وسوسے، دنیا اور خدا شناسی (حصہ دوم)

وسوسے، دنیا اور خدا شناسی (حصہ دوم)

Dubai Naama

وسوسے، دنیا اور خدا شناسی (حصہ دوم)

ان تمام مذہبی عقائد اور سائنس کی رو سے کائنات اور زندگی کی پہلی اور آخری قوت “ایک” ہے۔ سائنس دانوں نے اب تجربات کے ذریعے دریافت کر لیا ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک امواج کائنات کے آغاز کے وقت موجود تھیں۔ یعنی اب یہ سوال لاینحل نہیں رہا کہ کائنات کی ابتداء سے پہلے کیا تھا؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ کائنات اس عظیم ترین مطلق قوت کی وجہ سے وجود میں آئی اور کائنات کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے؟

اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر تمام اجسام میں روح ہے، چیزوں کی شروعات ایک مشترکہ وحدت یا قوت “واحدہ” سے ہوئی ہے تو یہ لازما کائناتی قوت Universal Force ہے جو کائنات کے قیام سے پہلے بھی موجود تھی، اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ موجود رہے گی۔ منطقی طور پر اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کا ایک ظاہری یا باطنی “ذہن” بھی ہے جس کی وجہ سے وہ وجود میں آتی ہیں اور خود کو قائم رکھتی ہیں۔ اس کی مثال وہ جاندار (اور بے جان) چیزیں ہیں جو اس قوت (‘روح’ یا ‘ذہن’) کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ جب چیزوں کی ایک منظم اور اعلی ترتیب قائم ہو جاتی ہے تو ان کے اندر اور باہر ایک ذہن بھی موجود ہوتا ہے جیسا کہ جانداروں مثلا چرند، پرند، جانور اور انسانوں (ستاروں اور پتھروں وغیرہ) کا ایک منظم جسم ہے تو ان کا ایک منظم ذہن بھی ہے۔

قرآن کا خدا کے بارے تصور مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا، آخرت اور رسول ﷺ پر ایمان نہیں لاتا ہے۔ الہامی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کو ماننے والے خدا کو “اللّه” کہتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ کائنات کو اللّه نے تخلیق کیا اور انسان اللّه کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہے جس کے بعد آخرت میں اسے جنت یا دوزخ میں جگہ ملے گی۔ مسلمانوں میں “وحدت الوجود” اور “وحدت الشہود” پر یقین رکھنے والے اور اصنام یا شرک پرست pantheist بھی ہیں۔ مسلمانوں میں مذہبی تقسیم پر مبنی شیعہ، سنی، اہل حدیث، اہل قرآن اور وہابی وغیرہ جیسے فرقے بھی ہیں۔ جبکہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے کہ، “خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ بازی میں نہ پڑو”۔ جبکہ کچھ لوگ خدا کو مانتے ہیں مگر وہ مذہب کو نہیں مانتے جو ایگناسٹک Agnostic کہلاتے ہیں۔ عیسائیت میں خدا کو “گارڈ” (God) کہا جاتا ہے. عیسائیوں میں باپ، بیٹے اور پاک روح کا تثلیت کا عقیدہ Doctrine of Trinity بھی مشہور ہے۔ یہودیت میں خدا کے بارہ نام ہیں جن میں یاہووا، ایلوہم اور جائیوا سب سے زیادہ مشہور ہیں۔”ہندوازم” میں 33 ملین خداو’ں کا تصور ہے، وہ ان خداو’ں کے لکڑی، مٹی، پتھر اور سونے چاندی کے بت بناتے ہیں اور انکی پوجا کرتے ہیں۔ ہندووں کا سب سے بڑا خدا “بھگوان” ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق برہما کائنات اور زندگی کا تخلیق کار ہے، وشنو کائنات اور زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے اور شیوا کائنات اور زندگی کو تباہ کرے گا۔ یعنی شیوا قیامت برپا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ہندووں میں ہی سات جنموں کا عقیدہ بہت عام ہے۔ جبکہ ہندووں میں ذات پات کا تصور بھی موجود ہے!
“جین مت” اور بدھ ازم” کو ماننے والے اپنے مذہب کے بانی ناتاپوتا ماہاویرا کو روحانی خدا مانتے ہیں جس نے عبادت کے ذریعے خدا کی روشنائی پائی تھی۔ بدھ مت کا بانی بدھا ہے جسے بدھ مت کے پیروکار ایک غیر معمولی انسان اور اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔ بدھ ازم کے پیروکار خدا پر یقین نہیں رکھتے مگر وہ بدھا کے بت کی پرستش اسے خدا سمجھ کر کرتے ہیں اور روحانی مشقوں سے “نروان” پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ “سکھ ازم” کے پیروکار سختی سے خدائے واحد Oneness of God پر ایمان رکھتے ہیں جسے وہ “واہی گرو” کہتے ہیں۔ سکھ مذہب کا بانی گرو نانک Guru Nanak ہے جس کی تعلیمات کا مرکز ایک خدا ہے جو پیدا کرنے والا، چلانے والا اور تباہ کرنے والا ہے مگر سکھ ازم میں پیغمبروں کا کوئ تصور نہیں, وہ گرو نانک کو خدا کا پیغمبر یا اوتار تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ اسے ایک روشن روح Illuminated Spirit مانتے ہیں۔”کنفیوشئس اور تاو’ازم” کو چین کے باشندے نیم مذہب کے طور پر مانتے ہیں! چین میں کنفیوشئس عقیدے کے گرجا گھر ہیں جہاں لوگ غور و فکر اور اپنے عقائد اور خیالات کی تجدید کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کنفیوشئس آخرت یا موت کے بعد کی زندگی کے بارے زیادہ متفکر نہیں ہوتے کہ مرنے کے بعد روحیں کہاں جاتی ہیں؟ کنفیوشئس کا عقیدہ تھا کہ دنیا کی زندگی ہی کافی ہے کہ اگر آپ زندگی میں اچھا کردار ادا کرتے ہیں تو انسان کے لئے یہ زندگی ہی “خدا” ہے۔

چین میں کنفیوشئس کے ساتھ تاو’ازم Taoism کو بھی مانا جاتا ہے۔ تاو’ مذہب کا بنیادی فلسفہ اور عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی ابتداء تاو’ سے ہوئی ہے جو کائنات کی ہر چیز کا قانون Law of Everything ہے۔
تاو’ازم کے ماننے والوں Taoists کا عقیدہ ہے کہ انسان زندہ بت Live Deity کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور کچھ رسومات اور سادہ مشقوں سے وہ دنیا میں ہمیشگی زندگی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

قدیم صوفی ازم Mysticism کی روحانی مشقوں میں سادہ لوحی اسٹیرٹی Austerity کے ذریعے اس عقیدے کے ماننے والے لوگ گروہ کی شکل میں اکٹھے ہوتے تھے، عبادت کرتے تھے اور جب وجد میں آتے تھے تو نروان یا روحانی طاقت حاصل کرنے کے لئے خود کو زخمی کرتے تھے۔

جاپان میں دو بڑے مذاہب ہیں جن میں شنٹوازم اور بدھ ازم سرفہرست ہیں۔ 70 فیصد جاپانی شنٹوازم اور باقی بدھ ازم، عیسائیت اور دیگر مذاہب کی رسومات میں حصہ لیتے ہیں۔ شنٹو خداو’ں کو کامی Kami کہا جاتا ہے۔ شنٹو روشن خیال عقیدہ ہے جس کے مطابق سب انسان “نیکی” کی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں ان کے اندر “برائی” بد روحوں کی وجہ سے داخل ہو جاتی ہے۔ جاپانیوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی “نجات” کردار کی تعمیر اور مادی ترقی میں پوشیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایماندار قوم کے طور پر مشہور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی ان کے مذہب کا ترقی کی درست سمت کا انتخاب کرنا ہے۔

جبکہ سیکولرازم پر یقین رکھنے والے ان خداو’ں میں کسی خدا کو نہیں مانتے ہیں جو کہ مطلق مادیت یے اور کسی غلاظت جیسے عذاب سے کم نہیں ہے۔ بقول اقبال، “شاخ نازک پے جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا” مثلا بھارت، تھائی لینڈ اور جاپان جیسے روشن خیال ملکوں میں بھی بعض ایسے عقائد ہیں جن کے پیروکار اعضائے رئیسہ کی پوجا کرتے ہیں، ان کو دودھ سے نہلاتے ہیں اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔

لیکن اسلام وہ واحد آخری الہامی مذہب ہے جو ایسی مادی خرافات کی نہ صرف سختی سے مذمت کرتا ہے بلکہ مادی دنیا کو سائنس کے ذریعے مسخر کرنے کی بھی تحریک دیتا ہے. قرآن ایسی سائنسی فکر اور “موٹیویشن” سے بھرا پڑا ہے۔

دنیا کے دو عظیم اور ذہین ترین سائنس دان آئنسٹائن اور سٹیفن ہاکنگ خدا کے بارے لاادری یا متشکک Agnostic تھے جس وجہ سے وہ کسی واضح عقیدے کے قائل نہیں تھے۔ گو کہ “خدا انسانی حسیات سے ماوراء ہستی ہے جسکا کوئی مادی وجود نہیں ہے”۔ اس کے باوجود یہ دونوں سائنسدان خدا کو کائنات کے اولین محرک First Mover کے طور پر عمر بھر ڈھونڈنے کے کوشش کرتے رہے۔ آئن سٹائن کا ماننا تھا کہ ہر چیز کی تھیوری جسے سٹرنگ تھیوری String Theory بھی کہتے ہیں اس بات کی تشریع کر سکتی ہے کہ خدا نے اس دنیا کو کیسے بنایا؟ آئنسٹائن کو کائنات کی علت اولی (کائنات کے بننے کے اولین طریقہ کار) کے بارے جاننے کا جنون تھا ۔آئنسٹائن نے حتمی سچائ کو پانے کے لئے آخری دم تک ہمت نہیں ہاری اور بستر مرگ پر بھی کہا، “کاغذ پنسل لے کر آو’ اور مجھ سے اس نظریئے کے بارے آخری نقاط تحریر کروا لو۔”

سٹیفن ہاکنگ کی آئنسٹائن کی طرح عمر بھر یہ خواہش رہی کہ وہ ایک ایسی تھیوری پیش کر سکے جو کائنات کی ہر چیز کی تشریع کرتی ہو۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب وقت کی مختصر تاریخ The Brief History of Time میں بھی کیا تھا جو 1988 میں چھپی تھی۔ یہ موضوع انکے 2014 کے ایک Biopic مقالے کا بھی تھا۔ لیکن آئنسٹائن کے بعد دنیا کے سب سے زہین ترین اور سائنس کے مشہور زمانہ عالم سٹیفن ہاکنگ نے اپنے 2002 کے ایک مقالے میں کہا (جو نیٹ پر موجود ہے) کہ انہوں نے کافی غور و خوض کے بعد یہ تھیوری پیش کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا کیونکہ وہ کافی غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ایسی کوئ تھیوری ایک انسان کبھی بھی پیش نہیں کر سکتا ہے (اور نہ ابد تک کر سکے گا) کیونکہ ان کے مطابق “حقیقت مطلقہ” کے بارے انسان کے تجربات اور قوانین ہمیشہ نامکمل ہوتے ہیں جبکہ “حقیقت مطلق” یا “”خدا”” ہمیشہ مکمل ہے (کالم نگار کی ایک زیر طبع کتاب سے اقتباس)۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ایم ایس سی پاس "خطیب انحراف"!

جمعرات ستمبر 14 , 2023
میری عادت ہے کہ میں کسی کو نظر انداز نہیں کرتا۔ میرا واسطہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے رابطہ کرنے والے قسم قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے۔
ایم ایس سی پاس “خطیب انحراف”!

مزید دلچسپ تحریریں