پاکستانی تشخص کا احترام
نہ صرف برادر خلیجی ممالک بلکہ اب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پاکستانیوِں کے ناقص رویوں کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ 70 کی دہائی تک پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانیوں کی انٹری تھی جس میں برطانیہ بھی سرفہرست تھا۔ انگلینڈ نے پاکستان پر ویزوں کی پابندی 80 کی دہائی میں لگائی۔ اس سے قبل پاکستانی ورکرز برطانوی فیکٹریوں کی سب سے بڑی مانگ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایماندار تھے اور دل جمعی سے کام کرتے تھے۔
اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، لیبیا، قطر، ملیشیاء اور جنوبی کوریا وغیرہ میں بھی پاکستانی افرادی قوت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان ممالک کی ریکروٹنگ ایجنسیاں پاکستانی ورکروں کے انٹرویو کرنے کے لیئے باقاعدہ پاکستان جاتی تھیں۔ لیکن جب سے پاکستانیوں نے ان ممالک میں قوانین کی خلاف ورزی اور دو نمبری کرنا شروع کی پاکستان کا امیج تیزی سے خراب ہوتا رہا حتی کہ اب دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ 78ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
گذشتہ دنوں عراقی حکومت کی جانب سے ایک خط جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ زیارتوں کے ویزوں پر آ کر عراق اور ایران میں بھیک مانگتے ہیں۔ اس خط نے پاکستان کی عزت و وقار کو داو’ پر لگایا ہے۔ ایمانداری سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ عرب ممالک میں پاکستانی بھکاری موجود ہیں مگر افسوس ہے کہ ان ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں نے پاکستان کو بدنام کرنے والے ایسے قلیل سمندر پار پاکستانیوں کے خلاف کبھی نمایاں کاروائی نہیں کی ہے۔ ان مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے وہ پاکستانی بھی خوار ہو رہے ہیں جو اپنے معیاری قول و فعل اور کردار کے ذریعے پاکستانی سفیروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔محض یہ حکومت اور پاکستانی سفارت خانوں ہی کا کام نہیں بحیثیت قوم ہم سب سمندر پار پاکستانیوں کا بھی فرض ہے کہ ہم پاکستان کو بدنام کرنے والے سمندر پار پاکستانیوں پر نظر رکھیں اور انہیں ایسے غیر ذمہ دارانہ کام کرنے سے روکیں۔
ہم میں سے ہر سمندر پار پاکستانی اپنے ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر چند افراد اپنے غیر ذمہ دارانہ اعمال کے ذریعے پوری قوم کو بدنام کرتے ہیں، تو اس کی ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ اس میں ہم سب قصوروار ہیں اور یہ ہماری پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہم اپنے ملک کے سفیر ہیں، اور ہماری ہر حرکت سے ہماری پوری قوم کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب میں بھی پاکستانی زائرین عمرے کے ویزے پر جاتے تھے اور وہاں غائب ہو جاتے تھے یا بھیک وغیرہ مانگنے جیسے ہتک آمیز کام کرتے تھے۔ سعودی عرب ہو یا ایران اور عراق ہوں وہاں زیارتوں پر جانے کا مقصد روحانی سکون اور مذہبی عقیدت کا اظہار ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک میں بھیک مانگنے کا بہانہ ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر یہ لوگ پورے پاکستان کو اس مقدس عمل کے زریعے بدنام کر رہے ہیں۔ جب ہم اپنے مذہبی مقامات پر جائیں تو ہمیں اپنی پاکستانی شناخت کا ضرور خیال رکھنا چایئے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں حج اور عمرے یا ایران اور عراق میں جانے والے زائرین کے لیئے ویزوں کا احتمام کرنے والی کچھ ایجنسیاں بھی اس میں ملوث ہیں۔ کم و بیش ہر سال حج و عمرے اور ٹکٹوں میں بھی فراڈ ہوتا ہے اور کچھ مکار ایجنسیاں اور ایجنٹس زائرین کے کروڑوں روپے لے کر بھاگ جاتی ہیں۔ ایسے بدنام زمانہ افراد زیارت کو ایک تجارتی یا مالی مفاد کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے اسلامی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف خلیجی ممالک ہمارے زائرین کے داخلے پر سخت پابندیاں لگا رہے ہیں اور ان کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔
بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں اپنی کرداری سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ہمیں اپنے کردار پر غور کرنے کی طرف توجہ دینی چایئے۔ ہم پر فرض ہے کہ بحیثیت ایک فرد اور قوم ہم اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لے کر آئیں۔ حکومت اپنی جگہ اقدامات کرے، لیکن عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔ زائرین کو زیارتوں پر بھیجنے سے پہلے حکومت کو چایئے کہ وہ ان کی مختصر تربیت کریں اور ان سے حلف نامہ لیں کہ وہ مقدس مقامات پر جا کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں، نہ کہ وہ بھیک مانگ کر یا کوئی غلط کام کر کے اپنے ملک کی عزت کو مجروح کریں۔
پاکستان کے بعد معرض وجود میں آ کر بہت سے ممالک ترقی کر گئے ہیں مگر پاکستان ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔ ایک وقت تھا چین جانا پاکستان کے لیئے سب سے آسان کام تھا مگر آج چین کا ویزہ لینا امریکہ، برطانیہ اور جاپان وغیرہ سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ ہمارے ایسے منفی افعال سے پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں تیزی سے بدنام ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کو جہاں معاشرے کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا چایئے وہاں ہمارے شہریوں پر بھی فرض ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر پاکستان کا مثبت تشخص پیش کریں۔
کسی بھی ملک کا معاشرتی نظام اس کے افراد کی مثبت اور منفی سرگرمیوں پر استوار ہوتا ہے۔ہمیں اپنے سیرت و کردار کو بہتر بنانے کی خاطر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہر جگہ حکومت کا قصور نہیں، ہم بحیثیت قوم بھی اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم عالمی سطح پر عزت اور نام و ناموس چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویوں کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چایئے۔ صرف حکومت پر انگلی اٹھانا اور تنقید کرتے رہنا ہی کافی نہیں ہے، ہمیں پاکستان کا بہتر ایمج اجاگر کرنے کے لیئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چایئے تاکہ دنیا میں پاکستان کی پہچان ایک ذمہ دار اور باعزت قوم کے طور پر کروائی جا سکے (بشکریہ سرمد خان)۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔