ٹرین اغواء کا دہشت گردانہ واقعہ
بلوچستان کوئٹہ ٹرین کے اغوا کی تفصیلات آ رہی ہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ افغان شدت پسند شریف اللہ عرف جعفر کے امریکی عدالت میں پیشی کے روز پیش آیا۔ اتفاق سے کوئٹہ بولان کے قریب جس ٹرین کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام بھی "جعفر ایکسپریس” تھا۔ اس بدقسمت ٹرین میں 400 مسافر سوار تھے جن میں سے 100 مسافروں کو دہشت گردوں نے اغواء کر کے ٹرین کو آگ لگا دی تھی۔ واقعہ کے بعد سبی ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ایمبولینسز جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہو گئیں۔ بلوچستان دشوار گزار اور پہاڑی علاقہ ہے جہاں تک رسائی میں دشواری پیش آ رپی تھی۔ لیکن محکمہ ریلوے کی جانب سے امدادی ٹرین جائے وقوعہ پر روانہ کر دی گئی۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے ہنگامی اقدامات کی ہدایت پر تمام ادارے متحرک ہو گئے۔ بی ایل اے نے اس اغواء کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یرغمالیوں میں پاکستانی فوج، پولیس، آئی ایس آئی اور اے ٹی ایف کے حاضر سروس اہلکار شامل ہیں، جو چھٹیوں پر جا رہے تھے۔ جبکہ عام شہریوں خاص طور پر خواتین، بچوں، بیماروں اور بلوچ شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کر کے رہا کروا لیا گیا تھا۔
آخری اطلاعات آنے تک سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں سے 80 مسافروں کو دہشت گردوں سے بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد دوطرفہ فائرنگ میں 13 دہشت گرد اور 6 سیکورٹی اہل کار شہید ہوئے۔ ٹرین سے اغواء ہونے والوں میں اکثریت فوجی اہلکاروں، آئی ایس آئی کے عملے اور سیکورٹی فورسز کے ملازمین کی تھی۔
چند روز قبل محمد شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستان نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا، جو اگست 2021ء میں کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایبی گیٹ خودکش بم دھماکے میں ملوث تھا۔ اس حملے میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران 13 امریکی فوجی اور 170 کے قریب افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق ملزم شریف اللہ جعفر کو حکام کی جانب سے بدھ کی سہ پہر ورجینیا کی وفاقی عدالت میں ابتدائی سماعت کے لیئے پیش کیا گیا اور ٹرین اغواء کا واقعہ بھی بدھ کے روز پیش آیا۔ اگرچہ ٹرین کے اغواء کی ذمہ داری بلوچستان کی کالعدم تنظیم بی ایل اے نے قبول کی ہے مگر ایک حیرت انگیز خبر یہ ہے کہ ہماری ایجنسیوں نے امریکی ٹپ پر پکڑ کر جو ملزم سی آئی اے کے حوالے کیا تھا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کو پکڑنے کا سہرا بھی اپنے سر سجا لیا تھا اور پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا، اس نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ کابل میں ایک نائی اور باورچی کا کام کرتا تھا اور اس پر لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات درست نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے وہ اپنے تمام جرائم کا اقرار بھی کر چکا تھا۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں اس ٹرین پر بزدلانہ حملے کا واقعہ پیش آنے سے پہلے دہشتگرد، افغانستان میں اپنے "ماسٹر مائنڈ” سے رابطے میں تھے۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں اغواء ہونے والی اس ٹرین کو ڈرائیور امجد یاسین چلا رہا تھا جو دہشتگروں کی فائرنگ سے شہید ہو گیا، ان کا تعلق چھانگا مانگا کے گاؤں چک نمبر 17 سے بتایا گیا ہے۔ شہید ٹرین ڈرائیور امجد یاسین کے والد یاسین راجپوت بھی کوئٹہ ریلوے میں بطور الیکٹریشن ریٹائر ہوئے تھے اور اپنی ملازمت کے دوران یاسین نے بچوں سمیت مستقل رہاٸش کوٸٹہ میں رکھی ہوئی تھی۔ امجد یاسین کا ایک بھاٸی ارشد یاسین ریلوے لاہور میں ٹرین گارڈ کے طور پر ملازمت کرتا ہے۔ امجد یاسین نے تعلیم بھی کوٸٹہ کے سکولز میں حاصل کی اور وہیں ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ ٹرین ڈرائیور کی شادی چھانگا مانگا میں زراعت آفیسر چوہدری ایوب منج مرحوم کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ امجد یاسین ایک بیٹی اور دو بیٹوں کا باپ تھا۔ سب سے بڑی بیٹی ڈاکٹر اور دونوں بیٹے ایف ایس سی اور میٹرک کے طالبعلم ہیں۔ پاکستان ریل مزدور اتحاد کے تمام ذمہ داران و کارکناں نے اس اندوہناک واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ، طلال چوہدری نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس سے متعدد یرغمالیوں کو شدت پسند پہاڑی علاقے میں لے گئے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کا آپریشن تاحال جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کو بزدلانہ دہشت گردی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کو عبرتناک انجام تک پہنچائیں گے، خون بہانے والوں کو زمین پر جگہ نہیں ملے گی، دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا، دشمن سن لے بلوچستان میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔
اس واقعہ کی مذمت صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے بھی کی ہے اور پورا پاکستان غم کی حالت میں ہے۔ لیکن یہ حملہ ٹرین پر نہیں ہوا بلکہ پاکستان کی سالمیت پر ہوا ہے۔ اگرچہ سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کے تعاقب میں ہیں اور علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن جاری ہے۔ لیکن جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا یے تب تک پاکستان میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔
بلوچستان میں چین نے "سٹرٹیجک” سرمایہ کاری کر رکھی ہے. بلوچستان میں دھشتگردوں کو فری ہینڈ دینے سے گوادر کا پراجیکٹ خطرے میں چلا جائے گا۔ ایک طرف چین کو ناراض کرنا اور دوسری طرف نئی امریکی حکومت کو خوش کرنا پاکستان کو کسی نئی جنگ میں گھسیٹ سکتا ہے۔ ادھر کے پی کے اور سندھ میں بھی حالات خراب ہیں اور کچے کے ڈاکو بھی سیکورٹی فورسز کو آئے روز تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نازک موقعہ پر افواج پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا جائے تاکہ پاکستان کی سالمیت، امن و امان اور حکومت کی رٹ کو مکمل طور پر قائم کیا جا سکے۔
ملکی حالات شدید اور خراب تر ہوتے جا رہے ہیں سندھ، بلوچستان اور پختون خواہ کے درمیان یکجہتی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آپریشن کی صورت میں باقی محصور مسافروں کو مارنے کی دھمکی دی گئی ہے ۔ یہ صورتحال انسانی المیے میں بھی بدل سکتی ہے۔ ٹرین کے باقی یرغمالی مسافر رہائی کے منتظر ہیں۔ بلوچستان کو "نو گو ایریا” نہیں بنایا جانا چایئے۔ بلوچستان اور کے پی کے صوبے قدرتی معدنیات سے مالا مال ہیں۔ ہمارے دشمن نہیں چاہتے ہیں کہ یہاں امن قائم ہو۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |