ترویج اردو ڈاکٹر نور الصباح

ترویج اردو ڈاکٹر نور الصباح

Dubai Naama

ترویج اردو ڈاکٹر نور الصباح

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بلند پائے کے اردو شاعر تھے جنہوں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اوائل کے ممتاز اردو شاعروں کی دل کھول کر سرپرستی کی جن میں غالب، داغ، شاہ ناصر، مومن اور ذوق جیسے بڑے شعراء کرام شامل تھے۔ ایک روز بہادر شاہ ظفر اور مرزا اسد اللہ غالب آموں کے ایک باغ میں ٹہل رہے تھے۔ مرزا غالب کو آموں کا بہت شوق تھا اور وہ بار بار آم کے درختوں پر لگے پکے آموں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے پوچھا، “مرزا تم یہ آم کے پیڑوں کی طرف کیا دیکھ رہے ہو”؟ اس پر مرزا غالب نے فی البدیع جواب دیا: “میں یہ دیکھ رہا ہوں آموں کے کون کونسے دانوں پر میرا نام لکھا ہے”۔ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر مرزا غالب کی حاضر دماغی سے بڑے متاثر ہوئے اور اگلے روز مرزا غالب کے گھر آموں کی کچھ پیٹیاں بھجوا دیں۔

اردو شاعری میں غزل کی صنف، شعراء کی حوصلہ افزائی اور مشاعروں کی سرپرستی کی روایت بہت پرانی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جن شعراء نے اس روایت کو قائم رکھا ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، افتخار عارف، احسان دانش، ناصر زیدی، امجد اسلام امجد، حبیب جالب، خاطر غزنوی، پروین شاکر اور احمد فراز وغیرہ شامل ہیں۔ عہد حاضر کے شعرائے کرام میں عباس تابش، دلاور فگار، زہرا نگار، سلیم کوثر، سحر انصاری، سیف الدین سیف اور وصی شاہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور دبئی میں مقامی اور پاکستانی شعراء کی سرپرستی کرنے میں جو شخصیات پیش پیش ہیں ان میں چائے شائے ریسٹورنٹس اور کیفٹیریاز کی چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر نور الصباح پہلے نمبر پر ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایم بی بی ایس (MBBS) ڈاکٹر ہیں اور ساتھ میں کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ کم و بیش ہر ماہ اردو ادب کے فروغ کے لیئے کسی اردو مذاکرے یا مشاعرے کا اہتمام کرتی ہیں۔ گزشتہ اتوار “چائے شائے” اور “ترقیم” کے اشتراک سے ڈاکٹر نور الصباح نے پاکستان سوشل سنٹر شارجہ میں ایک عالمی مشاعرہ کا اہتمام کیا جس میں لوکل شعراء ابرار عمر، دلاور علی عازر، ملک عرفان، احمد جہانگیر، نیلو اسفر، سید سروش عثمان، پاکستان سے آئے ڈاکٹر صباحت اعظم واسطی، حبیب احیا اور اسلام انقلابی، جبکہ انڈیا سے تشریف لانے والے شعراء میں علی زیرک اور ندیم جوشی وغیرہ نے شرکت کی۔ پاکستان سے آنے والے مشہور شاعر اور اردو مجموعہ “تراش” اور فارسی دیوان “صد پارہ” کے خالق اختر عثمان نے مشاعرہ کی صدارت کی جبکہ سیدہ مسکان نے مشاعرے کی کمپیئرنگ کی۔ سپاس نامہ سید احتشام نے پیش کیا۔ مشاعرے کا آغاز شام ساڑھے پانچ بجے ہوا۔ اس سے پہلے مہمان شعراء کا تعارف صائمہ نقوی نے بہت خوبصورت انداز میں کروایا جس کے بعد ڈاکٹر نور الصباح نے اپنے مخصوص انداز میں خوش آمدیدی خطبہ پیش کیا۔

“ترقیم” اردو شعر و ادب کے فروغ کی تنظیم ہے جس کے بانی مقامی نوجوان اردو شاعر عدنان منور ہیں۔ جبکہ “چائے شائے” پاکستانی ریسٹورنٹس اور کیفٹیریاز کی چئین ہے جو سنہ 2021ء میں قائم ہوئی جو تب سے “پاک ٹی ہاؤس” کی طرز پر متحدہ عرب امارات میں ادبی اور ثقافتی پروگراموں کو فروغ دینے کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ترقیم اور چائے شائے کے اشتراک سے یہ پہلا عالمی مشاعرہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔ مشاعرے کو لگ بھگ دو سو سامعین نے سنا اور شعراء کو دل کھول کر داد دی۔
مشاعرے سے پہلے مشاعرے کے سپانسرز کو ایواڈز دیئے گئے، اس کے بعد اردو ادب کے فروغ کے لیئے جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں انہیں ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں ڈاکٹر سروش کی تنظیم “بزم اردو”، سید نسیم کی “کلچرل کارواں”، سید مسعود زیدی کی “اپلاز ادب” اور رحمان صدیقی اور شازیہ صاحبہ کی “انداز بیاں” تنظیمیں شامل ہیں۔ ادب نواز شخصیات اور شریک شعراء کو بھی ایوارڈ دیئے گئے۔ جبکہ مشاعرے کے اختتام سے پہلے میڈیا پرسنز کو بھی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر نورالصباح نے عجمان اور دبئی کے انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ڈاکٹر بننے تک اردو لکھنا پڑھنا نہیں نہیں جانتی تھیں مگر اردو شعر و ادب سے دیوانگی کی حد تک شوق نے انہیں اس کے فروغ پر لگا دیا۔ آج دبئی میں اردو ادب اور شعر و شاعری کی کوئی بھی محفل ہو اس کا احتمام کرنے، اردو سے محبت کرنے والوں کو اکٹھا کرنے اور ہر دوسرے پروگرام کو سپانسر کرنے میں ڈاکٹر صاحبہ سب سے آگے ہوتی ہیں کہ:
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں،
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں۔

Title Image by Dirk from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

جوسف علی

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔ روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

Next Post

کرغزستان میں پاکستانی طلبہ: موجودہ صورتحال کا تجزیہ

جمعرات مئی 23 , 2024
کرغزستان جو 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہوا، ایک مرکزی ایشیائی ملک ہے جو شروع دن
کرغزستان میں پاکستانی طلبہ: موجودہ صورتحال کا تجزیہ

مزید دلچسپ تحریریں