ترکی زبان یار من اور مسلم امہ کا احیاء
کراچی سے فکشن رائٹر، شاعرہ اور مصنفہ صائمہ صمیم نے "ترکی زبان یار من” کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر گلہ کیا کہ میں اپنے گزشتہ اظہاریہ میں کچھ مصنفین کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ میں کتابوں پر اکثر تبصرے لکھتا رہتا ہوں۔ آج کل ابوظہبی میں کتاب میلے اور "اردو بکس ورلڈ” پر مصروفیت کی وجہ سے ایک تو پورا دن "جناح پاکستان پوولین” پر گزرتا ہے جہاں روزانہ بکنے والی کتابوں، مصنفین اور بہت سارے کتاب دوست خریداروں سے واسطہ پڑتا ہے، جن سب کو یاد رکھنا بیک وقت میرے لیئے قدرے مشکل ہو جاتا ہے، اور دوسرا اردو زبان و ادب کے کچھ پروگراموں میں شرکت کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہوں۔ اس کے باوجود میری یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان شخصیات اور مصنفین کے کام کی حوصلہ افزائی کروں جو ہمارے اندر علمی آگاہی (Educational Awareness) کو اجاگر کرنے کے لیئے نمایاں کام کر رہے ہیں۔
مغربی دنیا میں سائنسی انقلاب کا بنیادی سبب "احیائے علوم” کی تحریک تھی جس کو انگریزی زبان میں "رینائیسنس” (Renaissance) کہا جاتا ہے جس کا آغاز 14ویں صدی میں
قرونِ وسطیٰ کے خاتمے پر اٹلی سے ہوا تھا جب پورا یورپ علم و آگاہی سے دور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت بادشاہت اور مذہبی پاپائیت کے گٹھ جوڑ کا زور تھا اور نئے خیالات کی نہ صرف سختی سے مخالفت کی جاتی تھی بلکہ سائنسی خیالات اور ایجادات کے لیئے کام کرنے والوں کو طرح طرح کی سزائیں اور اذیتیں دی جاتی تھیں جن سے ٹیلی اسکوپ (دوربین) کے موجد گلیلیو گلیلی جیسے عظیم الشان سائنس دان کو بھی گزرنا پڑا تھا۔ گیلیلو گلیلی کا کسی بھی دوسرے فرد کی نسبت سائنسی طرز فکر کی ترقی میں سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ لیکن ان کی خدمات کے برعکس ان پر ریاست میں "بدعت” پھیلانے کا الزام لگا کہ وہ خدا کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتا ہے جس کے سبب قاضی القضاء نے گیلیلیو کو مذہبی تصورات کو مسخ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور حکم دیا کہ وہ عوام الناس کی موجودگی میں معافی طلب کرے۔ اپنے زمانے کے اس بلند پائے کے سائنس دان اور علم طبیعیات کے جد امجد کو اپنی جان بچانے کے لیئے مجمع عام میں معافی مانگنی پڑی۔ سنہ 1642ء میں اندھے پن کی حالت میں اس عظیم انسان کی موت واقع ہوئی جسے آج کی سائنسی دنیا اور اطالوی لوگ اپنا محسن اور ہیرو گردانتے ہیں۔
اہل مغرب کو چودھویں صدی سے پہلے تک جہالت کے جس تاریک دور (Dark Ages) سے گزرنا پڑا، آج اسی سے ملتے جلتے عہد سے زوال شدہ مسلمان قوم گزر رہی ہے۔ اگرچہ آج کے جدید سائنسی دور میں حصول علم اور نئے خیالات کے فروغ میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی مگر حیرت انگیز طور پر انسانی ترقی کے اس "کوانٹم دور” میں مسلمانوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے بلکہ وہ اب بھی عدم علمی دلچسپی کی بناء پر جہالت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور سائنسی علوم کے فروغ اور ایجادات میں ان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر اس مایوس کن صورتحال میں کوئی شخص یا گروہ پاکستانی قوم (اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں) کے لیئے علم اور کتابوں کے فروغ کے لیئے کام کرتا ہے تو اسے ضرور خراج تحسین پیش کیا جانا چایئے۔
گزشتہ روز متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفارت خانہ ابوظہبی میں جس کتاب کی تقریب رونمائی میں حصہ لینے کا موقعہ ملا وہ مسلمانوں کی "نشانہ ثانیہ” کے اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام "زبان یار من ترکی” ہے جس کے مصنف ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ صاحب ہیں۔ اگرچہ 66ابواب اور 657صفحات پر مبنی یہ کتاب سفر نامہ ہے مگر اس میں ترک قوم اور کلچر کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کی تاریخ جھلکتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا امین یہ ترکی ایک سو سال تک انقلابات کی زد میں رہا۔ یہ ڈاکٹر بھٹہ صاحب کے زور قلم کا معجزہ ہے کہ جس نے اس سفر نامے میں ترکی کے ماضی اور حال کو اپنی محبت کا عملی اظہار بنا دیا ہے۔ یہ کتاب ایک سفرنامہ کی شکل میں بہترین ادبی کاوش بھی ہے جس کے ذریعے انہوں نے ترکی کی تاریخ، ثقافت اور اقدار وغیرہ کو کمال دلکشی اور مہارت سے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے عنوانات اور نفس مضمون اپنے اندر ترکی کے اس عہد کی جھلک لیئے ہوئے ہے جب عثمانی دور حکومت کا جھنڈا کم و بیش آدھی دنیا پر لہراتا تھا۔ جہاں اس کتاب میں ترکی کی سیر کے بہانے عثمانی عہد کی روشنی میں مسلمانوں کے عروج اور باقیات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا ہے وہاں ترکی کے مقامی لوگوں اور ان کی کہانیوں کو اس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ کتاب کے ضخیم ہونے کے باوجود اسے پڑھتے ہوئے قاری کی دلچسپی مسلسل برقرار رہتی ہے۔
ڈاکٹر اسلم بھٹہ صاحب پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور گزشتہ 20برس سے آسٹریلیا کے شہر بریسبین میں مقیم ہیں۔ انہیں پائلٹ بننے کا بھی شوق تھا جسے پورا کرنے کے لیئے انہوں نے آسٹریلیا میں ہوا بازی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور پرائیویٹ پائلٹ (PPL) کا لائسنس بھی حاصل کیا۔ انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اقبالیات میں ایم اے بھی کر رکھا ہے۔ زیر نظر کتاب ان کے ترکی کے سفر نامے کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب کے دل میں مسلم امہ کے عروج و زوال کا نمایاں درد نظر آتا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور اس کتاب میں انہوں نے ترکی کے پرکشش تاریخی مقامات اور ترک لوگوں کی عادات و اطوار اور روزمرہ کی جذیات کی تفصیلی سرجری کی ہے۔
کتاب کا عنوان امیر خسرو جنہیں اردو زبان کا پہلا شاعر بھی گردانا جاتا یے کے اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے، "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم، چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من۔” جس کا اردو ترجمہ ہے کہ میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے لبوں سے ادا ہو جائے۔ اس سے مصنف کی ترکی عہد اور ترک لوگوں سے محبت و عقیدت جھلکتی ہے۔ پاکستان میں "التغرل” ڈرامہ سیریل بھی پیش کی گئی تھی جس کی عکاسی صفحہ قرطاس پر موصوف نے ایک منفرد ادبی انداز میں کی ہے۔ اس کتاب میں نیلی مسجد، آبنائے باسفورس، ترکی کا ابن بطوطہ، حضرت ابواب انصاری، قصہ چہار درویش، استنبول کی زیرزمین مسجد اور التغرل غازی جیسے ابواب سرفہرست ہیں۔ اس کتاب کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 5 ہزار روپے ہے۔ کتاب ہارڈ بائنڈنگ میں ہے جس میں اعلی کوالٹی کا کاغذ استعمال ہوا ہے اور فور کلر تصاویر بھی شامل ہیں جس کے مقابلے میں یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔
کتاب ھذا کی تقریب رونمائی کی صدارت سفیر پاکستان جناب عزت مآب فیصل نیاز ترمذی صاحب نے کی، مہمان خصوصی انگلینڈ سے آئے ممتاز مصنف و صدر اخوت عارف انیس صاحب تھے، میزبانی کے فرائض منسٹر کونصلر ڈاکٹر کامران شیخ نے ادا کیئے اور مقررین میں اردو بکس ورلڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سرمد خان، ڈاکٹر شبینہ اسلم اور ڈاکٹر حسن خلیل سرفہرست تھے۔
اس تقریب کی خاص بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ متحدہ عرب امارات میں متعین پاکستان کے سفیر محترم فیصل نیاز ترمذی صاحب کی اردو زبان و ادب اور کتب و مصنفین کی پذیرائی ہے جنہوں نے ابوظہبی کے بک فیئر میں اردو بکس ورلڈ کے پوولین پر ایک ہفتہ میں تین وزٹ کئے اور دو کتب کی پاکستان کے سفارت خانہ میں تقریب رونمائی کروائی۔ انہیں جب بھی پبلک میں دیکھا وہ ایک عام آدمی کی طرح ہر ایک سے ملن ساری کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ہر ایک سے ان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے بات کرتے ہیں۔ چند روز قبل وہ ہمارے جناح بک پویلئین پر آئے تو وہاں ایک 19سالہ قاضی نامی وولینٹیئر سے ان کا تعارف ہوا جس نے بتایا کہ وہ شاعری کرتے ہیں۔ سفیر صاحب نے اس سے فرمائش کی کہ وہ اپنی شاعری کے کچھ نمونے انہیں بھیجیں۔ کل جب تقریب میں سفیر صاحب کی اس نوجوان سے مدبھیڑ ہوئی تو انہوں نے پوچھا، "قاضی صاحب آپ نے مجھے شاعری نہیں بھیبجی؟”
قوموں کی ترقی کا راز ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے وجود سے وابستہ ہے جو علم کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کسی بھی انقلاب کوئی بنیاد رکھتا ہے تبھی وہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک ملین میلوں کا سفر بھی پہلا ایک قدم اٹھانے سے طے طے ہوتا ہے۔ میں انگلینڈ میں 9سال رہا اور وہاں اپنی کتب کی لانچ میں لندن میں سفیر پاکستان کو مہمان خصوصی کے طور پر بلانا چاہتا تھا مگر ان سے ملنے کے لیئے وقت تک نہ لے سکا۔ یہاں فیصل نیاز ترمذی صاحب سمندر پار پاکستانیوں کی مدد کے لئے اپنا نمبر سائلین کو خود بانٹتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ علم اور کتابوں کے فروغ میں اسی لگن اور محنت سے کام لیتے رہیں تو مسلم دنیا میں بھی مغربی طرز پر "احیائے علوم” کی تحریک پیدا ہو سکتی ہے کہ عملی میدانوں میں فتح حاصل کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ چھوٹا ہی سہی ایک قدم تو اٹھایا جائے (امید ہے محترمہ صائمہ صمیم کے اعتراض کی کچھ تلافی ہو گئی ہے)۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |