویلا کیا۔اس بناء پر اس نے اپنے آپ کو ان شرائط پر پورا کرنے سے آزاد سمجھا جن کی رو سے اس نے سکھوں سے امداد لی تھی اور یہی سبب تھا کہ کشمیر میں حاصل کئے گئے مال غنیمت میںسے بھی سکھوں کو کوئی حصہ دیے بغیر چلتا کیا۔

سوال یہ ہے کہ فتح خان کو اٹک پر قبضہ کا حال کشمیر سے محکم چند کی روانگی سے پہلے معلوم ہوا یا بعد میں ’’دوست محمد کی سوانح عمری ‘‘میں موہن لال لکھتا کہ سکھ سپاہی محکم چند نے وزیر فتح خان کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ غلام محمد خان کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت دے اور غلام محمد خان ہی نے اپنے تیسرے بھائی جہاں داد خان والی ِ اٹک کو اپنا قلعہ سکھ حکومت کے ہاتھ بیچ ڈالنے پر زور دیا۔ رنجیت سنگھ نے قلعہ اٹک کے حاکم جہاں داد خان سے سازباز کر کے ایک لاکھ روپیہ کی معمولی قربانی کی بدولت قلعہ اٹک حاصل کر لیا۔ اس سلسلہ میں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے ۳۵۱۰من غلہ 439من گولہ بارود 70 بندوقیں اور کنڈے 4390من کوہستانی نمک اٹک کے قلعہ میں پایا اس طرح گویا سکھوں نے اہم جنگی مقام کو بہت ہی سستے داموں حاصل کر لیا ۔ یہ سب مارچ 1813ء میں ہواتھا۔

منشی دیوی داس ،مت سنگھ ،بھرانیہ اور حکیم عزیز الدین نے اس ساز باز میں سکھوں کی طرف سے حصہ لیا۔ جاں دادخان حاکم اٹک کی طرف سے عبدالرحیم خان قلعہ دار اٹک نے سکھوں کی فوج کو قلعہ میں داخل ہونے دیا ۔وزیر فتح خان کو جب قلعہ اٹک پر سکھوں کے قبضے کا حال معلوم ہوا تو اس نے قلعہ واپسی کا مطالبہ کیا ۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ جب تک کشمیر کے مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا قلعہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ وزیر فتح خان کا موقف یہ تھا کہ سکھوں نے فتح کشمیر کے موقع پر بزدلی کا مظاہر کیا ہے ۔ لہٰذا وہ حصہ کے حق دار نہیں ہیں۔ انہی دنوں فتح خان کے وکیل گودڑ مل اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے درمیان قلعہ اٹک کی واپسی کے لئے ملاقات بھی ہوئی مگر مہارا جہ نے انکار کردیا۔ وکیل گودڑ مل کے جانے کے بعد دوسرے مہینے رنجیت سنگھ کو خبر ملی کہ فتح خان نے ایک بڑے لشکر اور توپخانہ کے ساتھ قلعہ اٹک کا محاصرہ کر لیا ہے ۔ غلہ رسد کی کمی ہے۔ سکھ فوج قلعے میں محصو رہوگئی ہے ۔ اور نہایت تنگی کی حالت میں ہے ۔اگر مہاراجہ نے خبر نہ لی تو تمام فوج فاقوں سے مر جائے گی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے فوری طور پر شہزادہ کھڑک سنگھ اور بھیارام سنگھ کی سرکردگی میں فوج روانہ کی جس نے سرائے کالا سے آگے حسن ابدال کی سرائے شاہجہانی میں قیام کیا یہاںسکھ فوج پرفتح خان کی فوجوں نے حملہ کر دیا جس میں سکھ فوج کو شکست ہوئی ۔

اب دیوان محکم چند رنجیت سنگھ کے حکم پر خود کمک لے کر روانہ ہوا۔ اس کی رہنمائی میں سکھ فوج سرائے کالا سے حسن ابدال کی طرف بڑھی ۔فتح خان کی فوج نے حضر ومیں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ دیوان محکم چند نے سرائے شاہجہانی حسن ابدال اور سرائے برھان میں فوج کا کیمپ لگایا۔ 11جوائی 1813ء میں قلعہ اٹک کی محصور فو ج کو سامان رسد اور غلہ مہیا کرنے کے لئے جب دیوان محکم چند سکھ سپاہیوںکے ساتھ آگے بڑھ رہاتھا تو موضع سیدن ہٹیاں مڈبھیر ہوگئی ۔فتح خان کے بھائی دوست محمد خان کی فوج نے اچانک سکھوںپر حملہ کر دیا۔ سکھوں کی طرف سے توپوں او ربندوقوں کے فائر کئے گئے۔ کافی کشت وخون ہوا۔سکھوں کے قدم اکھڑے ہی تھے کہ افغانوں نے لوٹ مارشروع کر دی جس سے فتح شکست میں بدل گئی۔ سکھ فوج افغانوں کا تعاقب کرتے ہوئے حضرو تک پہنچ گئی اور افغانوں کے ڈیروں کو لوٹ لیا۔ افغان فوج فاقہ کشی اور گرمی کی وجہ سے بھاگ گئی ۔ان میں سے اکثر سپاہی دریائے سندھ پارکرتے ہوئے ڈوب کر مر گئے ۔28جون 1813ء کو سکھوں نے ایک شاندار فیصلہ کن فتح حاصل کر لی ۔ جن افغان فوجوں نے قلعہ اٹک کا محاصرہ کیا ہوا تھا جب ان کو فتح خان کی شکست کا حال معلوم ہوا تو محاصرہ اٹھا کر چلی گئی اور دیوان محکم چند قلعہ اٹک میں آسانی سے داخل ہوگیا۔

چھچھ کے میدان میں اس لڑائی کی اہمیت نظرانداز نہیںکی جاسکتی ۔ ہیوجل لکھتا ہے ’’مسلمانوں کی طاقت ہندوستان میں گھٹ رہی تھی۔ اٹک کی معمولی لڑائی کے بعد آخری مسلمان فوجی دستوں کو سندھ پار بھگا دیا گیا۔ نریند ر کرشن سہنا ہیوجل کے جواب میں لکھتا ہے اس کی یہ رائے بالکل گمراہ کن ہے ۔کسی لڑائی کی اہمیت اس میں لڑنے والے سپاہیوں کی تعداد پر منحصر نہیں ہوتی ۔ اگر فتح خان جیت جاتا تو اس کانتیجہ کیا ہوتا۔ جھنگ اور سندھ ساگر دوآبہ کے مسلمانوں سرداریقیناایک بار پھر کابل کی اطاعت کر لیتے اور قدرتی طورپر رنجیت سنگھ کی شکست پنجاب پر اس کے اقتدار کو کاری ضرب لگاتی۔چھچھ کے میدان میں اگر فتح خان کامیاب ہوجاتا تو یقینا ہندوستان میں اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ کشمیر جیسے خوش حال ملک کی آمدنی تالپور کے امیروں کا خراج پشاور اوراٹک پر متحدہ قبضہ ،افغانستان کی طاقت اور سکھوں پر اس کی شاندار جیت اس کی اتنی ہمت بڑھاتی کہ احمد شاہ کی چھوٹی وراثت کو مکمل طورپر دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ۔ چھچھ کی لڑائی میں افغانوںکی فتح سکھ قوم کی تاریخ میں اتنی ہی اہم ہوتی جتنی کہ شمال میں پانی پت کی تیسری لڑائی مرہٹوں کی تاریخ میں سمجھی جاتی ہے۔

اس وقت پنجاب میں رنجیت سنگھ کی طاقت بہت زیادہ مضبوط نہ تھی ۔یہ شکست اس کے لئے تباہ کن ہی ثابت ہوتی ۔ سی ایم لطیف ہسٹری آف پنجاب میں لکھتا ہے لاہور میں رنجیت سنگھ نے اس فتح کی خوشی میں جشن عظیم الشان کیا۔ لاہور امر تسر اور وٹالہ میں بڑی دھوم دھام سے روشنی ہوئی ۔ اور دو ماہ تک لاہور میں اس فتح کا جو افغانوں پر سکھوں نے حاصل کی تھی ۔ خوشیاں منائی جاتی رہیں ۔ کنہیالال تاریخ پنجاب میںلکھتا ہے ۔ اس فتح کے حصول کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا کمال اعزاز ورتبہ بڑھ گیا اور کسی سرکش کو طاقت گردن اٹھانے کی نہ رہی۔

ماخذات:

(1) رنجیت سنگھ مصنف ،نریندرکرشن سہنا

(2) تاریخ پنجاب، کنہیالال ہندی

(3) تاریخ پنجاب مرتبہ، کلب علی خان فائق

(4) تاریخ ہزارہ ،ڈاکٹر شیر بہادر پنی

(5) تاریخ وادی چھچھ، سکندر خان

(6) تاریخ حسن ابدال منظور الحق صدیقی

(7) تاریخ پنجاب سید محمد لطیف

(8) عمدۃ التواریخ لالہ سوہسن لال

(9) ٹیکسلاطلوع  اسلا م کے بعد راجہ نور محمد نظامی (قلمی )

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کیمبل پوری ادبی سنیہا، نی پہلی بیٹھک

پیر جنوری 18 , 2021
یمبل پوری ادبی سنہیا تنظیم نا پہلا باقاعدہ اجلاس گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کیمبل پور وچ ہویا اس اجلاس نی صدارت عثمان صدیقی ( ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کیمبلپور) اوراں کیتی تے
beige concrete abandoned building

مزید دلچسپ تحریریں