امارت کی آگ

امارت کی آگ

Dubai Naama 

امارت کی آگ

دولت و دنیا انسان کا سب سے بڑا نشہ ہے۔ اس نشے کی لت پیسے کو بطور ضرورت استعمال کرنے سے شروع ہوتی ہے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو امیر انسانوں کی اکثریت پیسے کو نام و ناموس اور آسائش و آرام یا تعیش کے لئے استعمال کرنے لگتی ہے۔ آپ نے امیر لوگوں کے بارے نوٹ کیا ہو گا کہ وہ دنیا کو اپنے پیسے کی طاقت سے متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دولت ان کے سارے عیب چھپا لے گی! آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ دو میں سے ایک نیک دل اور ایک بدکردار بات کرے تو لوگ اسی آدمی کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں جس کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بہت سارے امیر لوگ دل میں سفاک اور ظالم ہوتے ہیں، وہ دوسروں کا حق کھا جاتے ہیں، ہمسائے کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، ضرورت مندوں کے کام نہیں آتے یا جہاں بھی انہیں پیسہ بنانے کا موقع ملتا ہے، وہ اپنے ضمیر کی آواز پر قطعا توجہ نہیں دیتے، بلکہ اس نوع کے امیر لوگوں کا اپنی دولت میں اضافہ کرتے کرتے ضمیر تک مر جاتا ہے۔ اس کے باوجود امیروں کی اکثریت خیرات کرتے ہیں، سکول اور لنگر خانے کھولتے ہیں، ہسپتال بنواتے ہیں، حج عمرے پر جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے عطیات دیتے ہیں۔ اس طرح کے امیر لوگ جن غریب لوگوں کی کسی نہ کسی صورت میں ضرورت پوری کرتے ہیں یا ان کے کام آتے ہیں تو دنیادار لوگوں میں ان امیروں کے بارے میں ایک اچھی شہرت یا نیک نامی پیدا ہو جاتی ہے جس سے امیر لوگ نفسیاتی طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شائد وہ اچھے انسان ہیں!

یہ دولت اور امارت کا ایسا نشہ ہے جو ایک بار کسی غریب کو بھی لگ جائے تو وہ امیر ہونے پر اسی قسم کی سوچ کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے غربت کے زمانے میں کبھی وہ نفرت کیا کرتا تھا۔

امارت کی آگ
Image by Thomas Rüdesheim from Pixabay

فوربز کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین آدمی اور دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ 100امیر آدمی ہر سال خیرات (Charity) میں اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں مگر ان کی دولت میں پھر بھی کمی نہیں آتی بلکہ یہ مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ گوگل پر آپ صرف بل گیٹ کے خیراتی کاموں کی تفصیل دیکھیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ دنیا میں تعلیم عام کرنے اور غربت و بیماری وغیرہ کو ختم کرنے کے لئے اتنی ڈھیر ساری دولت خرچ کرتا ہے تو اس سے وہ غریب کیوں نہیں ہو جاتا؟ سرمایہ داری نظام انسان کی اسی منافقانہ سوچ پر قائم ہوتا ہے کہ “سرمایہ داری” اپنے پاس زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنا، رکھنا اور اس پر اپنی ملکیت جتانے کا نام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) چند انسانوں کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کی جنگ ہے۔ امیر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے دولت کمائی ہے تو اس کے مالک صرف وہی ہیں۔ حالانکہ “ملکیت” کا یہ تصور انسانیت کش ہے۔ انسان تو دولت و ذرائع پر “قبضہ گیر” ہے۔

اسلام میں دولت و دنیا خدا کی ملکیت ہیں۔ انبیاء نے اپنی زندگیوں میں کبھی دولت جمع نہیں کی۔ قرآن پاک اخلاقی نظام کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے جو انسانی ہمدردی، مساوات اور انصاف پر قائم ہوتا ہے تاکہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد دولت کے “ارتکاز” کو روکا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ “دولت کا نشہ” انسان کے اصل کردار کو اندھا کر دیتا ہے۔

ایک حدیث شریف میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ، “اگر ایک دنیا دار انسان کو ایک سونے کی پہاڑی دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا، اسے دوسری دی جائے تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا، حتی کہ اس کی دولت کی یہ بھوک اس کی قبر کی مٹی بجھائے گی۔”

ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک بادشاہ سردی کے موسم میں اپنے محل میں داخل ہوتے وقت ایک دربان کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے، “کیا آپکو سردی نہیں لگتی۔” دربان سردی سے کانپتے ہوئے کہتا ہے، “لگتی ہے۔” بادشاہ سلامت دربان سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ محل میں جا کر اس کے لئے گرم لباس بھیجے گا مگر وہ گرم محل کے اندر جا کر یہ بات بھول جاتا ہے۔ اسی رات وہ دربان سردی سے مر جاتا ہے۔ جب صبح بادشاہ اسے مرا ہوا دیکھتا ہے تو اسے دربان کے سرہانے پڑا ہوا رقعہ ملتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے، “میں ایک عرصے سے اسی پھٹے پرانے لباس میں سردی برداشت کر رہا تھا، مگر کل رات بادشاہ کے وعدہ کی وجہ سے میں سردی برداشت نہ کر سکا اور بادشاہ کی وعدہ خلافی نے میری جان لے لی۔”

امارت بھی ایسا ہی بدترین نشہ ہے جو دولت کے انبار کے خلاف غریب لوگوں کو ان کا حق دینے کی بجائے ان پر ترس کھانے اور ان کے ساتھ “وعدہ خلافی” کا مرتکب کرتا ہے۔ امیر لوگ غریبوں کو دلاسہ دیتے ہوئے عموما کہتے ہیں، “پیسہ قسمت کی بات یے۔” خدا کسی کی قسمت بری نہیں لکھتا۔ طاقت رکھنے کے باوجود اپنے قریبی انسانوں کی ضرورتیں پوری نہ کرنے والے کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ جو امیر لوگ کئ کاریں، بہت سی کوٹھیاں، سونے جواہرات کے محلات بناتے ہیں یا اپنے بچوں کو گھٹی ڈالنے کے لیئے سونے کی چمچیاں بنواتے ہیں، جب ان کو دولت کا حساب دینا پڑے گا تو دنیا کی یہی عیش و عشرت ان کے لئے آگ کا الاو’ بن جائے گی۔ بہت سارے امیر اور سرمایہ داروں کو دنیا میں بھی عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مشاعرہ چائے شائے، بیاد یوم پاکستان

پیر اگست 21 , 2023
اس دفعہ پاکستان اور اردو سے محبت کرنے والے سمندر پار پاکستانیوں نے یوم آزادی اتنا جوش و جزبے سے نہیں منایا جس طرح ہر سال وہ پہلے مناتے تھے
مشاعرہ چائے شائے، بیاد یوم پاکستان

مزید دلچسپ تحریریں