جس کو حاصل تری چوکھٹ کی جبیں سائی ہو
اگرچہ1906ء میں ضلع اٹک میں رہنمائے تعلیم کی اشاعت سے رسائل و اخبارات کے اجرا کی روایت قائم ہو چکی تھی لیکن کئی سالوں تک نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے رسائل کے حوالے سے اٹک کا دامن تہی نظر آتا تھا؛البتہ نذر صابری صاحب مرحوم کے زیرِنگرانی محفلِ شعر و ادب کے زیرِ اہتمام نعت کا چلن عام ہوتا رہا؛اس کے علاوہ صابر حسین شاہ نے بھی ضلع اٹک کے نعت گو شعرا پر کچھ کام کیا تھا لیکن انھیں بھی اپنی تحقیقی کاوش کی اشاعت کے لیے دسمبر 1996ء میں ماہ نامہ ’’نعت‘‘لاہور کا منت پزیر ہونا پڑا۔ لیکن 2013 کا سال ادبی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ یہاں اٹک سے یکے بعد دیگرے دو رسائل نعتیہ ادب کی ترویج و فروغ کے لیے میدانِ عمل میں نکلے ۔سب سے پہلے مجلہ’’ فروغ ادب‘‘کا قافلہ روانہ ہوا اور پھر اس کے فوراََ بعداسی مہینے میں ’’نعتیہ ادب‘‘ کا چراغ روشن کیا گیا اور یوں یہ دونوں رسائل اٹک میں نعتیہ ادب کی مجلاتی روایت کا نقطہ ٔ آغاز ہیں۔آنے والے وقتوں میں اٹک میں ادب سے وابستہ لوگ نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ان رسائل کے ممنون ہوں گے ۔ شاکر القادری صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھوتے کام کا انتخاب کرتے ہیں۔مجلہ فروغ نعت کا اجرا بھی ان کے اچھوتے کاموں میں شمار ہو گا۔کیونکہ اس سے پہلے ضلع اٹک میں نعت کے حوالے سے کسی مجلے ،کتابچے یا اخبار کونعت کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا ۔ جولائی2013ء مجلے کی اشاعت کا نکتہ آغاز ہے اورمجلہ 112 صفحات پرمشتمل ہے؛ ڈاکٹر ریاض مجید،ڈاکٹر عزیز احسن،ڈاکٹر شہزاد احمد،ڈاکٹر احسان اکبر،ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر،ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر طاہر مسعود قاضی جیسی معروف اور قد آور علمی شخصیات کو مجلس میں شامل کیا گیا ہے ۔اس کے مدیر سید شاکر القادری چشتی نظامی ہیں؛اس سے پہلے وہ ضلع کونسل کے مجلے اٹک فیسٹول سے وابستہ رہ چکے تھے اور اورمجلہ ن والقلم کی ادارت کا تجربہ بھی ان کے پاس ہے۔حسین امجد ،سید فیضان الحسن گیلانی،سید ریحان الحسن گیلانی اور جنید نسیم سیٹھی مجلس مشاورت کے رکن رہے ہیں۔مجلے کے اجرا کے متعلق مدیر نے لکھا ہے کہ:’’مجھے ابتدا ہی سے نعت گوئی سے شغف رہا ہے اور میں اپنے شعری سفر کے آغاز سے ہی اپنی تمام تر عجز بیانی اور فنی بے مائیگی کے باوجودنعت لکھتا رہا۔اس تخلیقی عمل کے دوران [میں]کئی ایسے لمحات نصیب ہوئے جنھوں نے قلب کو گداز بخشا اور گوشہ چشم کونمی عطا کی ؛بس ایسا ہی کوئی لمحہ تھاجو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باریاب ہوااور دوری کو حضوری میں بدلنے کا باعث بن گیا۔[مدینہ سے]وطن واپسی پر یہ خیال دل و دماغ میں جاگزیں ہو گیا کہ اب فروغِ نعت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا چاہیے۔سو اس سلسلہ میں چند دوستوں سے مشاورت کے ساتھ اکادمی فروغِ نعت کا قیام عمل میں لا کر اس کا الحاق پاکستان قرآت ونعت کونسل سے کیا گیا۔اس اکادمی کے مقاصد میں ماہانہ محافلِ نعت کا قیام،نعت خوانی کی تربیت کا اہتمام ،نعت خوانی اور نعت گوئی میں در آنے والی بے احتیاطیوں کی نشان دہی اور ان سے اجتناب کی دعوت ساتھ ساتھ معیاری نعتیہ ادب کی ترویج کے لیے سہ ماہی مجلہ فروغِ نعت کا اجرا شامل ہیں [ہے]‘ ‘ ۔ (1)
ایک اور جگہ فروغِ نعت کے آغاز و اجرا کے متعلق لکھتے ہیں:’’اُن[ابولبابہ]کی آنکھوں میں پیہم آنسو جاری تھے۔۔۔دخترِ نیک اختر سے فرمانے لگے[کہ]مجھے مسجد میں چوبیں ستون سے باندھ دو۔۔۔وہ اپنی فطری رحم دلی سے مجبور ہو کر اپنے آقا سے ذرہ بھر خیانت کر بیٹھے تھے۔۔اس پر نادم تھے۔۔۔آخر ابولبابہ کی آہ و زاری بارگاہ رحمن میں قبول ہوئی۔۔۔ابو لبابہ نے آزاد ہونے انکار کردیا۔۔۔کہ دیا کہ جب تک آقا اپنے دستِ اقدس سے نہ کھولیں گے۔آزادی قبول نہیں کروں گا۔۔۔نبی رحمت ﷺ نے ۔۔۔اپنے دستِ اقدس سے انھیں آزاد فرماکر ان کی دل داری فرمائی۔۔۔میں نے بھی مواجہہ شریف کے کے سامنے کھڑے ہو کربادیدۂ تر ایک عرض[فروغ نعت] کی تھی۔وہ بارگاۂ نبوی میں کیسے باریاب نہ ہوتی‘‘۔(2)
رسالے کی بنیادی ذمہ داری نعت کا فروغ ہے لیکن نعت میں راہ پانے والے فنی سقم،نادانستہ طور پراشعار کے مضمون میں موجود گستاخیاں،کوتاہیاں،ذو معنی،کم زور اور لایعنی اشعار پرتنقید، گرفت اور نشان دہی بھی رسالے کے مقاصد میں شامل ہے۔کیونکہ : ’’یہ صنف ِ سخن بہت زیادہ حزم و احتیاط کی متقاضی ہے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی خیروبرکت کے اس عمل کو اپنے مقصد سے دورلے جا سکتی ہے ۔ا س میں شبہ نہیں کہ نعت کا بیج دل میں پھوٹتا ہے۔عقیدت و مودت کی فضا میں پلتا اور جذب و کیف کے ساتھ حسن ادا کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔تا ہم فن کے تقاضوں کا احترام اور التزام بھی ضروری ہے۔کوئی بھی شہ پارہ محض خیال کی ندرت یا پاکیزگی سے کامل صورت اختیار نہیں کر سکتا۔اسی طرح محض فنی عناصر کا مؤثر استعمال بھی فن پارے کی بقا کا ضامن نہیں۔شہ پارہ فکر و فن کے کامل اشتراک سے وجود میں آتا ہے ‘‘۔(3)
اسی حوالے سے ثاقب علوی “فروغِ نعت”کی انتظامیہ کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں : ” ایک عرصے سے یہ فکر دامن گیر تھی کہ نعتیہ ادب میںایسا کوئی باقاعدہ ادارہ ہونا چاہیے جو مستقل نعتیہ ادب پر چیک اینڈ بیلنس کے فرائض انجام دے۔۔۔”فروغِ نعت”نے اس بہت بڑے خلا کو پر کر دیا ہے”۔(4)
رسالے میں اس وقت تک جو مضامین ،مقالات اور خطوط شایع ہوئے ہیں،ان سے بھی یہ بات مترشح ہے کہ رسالہ نعت گوئی اور نعت خوانی میں فکرو فن کے اظہار واستعمال میں احترام ، سنجیدگی، احتیاط اور حدِ ادب کا قائل ہے۔مدیرِ اعلیٰ کی تنقیدی بصیرت ،فنِ نعت میں مہارت،جمالیاتی ذوق ،سنجیدگی،نعت سے محبت اور اخلاص کی بدولت رسالے کا شمار ملک کے ان چند معروف رسائل میں ہونے لگا ہے جو نعتیہ ادب کی ترویج و ترقی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔جاوید رسول کہتے ہیں کہ ’’بہت عرصے بعد اس نوعیت کا خوب صورت اور روح پرور شمارہ دستیاب ہوا‘‘۔(5)
“فروغِ نعت”کی کئی اشاعتیں قابلِ ذکر ہیں ،مثلاََ:تیسری اشاعت جو جنوری ۲۰۱۴ میں سامنے آئی،اس لحاظ سے اہم ہے کہ معروف نعت گو نذر صابری صاحب سے متعلق گوشہ شامل ہے۔یہ شمارہ نہ صرف نذر صابری مرحوم کے شب و روز کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی علمی و ادبی خصوصاََ نعتیہ خدمات کا اعتراف بھی ہے۔چوتھے شمارے (اپریل تا جون2014)میں شوکت محمود شوکت کے لیے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے؛پانچویں شمارے میں “محفلِ نعت “اسلام آباد کے لیے صفحات مختص ہیں۔:”محفلِ نعت اسلام آباد گذشتہ پچیس سال سےمصروفِ عمل ہے ۔اس عرصے میں اس کے زیرِ اہتمام حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ ہر ماہ نعتیہ مشاعروں کا انعقاد ہو رہا ہے”۔(6)
چھٹا شمارہ ’’قصیدہ بردہ شریف نمبر ‘‘ہے288صفحات پر مشتمل اس شمارے کا غالب حصہ قصیدہ بردہ کے متعلق منظومات اور شرح کے لیے مخصوص ہے۔قصیدے کے منظوم ترجمے کی سعادت سجاد حسین ساجد اور منظوم پنجابی ترجمے کی برکات ڈاکٹر حامد احمد کے حصے میں آئیں۔سید مہر حسین بخاری نے قصیدے کی مبسوط شرح لکھی۔ساتویں شمارے کی خصوصیت یہ ہے اس میں نذر صابری مرحوم کی نعت کے مصرعے”جس کو حاصل تری چوکھٹ کی جبیں سائی ہو”پر لکھنے کی دعوت دی گئی اور اس مصرعےپر لکھی جانے والی نعتوں کو فروغِ نعت میں شامل کیا گیا اور اول ،دوم ،سوم آنے والی نعتوں کو ایوارڈ دیے گئے۔ فروغِ نعت میں نعت،طرحی نعت،تنقید اور شرح کے جو رنگ نظر آتے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مدیراعلیٰ اس مجلے میں نعت کے متعلق تمام ذائقے یک جا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور نت نئے موضوعات کی تلاش اور جستجو انھیں نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔قصیدہ بردہ شریف کی اشاعت بھی ان کی جستجو کا ثمرہے ۔ مہر حسین بخاری ایک عرصے سے شرح لکھ رہے تھے اس کی تکمیل کی خبر ہوتے ہی مدیر اعلیٰ کی جودت اس کو کتابی صورت یا کہیں اور شایع ہونے سے پہلے ہی فروغِ نعت کے لیے منتخب کر چکی تھی۔معراج النبی ﷺنمبر کی اشاعت سے فروغِ نعت کو ایک اوراعزاز حاصل ہوا۔اس سے پہلے صرف تخلیقی و تحقیقی مضامین ہی شایع ہوتے تھے؛لیکن معراج النبیﷺ نمبر میں سید بلاقی کے ایک نادر و نایاب قلمی نسخے کو پہلی بار متعارف کروا کر ادبی دنیا میں اپنی جودت اورانفرادیت کا سکہ بٹھا دیا۔اس قلمی نسخے کی کیفیت کے متعلق ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد لکھتے ہیں:’’معراج نامہ کا زیرِ نظر مخطوطہ ایک جلد میں ہے۔اس جلد میں معراج نامہ سید بلاقی کے علاوہ قدیم اردو کا ایک اور پنجابی کے چار رسائل شامل ہیں۔جلد میں شامل تمام رسائل کا کاتب ایک ہے مگر کہیں بھی اس نے اپنا نام نہیں لکھا۔اکثر رسائل ترقیمے سے عاری ہیں،اگر کہیں ہے تو صرف رسالے کا نام اور تمت تمام کے الفاظ ہیں۔کاتب فنِ کتابت کے اسرار و رموز کا شناسا ہے اور اس فن میں مہارت رکھتا ہے۔خطِ نستعلیق اور نسخ دونوں میں اس کا قلم رواں اور خوش نویس ہے۔اردو،عربی،فارسی،پنجابی زبانوں سے اس کی شناسائی ظاہر ہوتی ہے کیوں کہ ان زبانوں کے الفاظ اس نے درست نقل کیے ہیں اور اکثر الفاظ کا املا درست ہے ۔ ۔ ۔ ترقیمہ کی ناموجودگی کے باعث عرصۂ کتابت کا علم نہیں تاہم طرزِ املا اور کاغذ کی کہنگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نسخہ انیسویں صدی کے ابتدائی زمانے کا مکتوبہ ہے۔۔۔معراج نامہ کا زیرِ نظر مخطوطہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔معراج نامہ سید بلاقی کے ہندوستان سے شایع ہونے کی اطلاع اگرچہ بعض کتب سے ملتی ہے تاہم اس کا انتقادی متن ابھی تک منظرِ عام پر نہ آ سکا۔معلوم نسخوں کی مدد سے جب معراج نامہ بلاقی کا انتقادی متن تیار ہو گا تو زیرِ نظر نسخہ بھی مددگار ہو گا‘‘۔(7)
شمارہ نمبر 10 (اکتوبر تا دسمبر 2015) ، شمارہ نمبر 11(جنوری تا مارچ 2016) اور شمارہ نمبر 12(اپریل تا مئی2016)سہ ماہی”فروغ نعت” کے ارتقا کا عملی مظاہرہ ہے۔ان شماروں کو گوجرانوالہ نمبر کہنا زیادہ مناسب ہے۔پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ طاہرکو مہمان مدیر کے طور پر فروغ نعت کی ٹیم میں شامل کیا گیا جنھوں نے گوجرانوالہ میں نعت کی روایت کے حوالے سے فروغ نعت کوعمدہ مواد فراہم کیا۔وہ اداریے میں لکھتے ہیں:”جناب شاکر القادری نے جب۔۔۔گوجرانوالہ نمبر کی ذمہ داری دی تو دل روحانی خوشی سے مہک مہک اٹھا۔۔۔ہماری ٹیم نے لگن اور محنت کے ساتھ دن رات کام کر کے شعرا سے نعتیہ کلام اکٹھا کیے[کیا]مضامین لکھوائے اور لکھے ۔ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ گوجرانوالہ ،حافظ آباد ،کامونکی،سیالکوٹ،گجرات اور مضافات میں بسنے والےشعرا کی کتابوں پر مختصر جائزہ لکھا جائے۔تعارف اور نمونہ کلام کے ساتھ ساتھ مذکورہ شہروں کی نعتیہ تاریخی روایات پر بھی تبصرہ کیا جائے”۔(8)
یہ شمارے گوجرانوالہ میں نعتیہ ادب پر کام کرنے والوں کے کام آتے رہیں گے۔
جولائی تا ستمبر”فروغِ نعت “کےبارہ شماروں کا اشاریہ ہے؛جسے جمیل حیات نے مرتب کیا ہے۔اشاریے کو شمارہ وار مرتب کرنے کی بجائےادیبوں کے نام پیشِ نظر رکھ کر الف بائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے؛جس کی وجہ سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ اس شمارے میں لکھنے والوں کی تعداد محدود ہے اور بار بار چند ادیبوں کی نگارشات شایع کی جاتی ہیں۔مزید یہ کہ اس مواد کو اشاریہ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں مرتب نے جا بہ جا اپنا تنقیدی شعور بھی آزمایا ہے اور تنقیدی بصیرت کی صورتِ حال یہ ہے کہ لکھتے ہیں::”تمام قافیے ہم آواز ہیں جب کہ ردیف بھی ایک ہی استعمال کی گئی ہے۔نعت کے آخری دو شعر مطلع ہیں”۔(9)
اس شمارے کی ایک اور خصوصیت بھی ہے،اور وہ یہ کہ مدیر اعلیٰ نے معمول سے ہٹ کر چوبیس صفحات کا مضمون نمادیباچہ لکھا ہے؛جس میں عہد نبوی کی نعت کے اسالیب پر بھرپور اور سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اس کے علاوہ مسجدِ نبوی پرخود کش حملے کی مذمت اور امتِ مسلمہ کی بے حسی کا رونا رویا گیا ہے ۔”فروغِ نعت “میں اس کے علاوہ :چہرہ نما”کے عنوان سے کسی ایک شاعر کا تعارف اور نمونۂ کلام درج کیا جاتا ہے۔اب تک “چہرہ نما”میں شرف الدین مصلح شامی،جمیل حیات،ندیم فاروق اور حسین امجد کو شایع کیا جا چکا ہے۔شمارہ نمبر 14(ستمبر تا اکتوبر)سے”نعت گویانِ اٹک”کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے،جس میں ضلع اٹک کے نعت لکھنے والے شعرا کا تعارف اور نعتیہ کلام شایع ہو رہا ہے۔اس سلسلےکے متعلق شاکر القادری لکھتے ہیں:”موجودہ شمارے سے ہم نے “تذکرہ نعت گویانِ اٹک”کے نام سےایک سلسلہ آغاز کیا ہے،جس میں ہم ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والےنعت گو شعرا کا تعارف اور ان کا نعتیہ کلام بہ طور نمونہ پیش کریں گے۔۔۔اس طرح نہ صرف نعت گویانِ اٹک کا ایک مبسوط تذکرہ مرتب ہوتا چلاجائے گا بلکہ ان کا نعتیہ کلام بھی کسی حد تک محفوظ ہو جائے گا”۔(10)
فی الوقت فروغِ نعت میں راقم،سجاد حسین ساجد،سردار ظہیر احمد خان ظہیر اور دلاور علی آزر ،نادر وحید اور سعادت حسن آس کا نعتیہ کلام شایع کیا جا چکا ہے۔”سہ ماہی فروغِ نعت دیدہ زیب ہے۔نعتیہ ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔۔۔اس میں مدیر کی شعوری کوشش اور بالغ نظری کا بہت دخل ہے۔سہ ماہی فروغِ نعت اسمِ با مسمٰی ہے۔۔۔شعبۂ نعت کے زروجواہر کواپنے حصار میں لے رہا ہے۔۔۔اس میں شامل بلند پایہ اور معیاری وتحقیقی مضامین عوام و خواص کے لیے مفید اضافہ ہیں۔۔۔اتنی توجہ اور اس قدر اہتمام سے بہت کم نعتیہ رسالے شایع ہوتے ہیں‘‘۔(11)
“آج اردو ادب میں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے نام پر بہت کچھ لکھا جارہاہے مگر عہد حاضر میں نسل نو کو جس صنف کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،ہمارے بچوں میں تدریسی ،علمی،ادبی اور نصابی حوالے سےجس چیز کو سب سے زیادہ نمایاں ہونا چاہیے وہ نعت ہے اور نعت بھی ایسی جو مبالغے اور مصنوعی خیالات و الفاظ سے اٹی ہوئی نہ ہو۔فروغ نعت ان تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کرمختلف شہروں میں اپنی علمی و فکری بساط کے مطابق تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی کام سر انجام دے رہا ہے”۔(12)
ڈاکٹر عزیز احسن نے شاکر القادری کی نعتیہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے کہ:”فروغِ نعت۔۔۔بڑی اچھی کاوش ہے جس میں آپ[مدیر] کا مدبرانہ سلیقہ،جمالیاتی احساس،سخن فہمی کا ملکہ اور علمی مزاج منعکس ہے۔نعتیہ ادب کو جس سنجیدگی علمی مزاج رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے،آپ ان میں سے ایک ہیں‘‘۔(13)
اور محمد الطاف آزرزو کے الفاظ میں ’’فروغِ نعت کا اجرارسول پاک ﷺ سے محبت کاعملی ثبوت ہے ‘‘۔(14)
“حمدیہ و نعتیہ شاعری ،تحقیقی و تنقیدی مضامین،خاص موضوعات اور طرعی مشاعروں کی شاعری سے سجی خوب صورت کہکشاں سجانے پر سید شاکر القادری مبارک باد کے مستحق ہیں”۔(15)
مجلے میں “حرفِ تمنا” کےعنوان سے اداریہ مستقل لکھا جارہا ہے۔خواتین شاعرات کے لیے الگ باب قائم کیاجاتا ہے۔صرف نعتیہ ادب اور سیرت النبی سے متعلق کتب پر تبصرے شایع کیے جاتے ہیں۔ اس وقت اچھی نعت لکھنے ،پڑھنے والوں کے لیے یہ رسالہ بہت کشش رکھتا ہے۔اس مجلے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کا ہر شمارہ انٹرنٹ پر بھی دستیاب ہوتا ہے ۔ہر دو صورتوں میں فروغ نعت کا ہر شمارہ پہلے سے بہتر نظر آتا ہے۔ یہ رسالہ اشاعت کی کئی منزلیں طے کر چکا ہے؛لیکن دم تحریر اس کی اشاعت میں باقاعدگی کا فقدان ہے۔
حوالہ جات:۔
(1)سید شاکرالقادری،مجلہ فروغ نعت ،القلم ادارہ مطبوعاتِ اٹک،شمارہ جولائی تا ستمبر 2013،ص7
(2)شاکر القادری چشتی نظامی،فروغِ نعت معراج النبی نمبر،القلم مطبوعات اٹک،اپریل تا جون 2015ء ،ص5
(3)ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد،،فروغ نعت،مدیر:شاکرالقادری چشتی نظامی،القلم ادارہ مطبوعات اٹک،شمارہ اکتوبر تادسمبر2013،ص188
(4)ثاقب علوی،خط،سہ ماہی فروغِ نعت ،اٹک،القلم ادارہ مطبوعات اٹک،اپریل تا جون 2016،ص143
(5)جاوید رسول جوہر(تبصرہ)،عالمی رنگِ ادب،کراچی،بزمِ رنگِ ادب کراچی،کتابی سلسلہ35،یکم جون تا دسمبر2014ء،ص305
(6)شاکر القادری،سہ ماہی فروغِ نعت،القلم ادارہ مطبوعات اٹک،جولائی تا ستمبر 2014
(7)ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد،فروغِ نعت معراج النبی نمبر،مدیر:شاکرالقادری چشتی نظامی،القلم ادارۂ مطبوعات اٹک،اپریل تا جون2015ء،ص16
(8)ڈاکٹر احسان اللہ طاہر،اداریہ :فروغ نعت اٹک،اکتوبر تا دسمبر 2015،ص7
(9)جمیل حیات،سہ ماہی فروغِ نعت،القلم ادارۂ مطبوعات اٹک،جولائی تا ستمبر 2016، ص96
10)ّّ)”شاکر القادری،مجلہ فروغ نعت ،القلم ادارہ مطبوعاتِ اٹک،ستمبر تا اکتوبر 2016،ص5
(11)ڈاکٹر شہزاد احمد،اردو نعت پاکستان میں،حمد نعت ریسرچ فائونڈیشن کراچی، 2014ء ، ص588
(12)ڈاکٹر احسان اللہ طاہر،اداریہ :فروغ نعت اٹک،اکتوبر تا دسمبر 2015،ص7
(13)ڈاکٹر عزیز احسن،فروغِ نعت،مدیر:شاکر القادری چشتی نظامی۔،القلم ادارۂ مطبوعات اٹک، اکتوبر تا دسمبر2013ء،ص116
(14)محمد الطاف احمد آرزو،فروغ نعت،مدیر:شاکرالقادری چشتی نظامی،القلم ادارہ مطبوعات اٹک، شمارہ جنوری تا مارچ2014،ص160
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔