تاآنکہ نظام حکومت نہیں بدلا جاتا

تاآنکہ نظام حکومت نہیں بدلا جاتا

Dubai Naama

تاآنکہ نظام حکومت نہیں بدلا جاتا

رائج نظام سے قوم و ملک کے لیئے خیر کا دریا بہہ نکلنے کی امید رکھنے والے لوگ بھولے بادشاہ ہی نہیں بلکہ وہ ‘مہا بادشاہ’ بھی ہیں۔ یہ ایک ایسی میٹھی سرائیکی زبان کے محاورہ کہ “تسی وی بادشاہ او” کی مانند ہے تو محض ایک مثال کہ جس میں ایک بے وقوف شخص کو “بادشاہ” کہا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے نظام حکومت کی مہا جمہوریت کا کچھ ایسا ہی حال ہے کہ یہ جب سے بحال ہوئی ہے خود بادشاہ کہلانے کی بجائے اس نے الٹا پورے ملک کی عوام کو بادشاہ بنا رکھا ہے۔

جمہوریت مغربی ممالک کے سیکولر اور لبرل فلسفہ ہائے زندگی کا ایسا منطقی اور قدرتی نتیجہ ہے کہ جس میں عوام کے اکثریتی فیصلے ہی کو نظام حکومت کی آخری سچائی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم مسلمان اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق دنیا کو حقیقی زندگی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسلام کے مطابق دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ہم سب مسلمان اپنے اپنے اعمال کے لیئے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہمارا انداز زندگی ایپیکیورئین ماٹو آف لائف (Epicurean Motto Of Life) کی طرح مکمل طور پر آزادانہ نہیں ہے کہ “کھاو’ پیو اور عیش کرو”۔ جیسا کہ مسلم مغل بادشاہ کا ایک قول ہے کہ “بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”۔ ہم مسلمانوں کی اصل زندگی تو شروع ہی آخرت میں ہوتی ہے تو پھر عوامی اکثریت کو فیصلہ کن حیثیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟

دوسری جانب اسلامی دنیا کے کسی بھی ملک میں جمہوریت کبھی کامیاب نظام حکومت کے طور پر رائج نہیں رہی ہے۔ ہم مسلمانوں کی کامیاب حکومتوں میں ہمیشہ “نظام خلافت” کا کردار نمایاں رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد پہلے چار خلفائے راشدین نے “خلافت” کو دنیا کے بہترین نظام حکومت کے طور پر رائج کیا، بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمران “خلیفہ” کہلاتے تھے، عثمانیہ سلطنت کے فرمانروا بھی خود کو خلیفہ کہتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند کے مغلیہ مسلم حکمران بھی خود کو بادشاہ کہلواتے تھے۔ جبکہ آج کی کامیاب عرب مملکتوں میں بھی “جمہوریت” کسی جگہ رائج نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کے وہ مسلمان ممالک جہاں پارلیمانی جمہوری نظام حکومت کو وقتی طور پر آزمایا جا رہا ہے مثلا پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، سوڈان، ترکی اور ملائشیا وغیرہ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان ملکوں میں مغربی جمہوریت ایک بدیسی نظام حکومت ہے۔ اس کے مقابلے میں نظام خلافت مسلم حکما و شرفا کا نظام حکومت ہے جس کو وہ امانت کے طور پر ملک کی ترقی اور رعایا کی فلاح و بہبود کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔

خاص طور پر پاکستان میں آزادی کے 75سالوں میں مغربی جمہوریت کو جس طرح چند خاندانوں نے اپنے ذاتی مفادات اور کاروبار کے فروغ کے لیئے استعمال کیا ہے، ملک کے ذرائع اور وسائل کو لوٹا ہے اور باہر کے مغربی ملکوں میں جزیرے اور جائیدادیں وغیرہ بنائی ہیں، اقرباء پروری اور رشوت و بددیانتی (Corruption Etc) کو فروغ دیا ہے اس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ آپ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ تاریخ پاکستان میں سنہری ادوار جنرل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار رہے ہیں اور وہ دونوں ادوار مارشل لاء کے ادوار تھے۔ جبکہ گزشتہ تقریبا 45سالوں میں جب جب جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں ملک میں مہنگائی اور بیرونی قرضوں کا حجم ہمیشہ بڑھا یے۔

پاکستان کو آج بھی ایک ناکام ریاست کا نام دیا جاتا ہے اور دوسرا الزام اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں مداخلت کا ہے۔ اگر ملک کے امور کی انجام دہی میں اسٹیبلشمنٹ ہی کی چلتی ہے تو پھر پارلیمانی جمہوریت کی بجائے اس کا متبادل نظام حکومت کیوں نہیں آزمایا جاتا ہے؟ ہمارے ملک کی اصل مقتدرہ، اساتذہ، لکھاریوں اور دانشوروں کو سر جوڑ کر سوچنا چایئے کہ وطن عزیز کی لوکل تہذیبی اقدار، کلچر، رسم و رواج اور فوک کہانیوں تک میں کسی جگہ سو فیصد ذہنی آزادی کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے اور اسلام و خلافت ہی ہمارا اصل اور حقیقی نظام حکومت ہے تو پھر ہم مغربی جمہوریت سے ابھی تک کیوں چپکے ہوئے ہیں؟ جمہوریت ہمارے لیئے نظام حکومت کی ہزار نعمت ہرگز نہیں ہے کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یہ ہمیں صرف مغالطہ ہے کہ ہم ہمت کر کے جمہوریت کو چھوڑ دیں تو تب مرتے ہیں اور اگر نہ چھوڑ سکیں تو تب بھی مرتے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال اردو کی کی اس ضرب المثل میں پائی جاتی ہے کہ “نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں۔” ظاہر یے کہ یہ بادشاہ لوگ کوئی اور نہیں بلکہ عیاری سے پاک ہماری سادہ لوح عوام ہے۔ اپنی حالت پر آنسو بہانے سے دل ہلکا اور دکھ کا طوفان کم تو ہو سکتا مگر اس عمل سے رسوائی اور جگ ہنسائی بھی ہوتی یے۔ جمہوریت تو قرض کا نظام حکومت ہے کہ مرزا غالب نے کہا تھا کہ: “قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں، رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن.”

جمہوریت ہمارے ہاں ایسا نظام حکومت نہیں کہ جس میں جمہوریت نام کی کوئی چیز بھی ہے: “اس سادگی پہ کون نا مر جائے اے خدا، کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلوار بھی نہیں”۔ یہ سیاست دانوں کا حسن چلن رہا ہے کہ وہ ہر دفعہ نئے سے نئے پرفریب نعروں اور وعدوں سے عوام کا دل بہلا لیتے ہیں۔ “جیسی کرنی ویسی بھرنی”۔ جو حشر آج پی ٹی آئی کا ہوا ہے وہی حشر آئیندہ آنے والی ہر جمہوری حکومت کا ہونا ہے. اسلام اور مغربی جمہوریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ تاآنکہ نظام حکومت نہیں بدلا جاتا ہے کہ قوم و ملک کو دھوکہ دینے کا یہ دو طرفہ طریق جاری رہا تو ترقی کی بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھنی ہے۔ جائیں جتنے مرضی الیکشن کروائیں۔

Title Image by svklimkin from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اعترافِ فن

منگل جنوری 23 , 2024
جناب عاصم بخاری صاحب ضلع میانوالی اور بھکر کے ادبی افق پر ایک روشن ستارہ ہیں
اعترافِ فن

مزید دلچسپ تحریریں