جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے تو کسی حد تک سوچا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو اس اعتبار سے ایک “پلانٹڈ” انٹرویو تھا
عمران خان
میاں نواز شریف کی آمد محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ ہماری عوام کی نفسیات میں، “سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی”،
عمران خان نے عوام میں جتنا سیاسی شعور بیدار کر دیا ہے اب عوام کو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔
یہ دو فریقین کے درمیان دو بدو خوفناک جنگ ہے جس کو آئین، جمہوریت یا ‘سول بالادستی’ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اس ساری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، 13 جماعتوں پر مبنی متحدہ حکومت کو یا تحریک انصاف اور تن تنہا عمران خان کو؟
جمہوریت کی تعریف کے مطابق یہ طرز حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بلکل الٹ ہے۔ بقول اقبال بندوں کو گننا اور تولنا
حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو جھکنے پر مجبور کر دے۔ بصورت دیگر، خدا نہ کرے، ملک کسی بھی ناخوشگوار سانحہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
واضح طور پر اگلی وزارت عظمی کی جنگ عمران خان اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔
عمران خان کی باتوں پر جس شخص کو پہلے کوئی شک و شبہ تھا اب اسے یقین ہوجائیگا کہ یہ لوگ فاشسٹ اور جمہوریت کش ہیں ۔ جمہوریت میں آزادی اظھار رائے پہلی شرط ہے
شیطانی سیاست سیاست کی اس قسم میں سیاست دان یا حاکم ، ریاست اور رعایا کو نہیں بلکہ خود کو مضبوط و مستحکم اور خوشحال بنانے کی تدبیر کرتا ہے ۔