اوورسیز پاکستانیوں کا اقتدار میں کوٹا مقرر ہونا چاہئے
لاہور کے زاہد منظور بھٹی برمنگھم میں "یوکے کیب” (UKCAB) کے نام سے ایک چیرٹی ادارہ چلاتے ہیں۔ ایک عرصہ سے ان کے خیراتی کاموں کی تفصیل پڑھ رہا ہوں دماغ میں اکثر خیال آتا ہے کہ وہ یہ کام پاکستان میں کیوں نہیں کرتے ہیں؟ شنید ہے کہ انہوں نے لاہور ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں ایک ہسپتال بنوایا ہے جہاں غریب اور نادار مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ انگلینڈ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور "سوشل ویلفیر سٹیٹ” ہے کیا وہاں بھی لوگوں کو مکان، کپڑوں، کھانے پینے کی اشیاء اور خیرات کی نقد رقم لینے کی ضرورت پڑتی ہے؟ زاہد منظور یہ خیر و نیکی کا کام بلاتفریق و تحقیق انجام دے رہے ہیں۔ وہ کاروبار سے جتنا ہیسہ کماتے ہیں چیرٹی کے کاموں میں لگا دیتے ہیں جن افراد کو وہ خوشیاں دیتے ہیں وہ انہیں جانتے ہیں اور نہ ہی ان سے کسی قسم کے صلہ یا انعام کی توقع رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے فنڈ ریزنگ پروگرام میں بھی 10000پونڈ دیئے تھے۔ امکان ہے کہ وہ خفیہ طور پر پاکستان میں چیرٹی کے بہت سے اور پروگرام بھی چلا رہے ہوں گے۔
ان کے علاوہ دیگر خوشحال اور متمول سمندر پار پاکستانی باہر اور پاکستان کے اندر دل کھول کر چیرٹی کے کام کرتے ہیں۔ انگلینڈ ہی کے بیسٹ ویز کے مالک پاکستانی برٹش انور پرویز، جنہیں ملکہ برطانیہ نے کاروباری خدمات کے عوض "سر” کا خطاب بھی دیا، وہ ہر سال اپنے منافع کا 2اشاریہ 5فیصد حصہ چیرٹی میں دیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کے تحت انہوں نے "بیسٹ ویز سیمنٹ فیکٹری” لگائی اور کچھ بنکوں کے شیئرز بھی خریدے۔ وہ انگلستان میں سب سے زیادہ امیر پاکستانی ہیں جن کے اثاثے 3اشاریہ ایک بلین ڈالر کے ہیں۔ امریکہ میں مقیم شاہد خان ان سے زیادہ امیر ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 2025ء میں 13اشاریہ 3 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ وہ بھی پاکستان میں چیرٹی اور بھلائی کے کاموں میں ضرور حصہ لیتے ہوں گے۔ انگلینڈ کے پاکستانی برٹش چوہدری محمد سرور بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ، رجانہ، پیرمحل اور راولپنڈی میں چیرٹی ہسپتال چلا رہے ہیں جہاں ادویات سمیت بلکل مفت علاج ہوتا ہے بلکہ رجانہ میں چوہدری محمد سرور صاحب ایک بچوں کا ہسپتال بھی چلا رہے ہیں جہاں چند سال پہلے میں نے خود وزٹ کیا تھا۔ وہاں پورے ضلع ٹوبہ بلکہ فیصل آباد ڈویژن سے لوگ آتے ہیں۔ چوہدری سرور فاونڈیشن کا یہ ہسپتال بہت مشہور ہے جہاں سپیشلسٹ ڈاکٹرز ہیں اور بچوں کی پیدائش اور علاج کا ایک روپیہ بھی چارج نہیں کیا جاتا ہے اور دوائیاں بھی بلکل مفت دی جاتی ہیں۔
پاکستان کے لیئے خیراتی کام کرنے والے ان سمندر پار پاکستانیوں کی تفصیل کافی طویل ہے۔ آغا جہانگیر بخاری صاحب بتا رہے تھے کہ ضلع اٹک چھچھ کے علاقے میں ایک سمندر پار پاکستانی ہیں جو نیکی اور خیرات کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کا خیراتی کام چلتا رہتا ہے وہ ایک "لنگر کھانا” بھی چلاتے ہیں جہاں روزانہ ایک بیل زبح کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ غیر ملکی امیر پاکستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ کرپشن ہے، لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے یہ سرمایہ دار غیرملکی پاکستانی ایک عمومی رائے یہ رکھتے ہیں کہ، "پاکستان ایک انتہائی خطرناک اور غیریقینی سٹیٹ ہے جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔” لھذا یہ غیرملکی پاکستانی دیگر محفوظ ممالک مثلا متحدہ عرب امارات، دبئی وغیرہ میں سرمایہ انوسٹ کرتے ہیں۔ بے شک بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت سرمایہ دار ہیں جنہوں نے مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ دبئی میں جنرل انوسٹمنٹ کے اعتبار سے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں انڈیا، یو کے، چائنا، رشیا، ایران اور سعودی عرب کے بعد پاکستان کا 7واں نمبر ہے جبکہ ترکی 8ویں نمبر پر ہے جبکہ کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ کے سیکٹر میں پاکستانی سرمایہ کار بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ اظہاریہ میں بھی وضاحت کی تھی کہ پاکستانی وطن سے محبت کے باوجود کرپشن، قبضہ مافیا اور بدانتظامی کے باعث مایوس ہو کر اور "اپنا سب کچھ پاکستان چھوڑ کر” واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو حکومت کو انہیں محفوظ سرمایہ کاری اور کاروباری مواقع فراہم کرنے ہوں گے، ورنہ ہم اپنی سب سے بڑی معاشی اور ذہنی صلاحیت سے یونہی محروم ہوتے رہیں گے۔
پاکستان سے باہر کے ترقی یافتہ ممالک میں اعلی حصول تعلیم یا روزگار کے لیئے باہر جانے والوں کے حوالے سے پاکستان کو "ذہانت کے اخراج” (برین ڈرین) کا مسئلہ بھی درپیش ہے، جس پر ایک الگ سے اظہاریہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سمندر پار پاکستانیوں نے زندگی کے سرد گرم دن دیکھے ہوتے ہیں، ان کے پاس اعلی تعلیم، تجربہ اور ہنر ہوتا ہے اور مختلف قومیتوں سے لین دین، ماحول اور معیار کی وجہ سے ان میں صبروتحمل، برداشت اور دانشمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ کیسے اکٹھا ہوتا ہے اور خوشحالی کیسے آتی ہے۔ اگر حکومت انہیں سرمایہ کاری کی بہتر سہولیات اور ماحول دے یا اس سے بھی بڑھ کر ان کے لیئے اسمبلیوں میں خصوصی نشستوں کا کوٹا مقرر کیا جائے اور انہیں اقتدار میں بھی شامل کیا جائے تو اس سے ایک نہایت شاندار، اہل اور باکردار قیادت ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت ہر سال دو سال بعد بیرونی قرضوں کی قسط یا ان پر محض سود کی ادائیگی کے لئے دوست ممالک سے ایک دو بلین کا قرض لینے کی جو بھیک مانگ رہی ہوتی ہے، یہی سمندر پار بزنس مین اس مد میں نہ صرف کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ اس تجویز پر عمل کیا جائے تو وہ پاکستان کا پورا قرضہ سال دو سال میں چکتا کر سکتے ہیں۔ ان قیادتوں کو تو ستر سال ہو گئے بہت آزما لیا۔ جہاں ہماری اسمبلیوں میں ان پڑھ، راشی، شرابی اور زانی تھوک کے اعتبار سے پہنچ جاتے ہیں، ان صاف ستھرے اور باکردار سمندر پار پاکستانیوں میں سے کچھ کو وہاں بیٹھنے کا موقع دیا جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ اس سے پاکستان بہت کم وقت میں اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن حکومت کو سنجیدہ اور مخلص ہو کر انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔
البتہ اس تجویز پر عمل وہی حکومت کر سکتی ہے جو اپنے اقتدار سے زیادہ ملک سے مخلص ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بیان دیا تھا کہ، "بھارت کو ترقی میں پیچھے نہیں چھوڑا تو شہباز نام نہیں۔” اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنا بڑا دعوی ایسے ہی چند "تخلیقی” اور "انقلابی” اقدامات اٹھانے ہی سے پورا ہو گا۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف میں یہ کر گزرنے کی بھرپور ہمت اور صلاحیت بھی ہے اور ہم اہل وطن خوش قسمتی بھی ہیں کہ پاکستان کی باگ ڈور ان کے پاس آئی ہے اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ آرمی چیف عاصم منیر بھی انقلابی سوچ رکھتے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |