قائدؒ کے سنگ سنگ …محمد یوسف وحید

محمد یوسف وحید کی کتاب ’’ قائد ؒنے فرمایا ‘‘ پر خصوصی تبصرہ
قائدؒ کے سنگ سنگ …محمد یوسف وحید
تبصرہ : صادق جاوید ( گڑھی اختیا ر خان )

اے شوق مرے دل میں کبھی یوں بھی اُترنا
بن جائوں میں تعمیر کی تدبیر کا جھرنا
حالات کے دلدل میں سے کنول تلاشنے اور بشری چمن کے بھنوروں کو بھینی ،مدُھر اور من موہنی مہکاروں سے مزین کردینے کے خوگر و ماہر شاعر نعیم اظہر نے مندرجہ بالا شعر جن باوصف بندگانِ خد ا کے لیے کہا تھا‘ ہمارے ممدوحِ محترم محمد یوسف وحید یقینا اُن ہی میں سے ایک ہیں ۔ رخت ِ سفر بہتوں نے باندھا ہوگا ، چند قدم چلنے والے کافی ہوں گے ، بیچ سفر میں پیچھے مڑنے والے بھی ملیں گے مگر اَیسے نایاب عمرانی یاقوت کم ہی ملے ہوں گے جنہیں نہ بادِ مخالف کے تند و تیز جھکڑ روک سکے نہ سر د جنگوں کی سرا سِیمگی ان کے قدموں کی مٹی کو مرتعش کر سکی بلکہ انہوں نے عز م و استقلال کے بابوں میں جذبِ دروں کی قوتِ لازمہ کو بابِ جدید کے طور پر شامل کروالیا ۔ اِقبالؒ ؒنے نظم خضرِ راہ میں ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعرکہا ہے :
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
خیر اس دور جاتی بات کو مضمون کے آخری حِصے کے لیے مختص کرتے ہوئے اپنی اس وقت کی جنبشِ قلم کے اَصل محرک اور اس کارنامہ کی طرف آتے ہیں جو کتاب ’’ قائدؒ نے فرمایا ‘‘ کے عنوان سے محمد یوسف وحید کے ہاتھوں سر انجام پاکر حق ، سچ ، عزم و استقلال ،جمالِ فردیت ،بے باک صلاحیت ، دانش و حکمت ، جذبِ نموگر ، ذوقِ فزوں تراور ادب کی شمعِ خوشتر کے پروانوں کو ایک ضو مزید دان کر دی ہے ۔ بلاشبہ محمد یوسف وحید کا یہ کارنامہ جہانِ ادب میں وہی قدرومنزلت رکھتا ہے جو کسی صاحبِ اُسلوب اور ماہرِ فنِ عمرانی گیت نگار کے سدا بہار گیت کو حاصل ہوتی ہے ۔ بقولِ شاعر:
بُنتا جائوں پل پل اپنی پیار کتھا کو گیتوں میں
سوچ رہا ہوں میں ہی آخر کیوں اس پر مامور ہوا
جس طرح مندرجہ بالاشعر میں تخلیقی کردار کے عروج ، ارتقا اور تسلسل کی بات کی گئی ہے اس کی عملی شکل محمد یوسف وحید ہیں جو نہ صرف جہد ِ مسلسل بلکہ اَن تھک محنت ، پُر کار شخصیت اور مثبت طرزِ فکر کے بل بوتے پر ’’ آگیا اور چھا گیا ‘‘ والے بیانیے کو حرف بہ حرف سچ ثابت کر چکے ہیں ۔ آئیے کتابِ عمل میںایک اور باب رقم کرنے والی محمد یوسف وحید کی مرتب کردہ تازہ ترین اور سدا بہار کتاب ’’قائد ؒنے فرمایا‘‘ کا جائزہ لیتے چلیں تاکہ اس بات کی تصدیق ہوجائے۔بقول مرزا غالب:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
دامنِ گل چیں کی طرح محمد یوسف وحیدکا ظرف ِ خیال بھی قلزمِ ادب کے تہہ نشیں لعل و جواہر سے بھرا رہتا ہے ۔ موضوعات کا انتخاب بھی اسے خوب آتا ہے ۔ اعما ل‘ تعلیم و تربیت کا منفرد اور مؤثر ذریعہ ہیں ۔ فکر و فرمودات کے بغیر اعمال کا باب ہمیشہ تشنہ ٔ تکمیل رہتا ہے ۔ کوئی مدّرس ، مبلغ یا پیامی جب اپنا پیغام دور رَس اور دیرپا بنانے کے لیے جذبات پر توجہ دیتا ہے توسب سے زیادہ جو چیز اُسے نمایاں، معاون اور یقینی ہو کر ملتی ہے ، وہ ہے فرمودات ۔ہر فرد ، قوم یا گروہ کا ایک آئیڈیل ضرور ہوتا ہے اور اس کے حوالے سے کہی بات تو دل میں اُترنے میں وقت لیتی ہے نہ گھر کرنے میں ۔ بہ ایں وجوہ بِسر نے یا اُترنے کا شائبہ تک نہیں رہتا ۔ بقولِ شاعر :
میں اس کی مانوں لازم نہ تھا
میں تیری نسبت سے مانا ہوں
بانی ٔ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا نام اور کام قیامت تک سدا بہار رہے گا ۔ پرنٹ میڈیا ہویا جدید میڈیا فرامینِ قائد محفوظ بھی ہیںاور میسر بھی ۔ مگر ان کی حالت کسی شاعر کے کمرے میں موجود چیزوں جیسی ہی ہے ۔بقولِ شاعر:
کہیں بکھری ہیں کتابیں کہیں میلے کپڑے
گھر کی حالت ہی عجب ہم نے بنا رکھی ہے
اپنے وحشت زد ہ کمرے کی اک الماری میں
تیری تصویر عقیدت سے سجا رکھی ہے
بے شک ہمارے شعوری ارتقا اور افعالِ زیست کے لیے بہترین، کامل ترین اور یکتائے روزگار نمونہ محبوبِ ربّ العالمین ، رحمت للعالمین ، رفقا ٔ و اعدا میں مسلّم صادق و امین ، وجۂ وجودِ کائنات حضرت محمد ِ مصطفی احمد مجتبیٰ ہی کی ذاتِ گرامی ہے اور باقیوں میں جو جتنا نسبت یافتہ ہے‘ اتنا مستند و معتبر ہے ۔میرے ذاتی خیال کے مطابق محمد علی جناح کے ساتھ لفظ قائدِ اعظم قبول اور زبانِ زدِ عام ہوا ہی اس اَٹل، پکی سچی ، غیر متزلزل ، اظہر و اخلص محبت کی وجہ سے تھا ۔ جس کی کئی مثالیں بانی وطنِ عزیز قائدِ اعظم محمد علی جناح کے عمل ، گفتار اور کردار میں متعدد بیّن اور اظہر و اَرفع ملتی ہیں ۔ جس میں وہ زبانِ حال سے یہ اعلان کرتے ہوئے محسوس کیے جاسکتے ہیں کہ
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِّ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے
کتاب ’’ قائد ؒنے فرمایا ‘‘ کی صورت میں محمد یوسف وحید کے توسط سے ہم جس عظیم انسان سے ملتے ہیں اور اس سے جڑے جن حقائق سے آشنا ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ پر اٹل ،تاریخی و قدیمی تھے ، ہیں اور رہیں گے مگر ان سے وا قفیت کے لیے جتنی لائبریریوں ، کتب و جرائد او ر اخبارات علیٰ ہذا القیاس معاون مواد کے لیے مختلف مقاما ت کا سفر ، رسائی حُصول اور اس قبیل کی کٹھنائیوں کا حل جس بہترین انداز میں الوحید ادبی اکیڈمی کی طرف سے اس کتاب کے ذریعے پیش کیا گیا ہے ، واقعی قابلِ صد ستائش ہے۔ یقینا اس اَحسن عمل کی بصد خوبی ٔ تکمیل کا سہرا محمد یوسف وحید کے سَر سجتا ہے ۔ اگر ان کی رفتار عمل کو اپنے تصوّر کا معاون کیا جائے تو بات بر محل اور دل کو لگتی محسوس ہوتی ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںدیدہ وَر پیدا
خیر بات ہورہی تھی قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے فرمودات اور فردی محاسن کے مختصر ترین جائزہ کی تو ہم نذر ِ قارئین کرتے ہیں مضمون بین السطور آپ اپنے ذوق اور خُوئے مطالعہ سے اَخذ فرماتے جائیے ۔
٭ قائدِ اعظم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دِلی ربط رکھتے تھے ۔
٭ ہر اچھے مسلمان کی طرح جناح صاحب بھی حضرت محمد مصطفی احمد ِ مجتبیٰ ؐ ہی کو اپنا قائد اور آئیڈیل مانتے تھے ۔
٭ ایفائے عہد میں قائد کا کوئی ثانی نہ تھا ۔
٭ اظہارِ رئے کا حق ہر کسی کو دیتے تھے حتّٰی کہ ملازم بھی آپ کی سرزنش کر لیتے تو آپ فرماتے یہ ان کا حق ہے ۔
٭ ذات پر قوم کو ترجیح دیتے تھے ۔
٭ عدلیہ کی برتری کے حق میں تھے اور اپنے عمل سے یہ بات ثابت بھی کرتے تھے ۔
٭ سیاسی حکمت عملی کے ماہرِ اعظم تھے ۔
٭ خود اعتمادی کے مدرّس تھے اور اس کی قوت کے زبردست معترف بھی ۔
٭ خو دبھی دستور پر پابندی کے قائل تھے اور دوسروں سے بھی یہی تقاضہ فرماتے تھے ۔
٭ عہد ہ اور انسانیت دونوں کے تقاضے بخوبی نبھاتے تھے ۔
حالات و واقعات اور دفتری اُمور کا نہایت عمیق جائزہ لینے کے خوگر تھے ۔
٭ ایک روپے کی رسید لکھنا بھی فخر سمجھتے تھے اوراسے بھی ایک دستاویز کا درجہ دیتے تھے ۔
٭ آدابِ محفل کے مشاق عامل تھے اور اس پر اظہارِ مسرت بھی فرماتے تھے ۔
٭ امانت کی پاسداری ، خیانت سے بیزاری فرماتے تھے ۔ اپنے لیے اعزازات کے کبھی خواہاں نہیں رہے ۔
٭ بریشم کی طرح نرم تھے اور فولاد کی طرح مضبوط بھی ۔
٭ قانون کی بالادستی ہر حال میں اور ہرفرد کے لیے قائل عامل اور مبلغ تھے ۔
٭ کسی پر بوجھ بننا پسند نہ فرماتے تھے بلکہ کئی دفعہ میزبانوں پر سبقت لیتے ہوئے مکمل بل بھی ادا کر دیتے تھے ۔
٭ اعلیٰ اسلامی اَقدار و روایات کے عامل تھے ۔ سلام میں پہل بھی ان کا خاصہ تھا ۔
٭ لین دین میں انصاف آپ کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک تھا ۔
٭آپ ؒ نہایت فتین ، عمیق بین اور صاف گو تھے ۔
٭ نہ جھکتے تھے نہ بکتے تھے ۔
٭بہت اعلیٰ گفت گو کرتے تھے اور گفت گو ہی میں مسائل کا حل تلاشنے کے رَوادار تھے ۔
٭ ساری قوم آپ پر بھروسہ کرتی تھی ۔
٭ عوام و خواص کا اس بات پر ایمان تھا کہ جناح نہ بک سکتا ہے نہ جھک سکتا ہے اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا ۔
٭ آپ بڑے مدبّرتھے اور عیاری کے پیچھے چھپے حقائق کا بہت جلد ادراک کر لیتے تھے ۔
٭ محنت کی عظمت کا انہیں جتنا یقین تھا شاید و باید ۔
٭ کسی بھی حال میں مقاصد کے حصول پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ بیماری کو بھی خاطر میں نہ لائے ۔
٭آپ کی قوتِ فکر دوسروں کی بہ نسبت بہت تیز تھی ۔ آپ کے فرمودات سے لوگوں کو تحفظات ہوا کرتے تھے لیکن جلد ہی آپؒ کی بات سچ ثابت ہوجایاکرتی تھی ۔
٭ان کی نظر میں قائد کی سیرت کا شیشے کی طرح صاف ہونا ضروری تھا ۔
٭ حُب الوطنی کو اوّلیت دیتے تھے اور طبقاتی تقسیم کے خلاف ۔
اس کے ساتھ ساتھ خاص خاص تاریخیں اور اقوالِ زریں کے عنوانات بھی کافی معلوماتی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ نے عمل کی راہیں جس طرح آسان کی ہیں اور آنے والی مشکلات کا جس طور سامنا اور توڑ کیا ہے اس کا نقشہ قلندرِ لاہور ی ، حکیم الُا مت ، کلیمِ ثانی ، آشنائے راز اور عارف الحقائق علامہ ڈاکٹر محمد اِقبال ؒ نے اپنے ایک خوب صورت شعر میں کچھ اس طرح کھینچا ہے ۔
ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
کسی بھی مقبول کتاب کی صفات کا جزو ِ لازم اور اتم خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں مختلف کرداروںسے ملاقات کا موقع فراہم کرتی ہے اور اگر اس کا مصنف فنی ارتقاء کے مراحل بخوبی طے کر چکا ہو تو پھر وہ ملاقات بالکل ایک بالمشافہ ملاقات کے مساوی ہے ۔ لطف و مسرت لیے ہوئے جہانِ دگر ، جہانِ نو اور خطہ ٔ خوش گوار کے سیاحتی گائیڈ کا سامان بھی کیے دیتے ہیں ۔ کتاب ’ ’قائد ؒنے فرمایا ‘‘ کے ذریعے محمد یوسف وحید نے جن یاقوت صفت کرداروں سے ہماری ملاقات کا اہتمام کیا ان کے اَسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
مولا نا احتشام الحق تھانوی :مشہور عالم ِدین ، تاحیات ریڈیو پاکستان سے درس ِ قرآن دیتے رہے ۔
خواجہ اشرف احمد :آل انڈیا مسلم سٹو ڈنٹس کے ایک عہدہ دار ۔
سید اشفاق نقو ی :مسلم لیگ کا ایک کارکن
ایم اے ایچ اصفہانی :کیمبر ج یو نیورسٹی کے فارغ التحصیل ، پاکستان کے معروف تاجر اور صنعت کار ۔ کلکتہ کارپوریشن ، بنگال لیجسلیٹو اسمبلی اور پاکستان قانون ساز اسمبلی کے ممبر ۔ 1941ء تا 1947ء آل انڈیا مسلم لیگ کے مجلس ِ عاملہ کے رکن ۔ یو ایس اے اور یو این او میں پاکستان کے پہلے سفیر ۔ یو کے میں ہائی کمشنر ۔ وزیر صنعت و تجارت حکو مت پاکستان ۔ قائد ا عظم کے ایک قابل ، وفا شعار اور معتمد نائب ۔
ملک افتخار علی :قائد ا عظم کے ایک معتمد رفیق ملک بر کت علی ایڈووکیٹ کے فر زند ۔
مسز اکرام نتھینئل :لیڈی کمپائونڈر ، اگست 1947ء میں قائد ا عظم کی تیمار داری کے لیے انہیں سبی کے سول ہسپتال سے زیار ت میں بلایا گیا جہاں وہ پندرہ دن مقیم رہیں ۔
جی الانا :مشہور شاعر، مگر ادیب اور تاجر ۔ سند مسلم لیگ کے جنر ل سیکر ٹری ۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے فنانس سیکر ٹری ۔ کراچی کے مئیر ۔ مغربی پاکستان قانون ساز اسمبلی کے رکن ۔ یو این او میں پاکستان کے نمائندے ۔صدر ایوان ِ صنعت و تجارت ۔
الہی بخش ، ڈاکٹر ، کرنل :زیار ت میں قائد ا عظم کے معالج ۔
الطا ف حسین :ہلال قائد ا عظم ، 1938ء تک مختلف کالجوں میں انگریزی کے اُستاد ۔ 1945ء میں ڈان دہلی اور بعد میں ڈان کراچی کے ایڈیٹر :1951ء میں اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میںنما ئندہ پاکستان کی حیثیت سے شریک ۔
پال ، جسٹس ذکی الدین :جسٹس (ریٹائر ڈ ) پنجاب مسلم سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے ایک عہدہ دار ۔
دیوان چمن لال:وکیل ۔ممبر لیجسلیٹو اسمبلی ۔
ابراہیم اسمعیٰل چندریگر:مشہور وکیل ۔ 1940ء تا 1945بمبئی مسلم لیگ کے صدر ۔ 1947ء میں وزیر صنعت و تجارت ۔ 1948ء میں افغانستان میں سفیر ۔ 1950ء میں سرحد اور بعد ازاں پنجا ب کے گور نر ۔
حاتم اے علوی :صحافی ۔ ماہر اقتصادیات ۔
مولا نا حسر ت مو ہانی : شاعر ، ادیب ، سیاستدان ۔
حسن اے شیخ:بمبئی مسلم لیگ کے ایک عہدہ دار ۔
این اے حسین :بر یگیڈیئر (ریٹائرڈ) 29جون 1948ء کو قائد ا عظم کے اے ڈی سی مقرر ہوئے اور ان کے آخری وقت تک اسی عہدہ پر قائم رہے ۔
حنیف مینار :بمبئی میں قائد ا عظم کے دیرینہ رفیق کار محمد علی مینار کے صاحبزادے ۔
ریئس احمد جعفری ندوی:بے شمار علی ، ادبی ، تاریخی اور تنقیدی کتب کے مصنف ۔
سعید اے ہارون :زعیم مسلملیگی حاجی سر عبد اللہ ہارون کے صاحبزادے ۔
سید شمس الحسن:آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکر ٹری ۔
نواب صدیق علی خاں :12سال تک مسلسل قائد ا عظم کے قریب رہے ، غیر منقسم ہندوستان کی مر کزی اسمبلی کے ممبر ، سالار ِاعلی آل انڈیا مسلم لیگ نیشنل گارڈ ۔ مصنف ۔ بے تیغ سپاہی
عاصم ملک :کو ئٹہ کے ایک ایڈووکیٹ
عباس محمود العقاد :مصر کے ایک ادیب
ڈاکٹر عبد السلام خورشید:مشہور صحافی اور فن خطابت کے استاد ۔ مصنف
سر شیخ عبد القادر :مدیر مخزن
عبد القادر لاکھانی :1935ء تا 1947ء بہائونگر سٹیٹ مسلم لیگ کے صدر
عزیز احمد :آئی سی ایس ۔ متعدد اہم سر کاری عہدوں پر فائر رہے۔
نواب غلام علی خاں :نواب آف کمالیہ ۔
فر خ امین :گورنر جنر ل کی حیثیت سے قائد ا عظم کے ڈپٹی پرایئویٹ سیکر ٹری کو ئٹہ اور زیارت میںقائد ا عظم کے ساتھ ان کے آخری دنوں کے ساتھی ،منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی سیکر ٹری ۔
کیمبل جانسن :صحافی ، مصنف ’’عہد ِ لارڈ موئنٹ بیٹن ‘‘۔
لیاقت علی خاں :پاکستا ن کے پہلے وزیر اعظم ،کل ہند مسلم لیگ کے جنر ل سیکر ٹری ۔ شہید ِملت ۔
بیگم لیاقت علی خاں: رعنا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی اہلیہ ۔ سفیر ِ پاکستان ۔
محبوب عالم عکس:مسلم سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے ایک عہدہ دار ۔
محمد حنیف آزاد :قائد ا عظم کے ایک نجی ملازم ۔ ڈرایئور ۔ ادارکار ۔ فلمساز
حکیم محمدسعید دہلوی :چیئر مین ہمدرد ٹرسٹ
محمد شفیع :تحریک پاکستان ار مسلم لیگ کے نامور کارکن ۔ 1936ء میں پنجاب مسلم لیگ کے پرو پیگنڈا سیکر ٹری ۔ پنجاب مسلم سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے پہلے نائب صدر ۔ انٹر کالجیٹ مسلم برادرہڈ کے صدر ۔ معروف صحافی ۔
چودھری محمد علی :ایم ایس سی ۔ پاکستان کے وزیر اعظم ۔ ماہر مالیات ، ممتاز سیاستدان ۔ 1947ء میں سیکر ٹری جنرل حکو مت پاکستان ۔ وزیر مالیات ۔
محمد مسعود :کھد ر پوش ۔ متعدد اہم سر کاری عہدوں پر فائز رہے ۔
محمد نعمان :آل انڈیا مسلم سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے ایک عہدہ دار ۔
محمد یامین خاں :آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک عہدہ دار ۔ مصنف ’’نامہ ء اعمال ‘‘۔
جسٹس محمد یعقوب علی :چیف جسٹس (ریٹائر ڈ پاکستان سپریم کورٹ )
محمد یونس :ایک صحافی ، تحصیل مسلم لیگ کے ایک عہدہ دار ۔
مختار زمن :1944ء میں آل انڈیا مسلم سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکر ٹری ۔
مشتاق احمد خاں :نواب، نظام حیدر آباد دکن کے سفیر ۔
مصطفی کمال پاشا:آل انڈیا مسلم لیگ کے کو نسلر میاں فیروز الدین احمد کے فر زند ۔
سید مطلوب الحسن :قائد ا عظم کے پرائیو یٹ سیکر ٹری (1940ء تا 1944ء)پاکستان پرنٹنگ اکیو پمنٹ لمیٹیڈ کے مالک ۔ محمد علی جناح کے پو لیٹیکل سٹڈی کے مصنف ۔
ممتازحسن :منیجنگ ڈائر یکٹر نیشنل بینک آف پاکستان ۔ متعدد اہم سر کاری عہدوں پر فائز رہے ۔
منظور الٰہی :سی ایس پی افسر ۔ متعدد اہم سر کاری عہدوں پر فائز رہے ۔ ادیب ۔
چودھری نذیر احمد خاں:تحریک پاکستان کے ایک کار کن ۔ نامور اور کامیاب ترین قانو ن دان ۔ وزیر صنعت ۔ اٹارنی جنرل ۔ تنظیم اتحاد اسلامی الاحبا کے بانی ۔
بیگم نصرت عبد اللہ ہارون :لیڈ ی ہاررن ، سر عبد اللہ ہاورون ۔ قائد ا عظم کے ایک معتمد رفیق کی بیگم ۔
سید فقیر وحید الدین :تاجر، مصنف ’انجمن‘۔
سیٹھ ولی بھائی :تاجر ، مالک بمبئی کلاتھ ہائوس ۔
ہیکٹر بو لایئتھو : مشہور بر طانوی مؤرخ اور وقائع نگار ۔
فرخ اَمین :قائد اعظم ؒ کے پرائیویٹ سیکر ٹری
اس کے علاوہ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ہمارے پردۂ خیال پر خان پور کی قابلِ فخر شخصیات بھی اُبھرتی ہیں جس کا عکس خوش گوار یادوں کی خوشبوئوں اور رنگوں سے سجے گلدستے کی مانند ہے ۔ لیکن اپنے حُسنِ عمل اور محنت ِ شاقہ سے محمد یوسف وحید نے نہ صرف ارمغانِ ادب میں اپنا تذکرہ لازم منوا لیا ہے بلکہ الوحید ادبی اکیڈمی کو بھی نہایت قابلِ ذکر مقام دلوانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔

qaid e azam


ریاست بہاول پور کا علمی ، ادبی ،روحانی ، عمرانی اور جغرافیائی مقام اوران سب حوالوں سے ہونے والے کارنامے اس کی تاریخ کو مثبت پیش رفت کے حوالے سے اسے وہ پذیرائی ،مقبولیت اور فکری سلامتی حاصل کرکے دیتے ہیں جس پر کسی بھی قوم کی سر بلندی کی اَسا س کھڑی ہوتی ہے ۔ ادبی تنظیموں کی بات کریں ، اہلِ قلم کی بات کریں ، ثقافتی اجتماعات ، میلے ٹھیلے ،کھیت کھلیان الغرض ہر حوالے سے بہاول پور کی دھرتی نہایت زرخیز ، فیاض اور مجاہدانہ مزاج سے متصف نظر آتی ہے ۔ ضلع رحیم یار خان کی تمام تحصیلیں اللہ کے فضل سے ادبی ، علمی اور اصلاحی حوالے سے نہایت سرگرم اور سبق رفتار نظر آتی ہیں ۔ بالخصوص اگر شخصیات کا ذکر کرلیں یا سرگرمیوں کا جائزہ لے لیں یا قلم و قرطاس کے جواہر پاروں پر نظر کر لیں جو منفرد اورنمایاں مقام تحصیل خان پور کو خصوصاً شہر خان پور کو حاصل ہے ، اہلِ دل اس کا ہمیشہ خواب دیکھتے آئے ہیں ۔

jinnah


قیس قلم قبیلہ ، بزمِ اُردو ، بزمِ فرید ، فرید ادبی فورم ، ارشد ادبی سنگت ، بزمِ معارف ، الوحید ادبی اکیڈمی ، بزم اِدراک ، بزمِ راز ، تانگھ ادبی سنگت ، عالم ادبی فورم پاکستان اور دیگر کئی ایسے نامور فورمز کا ماخذخان پورکا علمی ، ادبی ماحول رہا ہے ۔ انہی ادبی اثاثوں میں سے ایک علمی ، ادبی اور ثقافتی تنظیم الوحید ادبی اکیڈمی بھی ہے جس میں روحِ رواں کا کردار محمد یوسف وحید نہایت اَحسن طریق سے نبھا رہے ہیں اور نت نئی خوشخبریاں دیتے چلے جار ہے ہیں ۔ نہایت مناسب ہوگا کہ الوحید ادبی اکیڈمی کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے اور اہلِ ذوق طبقہ کے لیے سکونِ قلب کا سامان کیا جائے۔
الوحید ادبی اکیڈمی ، ادبی پروانوں کے شہر خان پور میں موجود سیٹلائٹ ٹائون میں واقع ہے ۔ جس کے بانی کے علمی، ادبی اور عمرانی قد کاٹھ کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ لمحہ لمحہ مستعد عمرِ عزیز کے پچاس سال محکمہ تعلیم سے منسلک رہتے ہوئے بطورہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے تو سرکاری یا پرائیویٹ ہر دو سطوح پر علم کا ہر جویا ، ادب کا ہر پروانہ اور علم کاہر متلاشی نہایت ادب ، احترام اور علمی جاہ و جلال کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا نام لیوا تھا ۔ آج بھی آپ کسی انجمن یا انفرادی ملاقات میں ایم عبد الواحد افغانؔ صاحب کا نامِ نامی ، اسمِ گرامی لے لیں‘ ہمارے کہے سنے ، لکھے بولے حرف حرف کی صداقت کی شہادت آپ کو مل جائے گی ۔ ان ہی کے قابلِ فخر سپوت محمد یوسف وحید کی محنت ِ شاقہ نے الوحید ادبی اکیڈمی کی عملی اُٹھان کی ذمہ داری لے رکھی ہے جسے وہ خوب تر انداز میں نبھاتے چلے جار ہے ہیں ۔ محمد یوسف وحید ‘ الوحید ادبی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں ۔ شعر و ادب کے دلدادہ بھی ہیں ۔ جہانِ ادب کے نہایت متحرک اور فعال فرد ہیں ۔نہایت کامیاب ادیب ، متحمل دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ چودہ سال سے شائع ہونے والا ، جنوبی پنجاب میں ادب ِ اطفال کا واحد نمائندہ مجلہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ کے ایڈیٹر بھی ہیں ۔
علمی و ادبی تنظیم ’’الوحید ادبی اکیڈمی ‘‘ ۲۰۰۴ء میں معرضِ وجود میں آئی اور اس کی بنیاد ایم عبد الواحد افغان ؔ نے رکھی ۔

m a jinnah

تنظیم کو نامور محقق العصر ، مترجم ، حق شناس اور راقم الحروف کے مرشد ِ کریم علامہ سیّد محمد فاروق القادریؒ ، ہر دلعزیز اُستاد الشعراء حفیظ شاہدمرحوم اور دواُردو شعری مجموعوں کے خالق رفیق راشد مرحوم کی سرپرستی حاصل رہی ۔
محمد یوسف وحید کو کتاب ’’ قائد ؒنے فرمایا ‘‘ کی ترتیب و تدوین پر ڈھیروں مبارک باد ۔دُعا ہے کہ فروغِ علم و ادب کے لیے روز افزوں ترقی کرتے رہیں ۔ محمد یوسف وحید کے عزم و حوصلے کی نذر توفیق الحسن کا ایک شعر
یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ یہ تو اپنی اپنی اڑان ہے
کوئی اُڑ کے رہ گیا بام تک کوئی کہکشاں سے گزر گیا
٭٭٭

sadiq

محمد صادق جاوید

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ادب کا تابندہ ستارہ ...محمد یوسف وحید

ہفتہ دسمبر 11 , 2021
اپنے ہم عصر احباب کے احوال جمع کرنا ہی کم مشکل نہیں چہ جائیکہ اُن لوگوں کے حالات و واقعات کو جمع کرنا جواب دینا میں نہیں رہے
Khanpur Ka Adab

مزید دلچسپ تحریریں