اسرائیل فلسطین کی غیراعلانیہ جنگ اور اسکا دو ریاستی حل

اسرائیل فلسطین کی غیراعلانیہ جنگ اور اسکا دو ریاستی حل

Dubai Naama

اسرائیل فلسطین کی غیراعلانیہ جنگ اور اسکا دو ریاستی حل

7اکتوبر ہفتہ کے روز فلسطین پر اسرائیلی حملے میں 200 سے 232فلسطینی شہادتوں کے بعد سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات پر اوس پڑ گئی ہے۔ اس سے قبل 26ستمبر کو اسرائیلی وزیر سیاحت ہائم کاٹز نے سعودی عرب کا اعلانیہ اور باضابطہ دورہ کیا تھا۔ اس دوران سعودی عرب کا ایک وفد 30سال کے بعد پہلی بار  مقبوضہ ویسٹ بینک گیا تھا، جس کی قیادت فلسطینی علاقوں کے لئے سعودی عرب کے ‘غیر مقیم‘ سفیر نائف السدیری کر رہے تھے۔ اس پیش رفت سے پاکستان اور انٹرنیشنل میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ شائد سعودی عرب بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔ اس موقع پر اسرائیل کے وزیرخارجہ ایلی کوہن نے بھی اپنے ایک چونکا دینے والے انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد چھ یا سات دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، جن کا تعلق ایشیاء اور افریقہ سے ہو گا۔ اس پس منظر میں پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے موضوع پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا تھا۔ لیکن اسرائیل کے اس حملے کے بعد خطے کی حالت انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق حماس کے مجاہدین نے حیران کن طور پر جنگی ہتھیاروں سے لیس ہو کر  پیدل، گاڑیوں اور پیراشوٹس کے زریعے اسرائیل کے اندر گھس کر مزاحمتی کاروائی کی اور اسرائیل کے شہروں پر راکٹوں سے حملے کیئے جس کے نتیجے میں 100اسرائیلیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ ایک خبر کے مطابق حماس کے چھاپہ مار جنگجوو’ں نے کچھ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بھی بنایا جس میں عرب میڈیا ایک اسرائیلی جرنیل کی گرفتاری کا دعوی بھی کر رہا ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ ایک مکمل جنگ کا آغاز دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ کے اسرائیل کی حمایت اور امداد کے اعلان، اور ایران کے فلسطین کی حمایت کے اعلان کے بعد ایران اسرائیل کی براہ راست جنگ کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں کیونکہ حماس کی اس کامیابی کو ایرانی پارلیمنٹ میں اور ایران کے “فلسطین سکوائر” میں نعروں کے ساتھ فلسطین کی فتح سے تعبیر کر کے جشن منایا گیا۔ ایران کے سپریم لیڈر کے فوجی مشیر میجر جنرل صفوی نے کہا کہ “ایران اسرائیل کے خلاف فلسطینی آپریشن کی حمایت کرتا ہے اور ایران پورے فلسطین کی آزادی تک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔” جس کے بعد اسرائیلی اور ایرانی صدور میں سخت مخاصمانہ بیانات کا بھی تبادلہ ہوا۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ حماس کے حالیہ حملے کو بھی ایران فنڈنگ کر رہا ہے جس وجہ سے اسرائیل ایران پر حملے میں پہل کر سکتا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ ملٹری آپریشن نہیں بلکہ “کھلی جنگ” ہے جس کے بعد انہوں نے اسرائیل کے ریزرو فوجیوں کو بھی حکم دیا کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے اور وہ فوری طور پر میدان میں اتریں۔ اسرائیل کے اس حملے کی مذمت کرنے اور ملا جلا ردعمل دینے والے ملکوں میں روس مصر، قطر اور شام سرفہرست ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بیان دیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ ہوئی تو بھارت اسرائیل کا ساتھ دے گا۔ جبکہ یورپ کے اکثر ممالک نے غزہ کی پٹی سے حماس کی طرف سے اسرائیلی شہری آبادیوں پر حملے کی مذمت کی ہے جس میں یورپی کمیشن، فرانس، چیک ریپبلک، بیلجئیم اور برازیل وغیرہ شامل ہیں۔

اسرائیل فلسطین کی غیراعلانیہ جنگ اور اسکا دو ریاستی حل
Image by Rodolfo Quevenco from Pixabay

19ستمبر کو اقوام متحدہ میں 70ممالک اور تنظیموں کا اجلاس سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ہوا تھا، جس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کی گئی تھی۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی سطح پر بحالی کے دوران یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان نے مذاکرات کے دوران اسرائیل کو واضح پیغام بھجوایا تھا کہ اسرائیل کو سعودی عرب اسی شرط پر قبول کرے گا جب اسرائیل 1967ء کے مقبوضہ علاقے عرب دنیا کو واپس کرے گا۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی یہی بیان دیا ہے کہ، “مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں موجود ہے”۔ یہ مشرق وسطی کے مسئلے کا واحد حقیقت پسندانہ حل ہے، کیونکہ جب تک فلسطین کی مکمل آزادی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، سعودی عرب اور پاکستان سمیت باقی ماندہ مسلم ممالک “صیہونی” ریاست اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

سعودی عرب کو عالم اسلام میں ایک معتبر اور رہبر ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ سعودی عرب کو پوری اسلامی دنیا “ارض مقدس” کا درجہ دیتی ہے کیونکہ یہ سعودی سرزمین اہل اسلام کے لئے عقیدتوں کا مرکز و محور ہے۔ اکثر مسلم ممالک اسی طرف دیکھتے ہیں جدھر “خادم حرمین شریفین” دیکھیں۔

اسرائیل کے بارے سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی بڑے غور و خوض کے بعد آئی تھی۔جنگ و جدل کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اب شاید امن کے ذریعے فلسطین کے حق میں معاملات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہو رہے تھے۔ خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات، مراکش اور بحرین اسرائیل کو حالیہ ماہ و سال میں پہلے ہی تسلیم  کر چکے تھے۔ قریب تھا کہ اسرائیل کو سعودی عرب اور واحد مسلم “ایٹمی قوت” پاکستان بھی تسلیم کر لیتا مگر اسرائیل نے اچانک فلسطین پر حملہ کر کے نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کے امن کو داو’ پر لگا دیا۔

اسرائیل کے اس حملے کے بعد اب سعودیہ عرب، جو ہمیشہ فلسطینی مجاہدین کی مالی معاونت کرتا رہا ہے، کے لئے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس حد تک آگے بڑھاتا ہے، یا سرے سے سعودی عرب کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ دوبارہ کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

منتہائے فکر ، عشقِ کرب و بلا

پیر اکتوبر 9 , 2023
مقبول ذکی مقبول نے اپنی شعری تصنیف ٫٫ منتہائے فکر ،، مطالعہ کے لئے عنایت کرتے ہوئے اس بات کا تقاضا کیا تھا کہ اس کتاب پر
منتہائے فکر ، عشقِ کرب و بلا

مزید دلچسپ تحریریں