اعترافِ عظمت و اظہارِ عقیدت

اعترافِ عظمت و اظہارِ عقیدت

مضمون نگار : مقبول ذکی مقبول بھکر پنجاب پاکستان

علی شاہ مرحوم
(پیدایش یکم فروری 1966ء ۔ 38 چک خانیوال)
(وفات 16 جون 2016ء ۔ منکیرہ ضلع بھکر )
علی شاہ صاحب یکم فروری 1966ء کو سید اعجاز حسین شاہ کے گھر 38 چک ضلع خانیوال میں پیدا ہوئے ۔

آپ نے 16 جون 2016ء وفات پائی ۔
خاندانی نام سید امید علی شاہ تھا ۔
ادبی نام علی شاہ کے نام سے مشہور معروف تھے ۔
میں ان روایتی انداز سے ہٹ کر شاہ صاحب کی شخصیت کے آئینے سے ان کا فن یعنی ان کی تحریر ان کے کردار کی تصویر کے ذریعے پیش کروں گا ۔ مذکورہ بالا سوالات کے بارے پہلے بہت لکھا جاچکا ہے ۔
؏
اپنے لکھنے کا بھی اپنا انداز ہے

میں درحقیقت شاہ جی کی شخصیت کے ان گوشوں کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں وہ پہلو قاری کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن خصوصیات نے علی شاہ کو مر کے بھی نہیں مرنے دیا
؏
تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

معروف شاعر و ادیب اور صحافی علی شاہ منکیرہ بھکر کے بارے میں اس بات سے آغاز کروں گا کہ اللّٰہ پاک کے فضل و کرم والدین کی دعاؤں کے بعد مقبول ذکی کو اس قابل بنانے میں شاہ جی کا بڑا ہاتھ اور ساتھ ہے ۔

پکڑ کر جسے انگلی چلنا سکھایا
وہی قبلہ ، مقبول ہے یہ تمہارا

اس لیے ان کے بارے لکھنا قرض نہیں فرض سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔

شاہ صاحب ! فرد نہیں تھے ایک جہان تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر کسی شاعر کا اک شعر بے ساختہ لب پر آ گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔

اعترافِ عظمت و اظہارِ عقیدت

شاہ صاحب کی صحبتیں رفاقتیں لمحہ لمحہ یاد آنے والی تڑپانے والی مگر راہ نما ہیں ۔ دریا دل تھے خاندان ِ سادات کی خوبی سخاوت ان کے اندر بہ درجہ اتم موجود تھی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انھیں خرچ کرنے والے دل کے ساتھ ساتھ وسائل سے بھی مالا مال کیا تھا ۔انسانی ہمدری بھی رکھتے تھے ۔ عظیم انسان تھے ہمیں جینا سکھایا لکھنا سکھایا اور پھر لکھے ہوئے کو پڑھنےکا گر بتایا
سیف الدین سیف کا یہ مصرع اکثر سنایا کرتے تھے
؏
سیف انداز ِ بیاں بات بدل دیتا ہے
پیدائشی استاد تھے بچے کو سمجھانا ہو یا بڑے کو تعلیم دینا خوب جانتے تھے ۔ ایک نسل کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کر گئے ۔ شاہ جی کی برق رفتاری یعنی ادھر نکلے ادھر
ڈوبے ڈوبے ، ادھر نکلے۔۔۔ کے انداز میں اپنا تخلیقی و تصنیفی و تالیفی سفر کیا ۔ شاید فطرت کی طرف سے انہیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ

مہلت ِ عمر ہے مختصر شعر کہ

دن رات سفر کیا ملک کے طول و عرض میں تقاریب میں شرکت کی ۔ ہزاروں دوست بنائے ۔ بھکر کی اگر بات کی جاۓ تو ملک بھر میں شہر کے ادبی وقار کے اضافے اور تعارف کا باعث بنے ۔ بھکر میں ملکی سطح کی ادبی تقاریب کا اہتمام کیا ۔سماجی اور سیاسی تعلقات بھی ان کے بہت وسیع تھے ۔ خوب نام کمایا ، عزت پائی ۔
آخر میں ان کے لیے ایک شعر
بقول شاعر

کوئی لکھتے ہوئے تھکتا نہیں اِس عمر کے پرچے
کسی سے ممتحن اوراق ِ سادہ چھین لیتا ہے

شاہ جی کو موت نے مہلت نہیں دی ہم سے بہت جلد چھین لیا ۔ مگر دماغ دل کوں یوں تسلی دیتا ہے” الموت حق”
؏ جب احمد ِ مرسل نہ رہے کون رہے گا ۔ اللّٰہ پاک انہیں جوار ِ اہل ِ بیت علیہ السّلام نصیب فرمائے ۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا کر گئے ۔

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر

جمعرات اگست 10 , 2023
پاکستانی ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری ہیں جو اپنے اصل نام کی بجائے اماراتی اور پاکستانی لوگوں میں “پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر” کے نام سے مشہور ہیں۔
پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر

مزید دلچسپ تحریریں