سائنس اور ٹیکنالوجی کا ماحول
سائنس کو عموما مشکل مضمون سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ سائنس پر عبور صرف ذہین بچے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس غلط العام سوچ کو پھیلانے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ شور کوٹ کینٹ، آزاد پور سے ایک کرم فرما غلام حیدر کھمان نے گلہ کیا ہے کہ سائنس کے موضوع پر میرے کالمز ان کے سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ حالانکہ موصوف پیشے کے اعتبار سے ماسٹر ڈگری ہولڈر لیکچرر ہیں۔ کسی حد تک ان کی یہ عمومی بات درست بھی ہے کیونکہ ہمارے اساتذہ اور طلباء بلکہ والدین اور دوست احباب بھی سکول میں بچوں کے داخلے کے وقت ہی ان کو یہ بات ذہن نشین کروا دیتے ہیں کہ: “سائنس ایک مشکل مضمون ہے۔” جبکہ یہ صرف ایک مغالطہ ہے کیونکہ سائنس کے مقابلے میں آرٹس کے مضامین مشکل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آرٹس کے سبجیکٹس مثلا تاریخ، اسلامیات، جغرافیہ، ڈرائنگ، بائیو کمپیوٹر، پولیٹیکل سائنس اور اردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی یا دیگر زبانیں وغیرہ انتہائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ ان پر عبور حاصل کرنے کے لیئے لامحدود ذہانت، حافظے اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سائنسی مضامین مثلا فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور بیالوجی وغیرہ پر ایک اوسط درجے کا ذہین بچہ بھی دسترس حاصل کر سکتا ہے کیونکہ سائنس ایک ریاضیاتی مضمون ہے جس کے جوابات صحیح ہوں تو اس کے 2 جمع 2 کے درست جواب 4 کی طرح اس کے نمبر نہیں کٹتے ہیں اور طلباء 100 میں سے 100 نمبر بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر آرٹس کے مضامین میں طلباء جتنا بھی زور لگا لیں وہ پورے نمبر 100/100 حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
سائنس کے خلاف یہ نفسیاتی پروپیگنڈہ پھیلانے کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر بچوں کی یہ نفسیات بنانے میں ہمارا روایت پسند معاشرہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ آپ شہروں اور دیہاتوں میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں میں یہ سروے کروائیں اور ان سے یہ سوال پوچھ کر دیکھ لیں کہ: “سائنس مشکل مضمون ہے یا آرٹس؟” تو بچوں کی کم نہیں تو 90% تعداد کا یہ جواب ہو گا کہ سائنس ایک مشکل مضمون ہے۔ بدقسمتی سے بچوں کا یہ ذہن بچوں نے خود نہیں بنایا بلکہ اسے فروغ دینے کا ذمہ دار خود ہمارا معاشرہ ہے جس کے جوان اور بوڑھے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سائنس پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
علم میں دلچسپی لینا ہی تعلیمی اور علمی مضامین کو آسان اور مشکل بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ آپ کی جس مضمون میں دلچسپی زیادہ ہو گی وہ آپ کو آسانی سے یاد ہو جائے گا اور جس میں کم ہو گی وہ دیر سے یاد ہو گا یا ممکن ہے کہ آپ اسے یاد ہی نہ کر سکیں۔ اس کی بھی بنیادی وجہ آپ کا نفسیاتی رجحان ہے جو مشکل شے کو آسان اور آسان شے کو مشکل بنا دیتا ہے۔ ارشاد گرامی ہے کہ “وہی ہوتا ہے جو آپ سوچتے ہیں”۔ اسی تاثر کو آپ معاشرے میں عام کر دیں اور بچوں کی نفسیاتی طور پر تربیت کریں کہ سائنس ایک آسان مضمون ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بچے اس میں زیادہ دلچسپی لیں گے جس سے بچے آرٹس کی بجائے سائنس پڑھنے کو ترجیح دینا شروع کر دیں گے۔
سائنس کے دلچسپ مضمون ہونے کا ایک سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ایک پراسرار مضمون ہے کہ جو فطرت کے رازوں اور ان کے طریقہ ہائے کار کو افشا کرتا ہے۔ اس حوالے سے طلباء کی ذہانت سے زیادہ ان کی دلچسپی اور ان کا تجسس کام آتا ہے مثلا البرٹ آئینسٹائن اور تھامس ایڈیسن ہی کو لے لیں کہ وہ پڑھائی میں کم اور اوسط درجہ کے طالب علم تھے۔ حتی کہ ان دونوں عظیم سائنس دانوں نے اپنی ڈگریوں پر توجہ دینے کی بجائے صرف سائنس میں اپنی دلچسپی کو قائم رکھا اور وہ دنیا کے چوٹی کے سائنس دان بن گئے۔
شائد آپ نہیں جانتے ہونگے کہ مشہور زمانہ ‘تھیوری آف ریلیٹوٹی’ (Theory of Relativity) کے موجد اور ’فادر آف ماڈرن فزکس‘ کہلائے جانے والے نامور ترین سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کو اسکول میں لیٹریچر اور دیگر مضامین پڑھتے ہوئے بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے 1905ء میں فوٹو الیکٹرک افیکٹس، براؤنین موشن، اسپیشل ریلیٹیویٹی، اور ماس اور انرجی کی مساوات پر چار اہم مقالے شائع کروائے اور اس سال کو آئن سٹائن کے ’معجزوں کا سال‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب انہوں نے سائنس کے میدان میں یہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اس وقت وہ درجہ چہارم کے پیٹنٹ کلرک تھے۔ اسی طرح پوری دنیا کو روشن کرنے والا الیکٹرک بلب کا موجد اور 1093 ایجادات کی پیٹنںٹ کو اپنے نام رجسٹر کروانے والے سائنس دان تھامس ایڈیشن کو دس سال کی عمر میں اس کی ٹیچر نے اس کی ماں کو خط لکھ کر سکول سے نکال دیا تھا کہ اس کا بیٹا کند ذہن اور نالائق ہے جس کی تعلیم و تربیت کا انتظام آپ خود اپنے گھر میں کریں، ہم اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ بعد میں یہی بظاہر نکما طالب علم اس صدی کا سب سے بڑا اور عظیم ترین سائنس دان ثابت ہوا۔
یوں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیئے ضروری نہیں کہ ہمارے طلباء بہت زیادہ جینئس یا لائق فائق ہوں۔ البتہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرے کہ بچے آرٹس کے مقابلے میں سائنس کو آسان مضمون سمجھیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لینا شروع کریں۔ اس مد میں نظام تعلیم کو از سر نو مرتب کرنا، اساتذہ اور بچوں کے لیئے سائنسی پروگرامز و سیمنارز ترتیب دینا اور اس کے لیئے انعامات وغیرہ کا سلسلہ شروع کرنے سے ایک ایسا ماحول بن جائے گا کہ ہمارے ملک میں بھی آئنسٹائن اور تھامس ایڈیسن جیسے سائنس دان پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ بچوں کے لیئے سائنس کو آسان مضمون بنا کر پیش کرنے سے بچوں کی سائنس اور ایجادات میں دلچسپی بڑھ جائے گی۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔