انگلینڈ کی امیگریشن لینے کا ادھورا خواب

انگلینڈ کی امیگریشن لینے کا ادھورا خواب

Dubai Naama

انگلینڈ کی امیگریشن لینے کا ادھورا خواب

یہ گرفتاری سے پہلے کی ایک ادھوری مگر سچی کہانی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار تو راقم الحروف خود ہے۔ لیکن جب پاکستان میں مہنگائی، معاشی بدحالی اور بے روزگاری کو دیکھتا ہوں، تو یوں لگتا ہے کہ یہ کہانی پاکستان کے سفید پوش طبقے کے ہر اس نوجوان کی کہانی ہے جو حالات سے تنگ آ کر یورپ بھاگنے کا سوچ رہا ہے، چاہے اسے یونان جانے والی کسی سوراخ زدہ کشتی ہی میں کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

یہ فروری 2007ء کی ایک سرد صبح تھی۔ غیرقانونی سیاسی پناہ گزین کے طور پر میرے قیام کے 10سال پورے ہونے اور غیر معینہ مدت کا قیام (Indefinite Stay) ملنے کے امکان میں صرف ایک سال باقی تھا۔ کوئی بھی سیاسی پناہ گزین کسی ملک میں اس وقت تک غیر قانونی نہیں ہو سکتا جب تک پناہ لینے کی اسکی درخواست مسترد نہ ہو جائے اور وہ ہوم آفس کی ہدایت کے باوجود ملک چھوڑنے سے انکار نہ کر دے۔ برطانوی سپریم کورٹ نے پناہ کی میری درخواست خارج کر دی اور مجھے ہدایت کی کہ میں ایک ماہ کے اندر اندر برطانیہ چھوڑ دوں، مگر میں نے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اس روز “ریلائنس سیکورٹی کمپنی” کے ہیڈ آفس سے کال نہ آنے کی وجہ سے میں اسائلم اپلائ کرنے والے ایڈرس پر ہی موجود تھا۔ جونہی امیگریشن کی چھاپہ مار ٹیم کے فرنٹ ڈور کو زور زور سے مسلسل پیٹنے کی آواز آئی، میں نے بھاگنے کی غرض سے دوسری منزل سے گراونڈ فلور کے ایک کمرے کی چھت پر چھلانگ لگا دی مگر نیچے اتر کر جب میں نے گھر کا “بیک ڈور” کھولا تو وہاں بھی پولیس موجود تھی۔ امیگریشن کی ٹیم نے میرے کمرے کی تلاشی لی، میرا پاسپورٹ، بنک اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈز اور دیگر ضروری سامان ایک بیگ میں ڈالا اور پولیس مجھے ایسٹ لندن (East London) کے علاقے والتھم سٹو پولیس سٹیشن لے گئی جہاں میرے “آئی سکین” اور “فنگر پرنٹ” لئے گئے۔ اسی روز مجھے اپنے دوستوں اور وکلاء وغیرہ سے بھی رابطہ کرنے کی اجازت دی گئی جس کے بعد انہوں نے ضروری کاروائی کی اور شام تک مجھے کرائیڈن ڈیٹینشن سنٹر (Croydon Detention Centre) پہنچا دیا۔

انگلینڈ کے میرے 9سالہ قیام کی یہی وہ جگہ تھی جہاں پر مجھے پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ انسان کی زندگی میں معیشت کی کیا اہمیت ہے۔ یہاں پر مجھے ہر اسائلم سیکر کے منہ سے انگلینڈ پہنچنے کی بھانت بھانت کی اذیت بھری کہانیاں سننے کو ملیں۔ یہ سب کہانیاں “ہڈ بیتی” کہانیاں تھیں۔ ان میں کوئی جھوٹ یا مبالغہ آرائی نہیں تھی۔ وہاں میں نے دیکھا کہ کہیں یہ مہاجر فرانس سے کنٹینروں میں پہنچے تھے، کچھ کا پیچھا جنگلوں میں ہیلی کاپٹروں اور کتوں کے ذریعے کیا گیا تھا، کچھ کی اپنی بیوی یا گرل فرینڈ سے لڑائی ہو گئی تھی اور کچھ جرائم کی وجہ سے پکڑے گئے تھے۔ ان مہاجرین میں حیران کن حد تک کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے ملک واپس بھیجے جانے یعنی ڈپورٹ (Deport) ہونے کے بعد دوبارہ انگلینڈ پہنچے تھے مگر وہ بدقسمتی سے دوبارہ گرفتار ہو گئے تھے۔ سستے روٹس استعمال کر کے انگلینڈ آنے والے ان اسائلم سیکروں میں زیادہ تر انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی شامل تھے۔ انڈین پنجابی سکھ اور پاکستانی گجراتی غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرنے میں بہت دلیر واقع ہوئے تھے۔ ان دنوں بھی یہ اسائلم سیکر سائپرس، ایران اور ترکی وغیرہ کے راستے یونان داخل ہوتے تھے جہاں انہیں سمندری اور پہاڑی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس دوران کوئی بیمار ہو جاتا تھا تو ایجنٹ لوگ اسے قتل کر دیتے تھے۔ کچھ لڑکوں نے بتایا کہ جو لڑکے ان ایجنٹوں سے بحث یا بدتمیزی کرتے تھے وہ انہیں سمندر برد کر دیتے تھے۔ ان میں بہت سے لڑکے غیرقانونی طور پر سرحدیں پار کرتے ہوئے سرحدی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بھی بن جاتے تھے۔ جس طرح اس سال غیر قانونی طور پر یونان داخل ہونے والی ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں ایشیاء وغیرہ کے مختلف ممالک کے کم و بیش 400افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں تقریبا 300نوجوانوں کا تعلق پاکستان سے تھا، اس وقت بھی اس طرح کے بے شمار المناک واقعات پیش آتے تھے۔ ان بچ جانے والے لڑکوں نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور بھگتے بھی تھے۔ یہ نوجوان یونان پہنچنے کے بعد کچھ اٹلی، ہالینڈ، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور کچھ فرانس کے راستے سے برطانیہ پہنچ جاتے تھے۔ جب انگلینڈ میں پناہ کی درخواستوں پر تیزی (Fast Track) سے عمل درآمد شروع نہیں ہوا تھا تو اس وقت لیبر پارٹی کے رہنما ٹونی بلئیر برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔ تب امیگریشن کی پالیسیاں بہت نرم ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے برطانیہ کو اسائلم سیکروں کی “جنت” سمجھا جاتا تھا۔

انہی دنوں افغانستان سے شادی کے بہانے 200اسائلم سیکروں کا ایک جہاز بھی گن پوائنٹ پر “اغواء” ہو کر لندن پہنچا تھا۔ ایک واقعہ میں کسی ملک کے دو لڑکوں نے مسافر جہاز کے پہیوں والی کسی جگہ میں چھپ کر انگلینڈ پہنچنے کی کوشش بھی کی تھی جس میں ایک لڑکا خوف، سردی اور ہوا کے دباو’ کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا، جبکہ دوسرا لڑکا انگلینڈ تو پہنچ گیا تھا مگر اس کی پناہ کی درخواست رد ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود کہ میری پناہ کی درخواست بھی رد ہو گئی تھی۔ لیکن میں نے انگلینڈ میں ایک ناکام مہاجر (Failed Asylum Seeker) کے طور پر برطانوی ہوم آفس کے اجازت نامے کی وجہ سے پولیس کے ہیڈ کواٹر، الفورڈ بارکنگ سائیڈ، خفیہ پولیس کے دفتر، پٹنی بوز، لندن ایرینا، گلنگل برج اور بنک آف نیویارک، کیناری وارف میں کام کیا۔ اس دوران میں نے کبھی استقبالیہ پر کام کیا اور کبھی میں پولیس والوں کے آئ ڈی کارڈز اور انٹری پاسز وغیرہ چیک کرتا تھا۔ یہ کالم میں نے وہاں کی سپریم کورٹ سے اسائلم کی اپنی آخری درخواست کی ناکامی کے انتقام میں نہیں لکھا۔ اس کالم کو لکھنے کی ایک سبق آموز وجہ اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ انسان خوشحالی اور ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے سب سے زیادہ خطرات مول لیتا ہے اور اپنی زندگی تک کو داو’ پر لگا دیتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں امارت اور غربت کا تفاوت زیادہ ہے جس وجہ سے ہمارے متوسط طبقے کے نوجوان اپنے معاشی حالات کی بہتری کے لئے شارٹ کٹ مارتے ہیں یا یورپ وغیرہ جانے کے خواب میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ عالمی برادری کو چایئے کہ وہ دنیا کے ذرائع اور دولت کی تقسیم مساویانہ سطح پر کرے اور یا پھر دنیا کی “سرحدوں” کو ختم کر دے۔ دوسری دلچسپ وجہ یہ ہے کہ میں نے اسی دور میں “موٹیویشنل فلاسوفیکل اسیز” پر مبنی ایک کتاب “منفی قوت کا استعمال” Use of Negative Force by M. Yousaf Bhatti لکھی (جو گوگل پر سرچ کی جا سکتی ہے) جس کی تقریب رونمائی انگلینڈ کی پارلیمنٹ، “ہاو’س آف کامنز” (House of Commons) میں ہوئی مگر تب میں خود بھی ایک “ال لیگل امیگرنٹ” (Illegal Immigrant) تھا یعنی ایک غیر قانونی مہاجر تھا! مثبت رہیں، ہمت کبھی نہ ہاریں حالات جو بھی ہوں آپ کچھ بھی بڑا کام کر سکتے ہیں۔

Title Image by Joshua Woroniecki from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اپنی دھرتی اپنے لوگ،محمد صبغت اللہ خان

ہفتہ اکتوبر 7 , 2023
میاں محمد صبغت اللہ خان 21 جولائی 1958ء کو حاجی محمد سیف اللہ خان کے ہاں تحصیل لیاقت پور کے تاریخی شہر اللہ آباد میں پیدا ہوئے۔
اپنی دھرتی اپنے لوگ،محمد صبغت اللہ خان

مزید دلچسپ تحریریں