مشرق وسطی کی نئی عالمی صف بندی
اگر پاک بھارت جنگ جاری رہتی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے منفعت بخش کاروباری دورے کبھی نہ کر پاتے۔ صدر ٹرمپ کے اس کامیاب دورے کے بعد امریکہ تیزی سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کرنے کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔ امریکہ کو یہ موقع کاروبار کے کنگ ڈونلڈ ٹرمپ نے فراہم کیا۔جنگ کے آغاز میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، دونوں ممالک اسے خود سلجھائیں۔ جنگ کے آغاز سے چند ہفتے قبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ 4 سالوں میں 420 ارب ڈالر کا اسلحہ سپلائی کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ شائد اس معاہدے کے پیچھے بھارت نے سمجھا کہ اس کی پشت پر امریکہ کھڑا یے یا پھر بھارت کی پیٹھ ٹھونکی گئی تھی اور پہلگام کو بہانہ بنا کر 7مئی کو انڈیا نے بہاول پور میں پاکستان پر حملہ کر دیا، 10مئی کو پاکستان نے بھارت کے مختلف شہروں، اسلحہ کی انسٹالیشنز اور چوکیوں وغیرہ کو ملتا میٹ کر کے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کو سرپرائز دیا تو انڈیا نے پاکستان کے سامنے کھٹنے ٹیک دیئے اور امریکہ کی طرف بھاگا جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف جنگ بندی کروا کر بھارت پر احسان کر دیا اور دوسری طرف صدر ٹرمپ اگلے ہی روز 11 مئی کو سعودی عرب پہنچ گئے جہاں ان کا غیر روایتی انداز میں تاریخی استقبال کیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی آلات کی فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کی مالیت تقریباً 142 بلین ڈالر ہے۔ جبکہ سعودی عرب نے 600 بلین ڈالر (168,600 ارب روپے) کی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا میگا معاہدہ بھی کیا جو مشرقِ وسطیٰ کی نئی سمت کا تعین کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی امریکہ میں دیگر انوسٹمنٹ کو بھی اس میں شامل کیا جائے تو یہ تقریبا ایک ٹریلن ڈالر کی سرمایہ کاری بنتی ہے۔ جس پس منظر میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدے ہوئے ٹرمپ کا یہ صرف ایک سفارتی دورہ ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کی طاقت کے توازن کو ایک نئی سمت دینے والا معاہدہ ہے، بلکہ یہ تاریخی سرمایہ کاری ایک ایسا معاہدہ ہے جو عالمی معیشت اور دفاعی تعلقات کے نقشے کو ایک نئی جہت دے رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ کے ان دفاعی معاہدوں میں جدید ترین اسلحہ، جنگی طیارے، میزائل سسٹمز اور فوجی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 20 بلین ڈالر مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ڈیٹا سینٹرز کے قیام کے لئے بھی مختص کیے گئے ہیں، جبکہ 80 بلین ڈالر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں۔
یہ معاہدے صرف مالی لین دین ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف خود کو جدید عالمی معیشت کا مرکز بنانے جا رہا ہے، بلکہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے ساتھ مل کر وہ اپنے دفاعی اور تکنیکی اتحاد کو بھی نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ بڑھتی سعودی قربتوں کا توازن بحال کرنے کی کوشش ہے یا ٹرمپ کی واپسی کی سیاسی زمین ہموار کرنے کی ایک اسٹریٹیجک چال ہے؟ یہ جو بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی اسلحہ خریداری اور سرمایہ کاری کے یہ معاہدے نہ صرف امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی سعودی انویسٹمنٹ کا پیکج ہے، بلکہ اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی جانب مبذول کر دی ہے۔
امریکی صدر کے اس تہلکہ خیز کامیاب دورے نے عالمی منظرنامہ کو سرعت رفتاری سے بدل دیا ہے۔ امریکہ جب سے پاپولرازم کی طرف بڑھا ہے نتیجتا امریکہ اور دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ کا تحفہ ملا ہے۔ ٹرمپ ایک کامیاب ترین کاروباری ہستی ہیں۔ اس دورے میں سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان بن عبدالعزيز آل سعود اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع شامی نے بالمشافہ ٹرمپ سے ملاقات کی اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اب شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ اسی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے سعودی کراؤن پرنس کی سفارش پر شام سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان کر دیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شام کے صدر احمد الشرع سے یہ 37 منٹ کی ملاقات بہت غیر معمولی ملاقات ثابت ہوئی جس کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ماضی میں شامی صدر "القاعدہ” سے وابستہ رہے تھے۔ امریکہ کی جانب سے شامی رہنما کے سر کے لئے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا جو اس سے قبل امریکہ نے دسمبر 2024 میں ختم کیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہو گی، میری خواہش ہے اور امید ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں بھی شامل ہو جائے گا۔
ابراہیمی معاہدے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معاہدے سنہ 2020ء میں امریکہ کی ثالثی میں طے پائے گئے تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل کو ابراہیمی بھائی قرار دیتے ہوئے اسے بطور ریاست تسلیم کرانا ہے۔ ابراہیمی معاہدے جو سال 2020ء میں طے ہوئے تو اس وقت کے اہم فریق اسرائیل، یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے۔ اس میں مرکزی فریق کے طور پر اسرائیل سرفہرست تھا جس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ متحدہ عرب امارات پہلا عرب ملک تھا جس نے ستمبر 2020ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے۔ متحدہ عرب امارات کے فوراً بعد بحرین اس میں شامل ہوا، جبکہ جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیئے رضامند ہوا تھا۔ پانچویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شراکت اختیار کی تھی۔
ابراہیمی معاہدے کے فریق ممالک میں سے کسی بھی ملک نے فلسطین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر بات چیت نہیں کی تھی۔ کیوں کہ یہ معاہدے بنیادی طور پر فلسطین سے الگ ہو کر طے پائے تھے۔ اہل غزہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ایران حزب اللہ جیسی پراکسیز بند کرے تو ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیئے تیار ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کئی مواقعوں پر کہہ چکی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، لہذا محسوس ہوتا ہے کہ ایران اس معاہدے کی جانب پیش رفت کرے گا اور شاید اس طرح دو ریاستی فارمولہ طے پا جائے۔ اگر فلسطین کو ایک الگ ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو ابراہیمی معاہدے کامیاب ہو سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ ایران سعودیہ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک دو ریاستی حل کے لئے ٹرمپ سے ایک پائیدار معاہدہ کر سکتے ہیں۔
یوں اگر فلسطین کا دو ریاستی حل نکل آتا ہے اور سب ممالک اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں پاکستان کیا کرے گا؟ پاکستان وہی کرے گا جو سعودی عرب کرے گا، اور سعودی عرب وہی کرے گا جس سے اس کی مسلم دنیا میں عزت بحال رہے۔ لگتا یہ ہے کہ عزہ کو نکال معاملات دو ریاستی مستقل حل کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس سے کچھ ماہ قبل ٹرمپ نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ عزہ کو خوبصورت رئیل سٹیٹ اور تفریح گاہ بنائیں گے، جس کی عملا ابتداء کچھ عرصہ بعد ٹرمپ کے اس دورے کے بعد ہو سکتی ہے۔
بناء بریں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دورے سے دنیا کے سامنے ان کا مزاج کھل کر سامنے آیا ہے۔ ٹرمپ کو پیسہ چاہئیے، پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ اور کام کرا، اگر اسرائیل نے ٹرمپ کو پیسہ دکھایا ہے تو سعودی کراؤن پرنس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ جب 12مئی کو متحدہ عرب امارات پہنچے تو وہاں بھی انہیں روایتی ڈانس کے ساتھ غیرمعمولی پروٹوکول دیا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں بھی سرمایہ کاری کے کامیاب وعدے و معاہدے کیئے جس کے بعد 13 مئی کو ٹرمپ جب قطر پہنچے تو وہاں ان کا اس سے بھی زیادہ پرتپاک طریقے سے استقبال کیا گیا۔
قطر کی ریاست نے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو حسب موقع و محل ایک بوئنگ 747 "ٹرمپ فورس ون” نامی طیارہ تحفے میں دیا ہے، جس کی دم پر 24 قیراط سونے کا پورٹریٹ، سنہری اندرونی حصہ، اور سونے کا ایک ٹھوس واش روم شامل ہے۔ یہ بھی ٹرمپ دورے کی طرح ایک تاریخی تحفہ ہے جس کی قیمت 400 ارب ڈالرز بتائی جا رہی یے، جسے قطری حکام نے "دوستی اور احترام کی علامت” قرار دیا۔
سرمایہ کاری کاروبار اور اثاثوں کی خریداری کو کہتے ہیں جبکہ سرمایہ داری یا کیپٹل ازم ایسا نظام معیشت ہے جس میں تمام پیداوری ذرائع یا صنعتیں اور کاروبار نجی ملکیت میں ہوتے ہیں، جہاں حکومت کی مداخلت برائے نام ہوتی ہے۔ آزاد اور فری مارکیٹ اس نظام معیشت کی بنیادیں ہیں. اشیا کی طلب اور رسد سے ان کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے.
آپ مختلف کمپنیوں کے اسٹاک، بانڈز، یا رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں. گویا یہ آپ کے اثاثے ہیں. سرمایہ کاری کا مقصد اپنے لگائے ہوئے سرمائے پر آمدنی یا منافع حاصل کرنا ہے.
سعودی عرب کی امریکہ میں سرمایہ کاری کوئی نئی چیز نہیں ہے جسے بعض حاسد اور متعصب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ دفاع کے بدلے بھتہ یا خراج قرار دے رہیں مگر اب اس کے حجم میں اس دورے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کی طرح ملک بھی دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں. چین نے امریکہ میں مینوفیکچرنگ، رئیل اسٹیٹ، اور فنانس کے شعبوں میں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے. امریکہ نے بھی چین میں مینوفیکچرنگ، ٹریڈ، فنانس، اور انشورنس کے شعبوں میں 127 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے. جبکہ خود امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں جاپان 783 ارب ڈالر، کینیڈا 750 ارب ڈالر، جرمنی 658 ارب ڈالر، برطانیہ 636 ارب ڈالر، فرانس 370 ارب ڈالر اور دیگر ممالک کی 1349 ارب ڈالر کی
سرمایہ کاری موجود ہے، سرمایہ کاری کرنے والا ملک اور جس ملک میں سرمایہ کاری کی جائے دونوں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |