تیسری عالمی جنگ ہو گی یا نہیں؟
اسرائیل پر ایرانی بیلسٹک میزائل حملہ کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو 2فریق ہوں گے ایک روس، چین، ایران، یمن اور شمالی کوریا ہو گا اور دوسرا نیٹو، امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہوں گے۔ روسی صدر نے یہ بات 24 فروری 2022 ء کو نہیں کی جب روس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیئے یوکرائن پر حملہ کیا تھا۔ روس اور یوکرائن کی جنگ کا آغاز 2014 ء میں ہوا۔ جبکہ صدر پیوٹن روسی تاریخ کے طویل ترین صدر ہیں جو روس کی کرسی صدارت پر یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے 2012 ء میں متمکن ہوئے۔ یوکرائن روس کے بعد مشرقی یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں شمال مشرق تک پھیلی ہوئی ہیں اور جس کی پشت پناہی پر بھی وہی ممالک کھڑے ہیں جو تیسری ممکنہ عالمی جنگ میں امریکہ اور یورپ کے نیٹو ممالک میں شامل ہیں۔ پہلی دونوں عالمی جنگیں (پہلی 2014ء اور دوسری 1939 ء ) کے تلخ اور تباہ کن اثرات زیادہ تر یورپ نے بھگتے اور دونوں عالمی جنگوں کا آغاز بھی یورپ سے ہی ہوا۔ تیسری عالمی جنگ اگر ہوئی تو اس کا آغاز فلسطین اسرائیل تنازعہ کی وجہ سے مشرقی وسطی ٰکے ممالک سے ہو گا۔ ویسے تو تیسری عالمی جنگ کی باتیں اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر 2023 ء کے پہلے حملہ کے بعد مسلسل ہو رہی ہیں مگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران کے اسرائیل پر حملے کو ایک خصوصی رنگ دیا جس کا درپردہ مقصد اسرائیل، امریکہ اور نیٹو ممالک کو دھمکی دینا نہیں بلکہ سیاسی طور پر ان کی آنکھیں کھولنا ہے۔
اسرائیل ایران کو جنگ میں گھسیٹنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ امریکہ اور نیٹو ممالک سے اسے تازہ اور خصوصی کمک مل سکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اسرائیل نے 2اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر میزائل حملہ کیا تھا۔ ایران کے لئے یہ صورتحال کافی مشکل تھی کہ وہ اپنی سرخ لکیر قائم رکھنے کے لیئے اسرائیلی حملے کا جواب کس انداز میں دے۔ جب کسی خود مختار ملک پر ایسا حملہ ہوتا ہے تو وہ اس کا جواب 48گھنٹوں ہی میں چکتا کرتا ہے جیسا کہ فروری 2019 ء میں پاکستان نے انڈیا کو 24گھنٹوں میں جوابی حملے کا نشانہ بنایا یا جیسے بلوچستان میں ایرانی حملے کا جواب پاکستان نے ایران پر میزائل حملہ کر کے 24گھنٹوں میں دیا۔ ایرانی کونسلیٹ پر اسرائیل نے 2اپریل کو حملہ کیا تھا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد ایرانی فوجی سربراہ جنرل حمد حسین نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے باوجود ایران نے اسرائیل پر 13اپریل کو حملہ کیا۔ اتنی دیر کے بعد جوابی حملہ کی کئی مجوزہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں اس حملہ کے بارے دنیا بھر میں ہونے والے تبصروں سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کے پس پردہ اصل حقائق کیا ہو سکتے ہیں۔
یورپی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل پر ایرانی حملہ میں الفتح نے 6 منٹ میں 2 بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کے شمال مغربی ہدف کو نشانہ بنایا۔ اب ایران اسرائیل پر یہ حملہ کر کے اپنے اہداف حاصل کرنے اور بدلا لینے میں کتنا کامیاب ہوا اس کے بارے یورپی میڈیا کا صرف اتنا کہنا ہے کہ اسرائیل کا دفاعی نظام ’’آئرن ڈوم‘‘اس حملہ کو روکنے میں ناکام ہو گیا۔ عرب میڈیا نے بھی اس سے ملتے جلتے تبصرے کیئے اور کہا کہ اسرائیل نے فوجی اڈے خالی کر دیئے۔ ایرانی حملے سے اسرائیل میں خوف و ہراس اور بھگدڑ کو تو ریکارڈ کیا گیا۔ لیکن اس حملہ میں اسرائیل کے ہونے والے جانی، فوجی یا سول نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ تاہم اس حملہ کی آڑ میں امریکی صدر جوبائیڈن کی دفاعی انتظامیہ پینٹاگون نے اسرائیل کی فوجی مدد اور شام، عراق اور دیگر خلیجی ممالک میں موجود اپنے ٹھکانوں کی حفاظت کے لیئے اپنا دفاعی نظام مزید مضبوط کرنے کا اعلان کیا۔ خبر رساں ایجنسی ’’سی این این‘‘کے مطابق پینٹاگون تیزی سے اپنے فضائی نظام کو طاقتور بنا رہا ہے۔ امریکہ میں انتخابات نزدیک ہیں جو اسی سال 5نومبر 2024 ء کو ہونے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن یوکرائن کے معاملے میں پہلے ہی منہ کی کھا چکے ہیں اور وہ فلسطین اسرائیل کی جنگ میں کوئی مزید ہزیمت اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اسرائیل نے ایرانی حملے کے بعد حفظ ماتقدم کے طور پر 2روز تک تعلیمی سرگرمیوں کے لیئے سکول بند رکھنے اور اجتماعات پر پابندی لگائی ہے اور 28ممالک میں اپنے سفارتخانے بھی بند رکھنے کا اعلان کیا یے جس میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر نظرثانی کا بھی امکان ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کے فوجی ترجمان ڈینیئل ہیگری نے ٹیلی ویژن پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کا ایئر ڈیفنس تیار ہے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جانا چایئے کہ ایران اسرائیل پر مزید کوئی حملہ کرے گا یا خود اسرائیل اگلے چند دنوں میں ایران پر جوابی حملہ کرنے جا رہا ہے۔
اس وقت دنیا 2024 ء سے گزر رہی ہے، یہ سال 1914 ء ہے اور نہ ہی 1939ء ہے کہ اب عالمی طاقتیں تیسری عالمی جنگ (Third World War) میں کودنے کی حماقت کریں۔ دو ملکوں کے درمیان کوئی عام جنگ ہو یا چند فریقوں کے درمیان عالمی جنگ ہو دو بنیادی وجوہات کی بنا پر لڑی جاتی ہے جب طاقت کا توازن بگڑ جائے اور یا پھر طاقت کا توازن موجود ہو۔ پہلی دونوں عالمی جنگیں مغربی تہذیبوں پر قہر بن کر ٹوٹی تھیں جس میں تقریبا ًسارا نقصان اہل مغرب ہی کا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں روس آخری وقت پر پیچھے ہٹ گیا تھا جس کا خمیازہ جاپان کو دو ایٹم بمبوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ جرمنی بھی تباہ ہوا مگر یہ دونوں ملک مکمل طور پر دوبارہ اپنے پاں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ پہلے روس کا نام ’’سوویت سوشلسٹ ریپبلکس‘‘ تھا جو 26 دسمبر 1991 ء میں مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو کر بکھر گیا اور روس ابھی تک معاشی طور پر اس پوزیشن میں نہیں جا سکا ہے کہ وہ تیسری عالمی جنگ کا سامنے کرنے کے لئے سیدھا کھڑا ہو سکے جبکہ چین عالمی جنگ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیئے لڑ رہا ہے اور چین امریکہ اور روس کی طرز کا جارح ملک بھی نہیں ہے کہ وہ فریق ثانی کے طور پر امریکہ اور نیٹو کے مغربی ممالک کو چیلنج کرے۔
پاکستان سعودی عرب کا دفاعی شراکت دار ہے جبکہ سعودی عرب امریکی اور اسرائیلی اتحادی ہے۔ چائنا نے ایران اور سعودی عرب کی آپسی دشمنی بھی ختم کرانے کا آغاز کرایا۔ سعودی عرب اور ترکی بھی قریب آ رہے ہیں۔ اسی طرح ایران بھارت کا دفاعی پارٹنر ہے اور بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی ایک دوسرے کے دفاعی اتحادی ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات فلسطین کے لیئے امدادی سامان لے جانے والے عملہ پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے پہلے ہی اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا چکا ہے۔
اس پس منظر میں خود فلسطین (یا حماس) اس سفارتی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے کوئی جنگی اتحادی ہوں یا وہ تیسری عالمی جنگ لڑنے کے لیئے اپنے حق میں اتنی بڑی ہمدردیاں سمیٹ سکے۔ اگر پھر بھی ایسا کوئی امکان ہے تو وہ صرف اتنا ہے کہ فلسطین میں 31184 شہادتوں اور 72889 زخمیوں جس میں خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان بھی شامل ہیں، اس کے بدلے میں کسی طور فلسطین کو آزادی نصیب ہو جائے۔ گو آنے والے دنوں میں کیا ہو گا یہ کسی کو معلوم نہیں مگر یہ موقع ضرور ہے کہ تیسری عالمی جنگ کو رد کر کے اس مسئلہ کا کوئی پرامن حل نکالا جائے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |