ساتویں بیٹی

ساتویں بیٹی


آزادکشمیر کے بلند چوٹیوں والے پہاڑ کی کچی دشوار گزار پگڈنڈی پر مکانوں سے دور بد حالی میں لپٹے کچے گھر میں بچے خط غربت کی لکیروں کی افادیت سے نا آشنا خود ساختہ خوشیوں سے صحن میں کھیل رہے تھے ۔ گھر میں معمول سے ہٹ کر ہلچل دیکھنے میں آ رہی تھی کہیں سفر پہ جانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔خاتون خانہ سفری ضرورت کی چیزیں تلاش کرکے بیگ میں رکھ رہی تھی اس کا خاوند بھی حالت اضطراب میں گھر سےباہر جاتا اور جلد پلٹ کر آجاتا میاں بیوی کسی انجانے خوف میں،کسی غیر متوقع خبر کو سننے میں بے بسی محسوس کر رہے تھے۔تیاری مکمل ہو گئ گھر سے نکلنے سے پہلے خاوند نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اسے دو ٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ سنا دیا کہ ہم راولپنڈی ہسپتال میں جا رہے ہیں وہاں تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ٹھیک ہے لیکن اگر لڑکی پیدا ہوئی تو میں لڑکی گھر نہیں لاؤں گا بلکہ وہیں کسی کو دے دوں گا۔ حالت زچگی میں کسی عورت کی اس سے زیادہ کیا بے بسی ہو سکتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے اس کے اندر کا دکھ سامنے آرہا تھا۔


دادی اماں صحن میں خاموش کھڑی بچیوں سے کہہ رہی تھی کہ تمھاری امی بیمار ہیں انہیں پاکستان کے بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھانے جا رہے ہیں جلد واپس آ جائیں گے۔گھر کے تین افراد پر مشتمل قافلہ کچی پگڈنڈی پر بس سٹاپ کی طرف پیدل چل پڑا۔
ہسپتال پہنچ کے لیڈی ڈاکٹر کے معائنہ کے بعد ہسپتال میں داخلے اور بیڈ کی فراہمی کے مرحلے سے گزر کر وارڈ کا ایک بیڈ ملنے پر خاتون کو داخل کرا دیا گیا۔تیسرے روز اس کے ہاں بچی پیدا ہوئی۔ بچی کی پیدائش کی خبر سے کیا کہرام مچا۔بچی کا باپ اس خبر سے پاگل ہو رہا تھا ہسپتال کے عملے کو کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی بچی لینا چاہے تو میں بچی دینا چاہتا ہوں۔ ہسپتال کے عملے میں ایک سٹاف کو کسی بے اولاد خاتون نے کہہ رکھا تھا کہ اگر کسی نے بچی دینی ہوئی تو ہمیں اطلاع کرنا۔سٹاف نے بچی کے باپ سے رضامندی پوچھ کر کال کی تو تھوڑی دیر بعد میاں بیوی آئے اور بچی کے باپ سے ملے اور اس سےبات چیت کرکے پوچھا کہ آپ بچی کس طرح دیں گے تو اس۔ ے کہا کہ میری کوئی شرط نہیں ہے آپ بچی لے کر جا سکتے ہیں۔میاں بیوی نے مشورہ کرکے اس کے والد کو اشٹام لکھ کر دینے اور ضروری قانونی کروائی کا کہا جس کے بعد بچی کے باپ کو دو ہزار روپے اخراجات کی مد میں دیئے اور بچی کو حوالے کرنے کو کہا تو بچی کا باپ وارڈ میں گیا اور بیوی کو بتایا کہ اس نے بچی دے دی ہے تو ماں کی فریادیں اور خاوند کی منتیں کہ وہ بچی نہ دے بچی کی دادی نے بھی اپنے بیٹے کے آگے ہاتھ باندھے اس کے پاوں پر اپنا دوپٹہ رکھا اور بیٹے کو بچی دینے کے ظلم سے روکنا چاہا لیکن بچی کے والد نے کسی کی نہ سنی اور بیوی کو ہسپتال سے ڈسچارج کر اکر واپس گھر آگیا۔
بے اولاد میاں بیوی خوشی خوشی بچی کو لے کر گھر أ گئے۔بے اولاد جوڑا جن کا گھر کرائے کا تھا اور خاوند کسی محکمے میں ایڈہاک ملازم تھا۔گھر کے مالی حالات معاشی ایمر جنسی والے تھے بچی مل جانے کی خوشی میں وہ اپنے مسائل کو بھول کر بچی کی خدمت میں اپنے آپ کو مصروف کرلیا۔ بچی کے اس گھر میں آنے سے جیسے خوش قسمتی نے بھی اس گھر میں ڈیرے ڈال لیئے ہوں۔تھوڑے دنوں بعد اس کے باپ کی نوکری پکی ہوگئی ۔ بے اولاد جوڑے کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی اور گھر کی خوشیوں میں اصافہ ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنا گھر بنالیا یوں اس بے اولاد جوڑے اور معاشی بد حالی والے گھر کا شمار خوش قسمت خاندانوں میں ہونے لگ گیا۔


فطرت نے جہاں ایک بچی کو بھیج کر ساری محرومیاں،ساری تنگدستیاں ختم کرنی تھیں،خوشحالی کو اس گھر کا مقدر بنانا تھا لیکن شاید غربت کا وار بہت سخت اور ناقابلِ برداشت ہوتا ہےجو انسان کو پاگل کرکے اس سے ایمان بھی چھین لیتا ہے۔ساتویں بیٹی تو یقینی طور پر رحمت ہوتی ہے۔

Title Image by Microsoft Designer

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

محمد فاروق خان

Next Post

وزیراعظم کا دورہ متحدہ عرب امارات

جمعہ مئی 24 , 2024
ملکوں کی معاشی ترقی کا دارومدار خود انحصاری پر ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے جن ممالک کو اپنے پاو’ں پر کھڑا ہونے میں مدد
وزیراعظم کا دورہ متحدہ عرب امارات

مزید دلچسپ تحریریں