معلق پارلیمنٹ
عمران خان کی الیکشن 2024 کے نتائج کے حوالے سے آرٹیفیشئل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence) کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ وفاق میں پی ٹی آئی کو ملنے والی 170 نشستوں کا ذکر کر کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف میاں محمد نواز شریف نے بھی وکٹری سپیچ کی ہے کہ یہ انتخابات نون لیگ نے جیت لیئے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غیرسرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے حاصل کی ہیں۔ لیکن چونکہ نتائج کا سرکاری اعلان تا دم تحریر دیر سے کیا جا رہا یے یا ابھی تک نہیں کیا گیا ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ مغربی دنیا میں پاکستان کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا یے۔ بی بی سی نے اپنے تبصروں میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات اور دیر سے اعلان کیئے جانے والے نتائج کو بوگس قرار دیا ہے۔ امریکی کانگرس مین روخانہ نے بائیُڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ رگنگ کے ذریعے پاکستان میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہ کرے۔ ڈیموکریٹک مشی گن کی کانگرس خاتون راشدہ ٹی لیب نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ہمیں پاکستانی عوام کا ساتھ دینا چایئے کیونکہ ان کی جمہوریت خطرے میں ہے۔ عوام کو موقع ملنا چاہیئے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان کو ڈالروں میں دی جانے والی امداد ہمیں بند کر دینی چایئے۔ اسی طرح ٹیکساس سے کانگرس مین گریگ کاسر نے کہا کہ الیکشن کے روز فون سروس بند کرنا قابل مزمت ہے۔ کانگرس خاتون ڈینا ٹائٹس نے بھی کہا کہ جمہوریت کے لیئے آزادانہ حق رائے دہی ضروری ہے جو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں نہیں دیا گیا ہے۔ موجودہ الیکشن کی مذمت کرنے والے دیگر امریکی نمائندگان میں بریڈ شرمین، سینیٹر بن کارڈن، جیکوئین کاسٹرو اور الحان عمر،
اومان سوسان وائلڈ اور جاسمین کراکٹ شامل ہیں۔ ان سب ممبران نے امریکی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ پاکستانی الیکشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے۔
حالیہ الیکشن کے بارے یہ برطانوی اور امریکی تبصرے مقتدرہ اور حکومت پاکستان کے خلاف اور پی ٹی آئی اور اس کے اس چیئرمین کے حق میں آئے ہیں جس نے امریکہ کو “ہرگز نہیں” (Absolutely Not) کہا تھا۔ یہ ساری آراء پاکستان کے الیکشن میں ہونے والی سیاسی بدعنوانی کے خلاف ہیں جو الیکشن سنہ 2024 میں روا رکھی گئی ہے اور جس کے خلاف پی ٹی آئی کے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
مرکز میں الیکشن سنہ 2024ء کے نتائج انتہائی غیر واضح ہیں کیونکہ وہاں سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے حاصل کی ہیں جو خود حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اوپر سے مبینہ دھاندلی کے الزامات بھی ہیں اور نتائج بھی معلق پارلیمنٹ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو شروع دن سے ہی احتجاج کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اٹلی کا مکاولی یاد آتا ہے جس نے پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں اٹلی کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا جب اٹلی تاریخ کے بدترین سیاسی دور سے گزر رہا تھا، ملک کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال دگرگوں تھی اور ملک سرکاری سرپرستی میں ظلم کی چکیوں میں پس رہا رہا تھا۔ ہماری سرکار کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اسے حافظ صاحب کی سرپرستی میں خود ہی اس معلق پارلیمنٹ کا پیغمبرانہ حل پیش کرنا ہے۔
یہاں سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے سیکھنے اور سمجھنے کیلئے بہت کچھ موجود ہے کہ: “تخریب کے پردے میں ہی تعمیر ہے ساقی، شیشہ کوئی پگھلا ہے تو پیمانہ بنا ہے”۔
یہ الیکشن ہمیں استحکام، خوشحالی اور امن کی طرف لے جانے کا باعث بھی بن سکتا ہے کہ تعصب، تقسیم، بغض و عناد اور باہم سیاسی تصادم کو بھلا کر مرکز میں اکثریتی جیتنے والے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کے نام سے حکومت سازی کی دعوت دی جائے کہ ان کا نمائندہ لیڈر اور سیاستدان جیل میں ہے تو تب بھی وہ ملک کا مقبول ترین سیاسی لیڈر بن کر ابھرا ہے۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے کہ عوام کے اس فیصلے کو ریاست بھی کھلے دل سے تسلیم کرے۔ اس متنازعہ الیکشن کو غیر متنازعہ بنانے کی یہی ایک صورت ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دی جائے تاکہ معلق پارلیمنٹ کی یہ صورت اپنے انجام کو پہنچے اور حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کے قابل ہو سکے۔ یہ ملک 62ہزار ارب روپے کا پہلے ہی مقروض ہے۔ پی ٹی آئی احتجاج کے راستے پر چل پڑی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور ملک پہلے سے زیادہ معاشی عدم کا شکار ہو جائے گا۔
جس الیکشن پر اس غریب اور مقروض قوم کے 47ارب روپے خرچ ہوئے، اسے دو دن تک نتائج ہی نہیں مل رہے۔ اگر ایسا کرنا تھا تو اس غریب عوام کو یہ 47ارب کا چونا کس کھاتے میں لگایا گیا؟ اس وقت مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو قرض فراہم کرنے کی کڑی شرائط رکھی ہیں۔ نومئی کے واقعات نے اسٹیبلشمنٹ کو وہ موقع فراہم کر دیا تھا جس سے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، تحریک انصاف کے سیاسی رہنماؤں کو ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا، ان سے پریس کانفرنسیں کراوئی گئیں، ان سے معافی نامے لکھوائے گئے، جس کے عوام کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور جس کا نتیجہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا شکست دینا ہے۔
تاریخی طور پر یہ مصدقہ بات ہے کہ پاکستانی عوام کی ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت بہت لمبی اور مضبوط نہیں ہے اور عوام فوری طور پر ہونے والے واقعات اور تضادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر معاشی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہو تو عوام کا سارا جھکاو’ زیر عتاب سیاسی جماعت کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس تمام صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا، جس کے سامنے اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی جھکنا چایئے کیونکہ یہ عوام کے ووٹ کا فیصلہ ہے۔
انتخابات کے بعد بعد اب مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کا مرحلہ ہے۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان میں بلترتیب نون لیگ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے آزاد منتخب پارلیمان کی پوزیشن واضح ہے مگر مرکز میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار قومی اسمبلی کے لیئے آئے نتائج پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈال رہے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ کی عین مرضی کے مطابق آئے ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کو ایسی واضح اکثریت حاصل ہو جاتی کہ وہ آگے چل کر اس کے لیئے مسائل کھڑے کرتی۔
اسلام آباد میں ریاست کے ذہن میں نئ حکومت سازی کے منصوبے گھوم رھے ہیں، تو راقم کو ان معلق جمہوری نتائج کے بارے غیر مسلموں سے منسوب تین کہاوتیں یاد آ رہی ہیں
ہر کچھ سالوں بعد مظلوموں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں کا کون سا طبقہ اب اُن کا نمائندہ ٹھہرے گا، اور پانچ سال اُن کا استحصال کرے گا
کارل مارکس
اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو وہ ہمیں کبھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے
مارک ٹوین
جب آپ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی آپ برائی ہی چن رہے ہوتے ہیں
رالف نیڈر
Title Image by Storme from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔