پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر

پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر۔۔۔!

Dubai Naama

پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر

مرحوم کلیم عثمانی کی ایک خوبصورت نظم کے چند اشعار کچھ یوں ہیں کہ، “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے ایک گگن کے تارے، ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے سب دریاؤں کے دھارے، جدا جدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔”

اس ملی نغمے کی ایک سچی تصویر متحدہ عرب امارات شارجہ میں مقیم ایک پاکستانی ایم بی بی ایس ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری ہیں جو اپنے اصل نام کی بجائے اماراتی اور پاکستانی لوگوں میں “پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر” کے نام سے مشہور ہیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری متحمدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کو قومی پرچم کے سائے تلے جمع کرنے کی غرض سے ہر سال پہلی اگست کو اپنے سر اور کندھوں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں اور 14اگست آنے تک روزانہ پورے شارجہ میں جہاں تک ہو سکے پیدل چلتے ہیں۔ اسی طرح 14اگست والے دن ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری 7بجے شارجہ سے نکلتے ہیں اور سارا دن دبئی کی مشہور شاہراہوں پر چلنے کے بعد وہ شام 7بجے واپس اپنے گھر پہنچتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری صاحب کو پاکستان اور اس کے پرچم کی سربلندی سے جنون کی حد تک محبت ہے اور وہ یہ کام بغیر کسی وقفے کے گزشتہ 15سالوں سے کر رہے ہیں۔ لوگ انہیں پاکستان کا “فلیگ ایمبیسڈر” بھی کہتے ہیں۔موصوف کو اگست کے مہینے میں دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے شارجہ آتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری متحدہ عرب امارات کے قوانین کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ جب پہلی بار میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پر اپنا پاسپورٹ ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی جگہ لوکل پولیس کو لگا کہ وہ کسی قانونی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو وہ فورا پاکستان واپس چلے جائیں گے۔

پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کی اس نوع کی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ خاص طور پر ہم سب نے اپنے بزرگوں سے قیام پاکستان کی بہت سی کہانیاں سن رکھی ہیں۔ یہ کہانیاں زیادہ تر ان قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں جو حکمران گوروں اور متعصب ہندوو’ں سے علیحدہ وطن حاصل کرنے کے لئے دی گئی تھیں۔ ان میں سے اکثر کہانیوں کا تعلق تحریک پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے بٹوارے سے ہے۔ ہماری نوجوان نسل میں آج بھی کچھ ایسے بزرگ موجود ہیں جنہوں نے تقسیم ہند کے دوران پیش آنے والے دردناک واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جھیلا تھا۔ یہ بزرگ پاکستان اور انڈیا کی اس تقسیم کو “غدر” کہتے ہیں، غدر کے دوران پاکستان اور ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کے ساتھ جو اندوہناک واقعات پیش آئے، مہاجرین نے جس طرح اپنی زمینیں اور جائیدادیں چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی، جس طرح ان کے سامنے قتل و غارت ہوئی، ان کے کچھ رشتہ دار ہندوستان رہ گئے اور کچھ پاکستان آ گئے، ان کی اولاد کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا یا ان کی بیٹیوں کی عزت کو لوٹا گیا، اور جب وہ پاکستان کے کسی شہر پہنچے تو ان لٹے پٹے بزرگوں کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ یہ کہانیاں سناتے وقت آج بھی ان کی آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چار بڑی جنگیں ہوئی ہیں، ہندوستان سے تجارت نہیں ہو رہی، اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کیا ہم پاکستانی قوم ابھی تک “بٹوارے” اور “غدر” کی سزا بھگت رہے ہیں؟ آزادی کی کچھ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہمیں وہ قیمت ادا کر کے آزادی تو مل گئی مگر اس کی قیمت تو ہم ابھی بھی ادا کر رہے ہیں۔ برطانوی گورے چلے گئے مگر ان کی ایجنٹ “اشرافیہ” ہم پر ابھی تک مسلط ہے۔ پاکستان کے تقریبا ہر شہر اور گاو’ں میں متحدہ ہندوستان کی کچھ نشانیاں آج بھی مل جاتی ہیں جیسا کہ پنڈی میں شیخ رشید کی “لال حویلی”، لاہور میں دیال سنگھ کالج یا جین مندر وغیرہ ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں بھی گوروں کے “ڈپٹی والے بنگلے” موجود ہیں۔ جب ان بزرگوں کی توجہ پاکستان کے موجودہ حالات کی طرف دلائی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں، “پتر ان حکمرانوں نے اسانوں کی دتا؟” یعنی ان حکمرانوں نے ہمیں کیا دیا ہے۔ غور کریں تو بات بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان کے تقریبا سارے قوانین، بڑے بڑے ڈیم، نہری نظام اور ریلوے کا سسٹم گوروں کا بنایا ہوا ہے، اور آزادی کے بعد جو پاکستان میں بننا چایئے تھا اور وہ نہیں بن رہا ہے تو اس کی اصل وجہ یہی مقتدر اشرافیہ ہے جو عوام کو پاکستانی جھنڈے کے نیچے ایک قوم بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ خود مخلص ہو کر ملک و قوم کو ترقی کرنے دیتی ہے۔

برطانوی راج کے دوران واقعی نظام انصاف کا معیار بہتر تھا۔ آج بھی ہمارے بزرگ شکوہ کناں ہیں، “وہ ویلا اچھا تھا۔” ہمارا ہر محکمہ اور ادارہ کرپشن کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ ہم نے آزادی کے بعد ترقی کرنی تھی مگر ہم مسلسل تنزلی کر رہے ہیں۔ کاش ہمارا یہ خواب حقیقت میں ڈھل جائے کہ، “اس پرچم کے سائے تلے” ہم ایک قوم بن جائیں، کاش ہم سب بھی “پاکستانی جھنڈے والا ڈاکٹر” بن جائیں۔۔۔!!! یہ خواب تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ہم اپنا احتساب کریں اور ملک و قوم کے لئے ایماندار اور مخلص قیادت کا انتخاب کریں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ایڈھاک ریلیف نوٹیفیکشن انتھک محنت کا نتیجہ

جمعرات اگست 10 , 2023
ایڈھاک ریلیف نوٹیفیکشن اپیکا کارکنان و قائدین کی انتھک محنت کا نتیجہ ھے ملازمیں کے حقوق کی خاطر جہدو جہد جاری رہے گی
ایڈھاک ریلیف نوٹیفیکشن انتھک محنت کا نتیجہ

مزید دلچسپ تحریریں