مجھ کو آتا نہیں محرومِ تمنا ہونا

مجھ کو آتا نہیں محرومِ تمنا ہونا

٢١ اکتوبر ٢٠١٩ءکا دن،میں گورنمنٹ کالج، میر پورہ میں نو تعینات تھا۔چھٹی کے وقت پرنسپل صاحب کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دراز قد ،کلین شیو، خوش پوش نوجوان ہاتھ میں لیپ ٹاپ کا بیگ تھامے دفتر میں وارد ہوا۔ میرے لیے وہ بالکل اجنبی تھا لہذا واجبی سا سلام اور مصافحہ کرنے کے بعد وہ صوفے پر ہی تشریف فرما ہو گیا۔میں نے بھی کوئی خاص التفات نہ کی۔ بعد ازاں جب ہم ہاسٹل کی طرف آئے تو وہ بھی ہمارے ساتھ ہی آگیا۔ کمرے میں سامان وغیرہ رکھا تب میرے ساتھی ملک مبشر احمد نے اس ہنس مکھ نوجوان کا تعارف کچھ یوں کروایا: “یہ ثاقب صاحب ہیں میرے ایم فل کے ہم جماعت اور مڈل اسکول میرپورہ میں جونیئر سائنس مدرس آبائی تعلق کیل سے ہے اور رہائشی مظفرآباد کے ہیں۔”
ثاقب اقبال سے یہ پہلا تعارف تھا۔ ثاقب ہمارے ساتھ ہاسٹل میں ہی قیام پذیر تھا اس لیے بہت قریب رہنے کا موقع ملا۔ سویرے اسکول جانا اور چھٹی کے بعد واپس آنا، کھانا کھا کر اور نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ اسکول کی طرف جانا اور تدریسی فرائض سر انجام دینا ثاقب کے معمولات میں تھا۔ ثاقب اقبال مغل آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کی تحصیل شاردہ کے گاؤں کیل میں ٦ اگست ١٩٨٩ء کو محمد اقبال مغل کے گھر تولد ہوئے۔ کیل نکہ کے مسجد اسکول سے پرائمری تک کی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ مڈل اسکول کیل سے آٹھویں جماعت میں کام یابی حاصل کی۔ بوائز انٹر کالج کیل سے دسویں اور بعد ازاں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کام یابی سمیٹی۔ ثاقب اقبال کے سنجیدہ مزاج اور تابع فرماں ہونے کی بنا پر اساتذہ کو ہمیشہ عزیز رہے۔ بشیر الدین چغتائی صاحب جو ثاقب کے کالج میں استاد رہے ان کے شرافت اور تابع فرمانی کے گواہ ہیں۔ ثاقب پڑھائی میں زیادہ قابل ذکر نہ تھا مگر محنت سے جی نہ چرانے والے یہ طالب علم کام یابی کے زینے طے کرتا چلا گیا۔

ثاقب اقبال

مجھ کو آتا نہیں محرومِ تمنا ہونا
ثاقب اقبال


٢٠٠٧ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد شہرِ اقتدار مظفراباد کا رخ کیا۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج،مظفراباد میں داخلہ لیا اور ٢٠٠٩ء میں گریجویشن کی تعلیم مکمل کر لی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد آزاد جموں کشمیر یونی ورسٹی میں کمپیوٹر سائنسز کی ڈگری کے لیے جت گئے اور ٢٠١٢ء میں ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز مکمل کر لی۔ سفر ابھی مکمل نہ ہوا اور تشنگی کم نہ ہوئی کہ اسی ادارے سے ماسٹر آف فلاسفی بھی ٢٠١٥ء میں کام یابی سے مکمل کر لی۔ایم فل کی تکمیل کے بعد باقاعدہ عملی زندگی میں قدم رکھا اور ایک سال تک جامعہ آزاد جموں کشمیر کے نیلم کیمپس میں بہ طور جز وقتی لیکچررخدمات سر انجام دیں۔ ٢٠١٧ء میں پاکستان کے بہترین تعلیمی ادارے قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام اباد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے میدان میں اترے۔ ٢٠١٨ء میں آزاد کشمیر میں اساتذہ کی تعیناتی کے لیے این ٹی ایس کا نفاذ ہوا۔ اس امتحان میں شامل ہو کر اپنی محنتِ شاقہ کی بدولت یہاں بھی کام یابی سمیٹی۔ اکتوبر ٢٠١٨ء میں محکمہ تعلیم آزاد کشمیر میں جونیئرمدرس کی حیثیت سے نئے سفر کی شروعات کیں۔گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول، میرپورہ میں ابتدائی تعیناتی ہوئی۔ ثاقب اقبال نے اپنی قابلیت کی بدولت طلبہ پر اس قدر محنت کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا دیکھا کہ ایک نوجوان اپنے پیشے کے ساتھ اتنا مخلص ہے۔ چھٹی کے بعد شام کے اوقات میں بھی طلبہ کو بلانا اور ان پر جی جان سے محنت کرنا ثاقب کی اضافی خوبیوں میں شامل رہا۔ میرا اور ثاقب اقبال کا ایک ساتھ جتنا بھی وقت گزرا وہ اتنا شان دار گزرا کہ بیان سے باہر ہے۔ہوسٹل میں کھانا بنانے کا معاملہ ہو،چائے تیار کرنی ہو، چشمے سے پانی لانے کی بات ہو، چہل قدمی کرنے جانے کا وقت ہو یا پھر یا پھر کھیل کا موقع ہر دم اس شخص کو مستعدی سے کام کرتے دیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی مکمل توجہ،اسکول کے فلاحی اور ترقیاتی کاموں میں اور طلبہ کی کام یابی کے لیے ثاقب کو ہمیشہ فکر مند دیکھا۔ اہلِ محلہ کی مشکلات کو حل کرنا ثاقب کی سرشت میں شامل تھا۔ جیسا کہ جمعے کا وہ دن جب ہم لوگ مسجد میں نماز جمعہ ادا کر کے واپس آئے۔ ثاقب اور ملک مبشر خریداری کے لیے بازار کی طرف ہو لیے جب کہ میں اور بشیر الدین صاحب ہاسٹل کی طرف آگئے۔ کافی وقت گزر گیا جب ان کی واپسی نہ ہوئی تو باہر نکل کر دیکھا دور محلے کے ایک گھر میں آگ بھڑک رہی تھی۔ آگ دیکھ کر میں نے کہا کہ ضرور ثاقب اور مبشر ادھر چلے گئے ہیں بشیر صاحب نے کہا ایسا نہیں ہو گا۔ میں بشیر صاحب کے ہم راہ جب ادھر کا رخ کیا تو دونوں کو اس جلتے ہوئے گھر میں آگ بجھانے والوں کی صف میں پایا۔یہ ہم دردی اور خدا ترسی کا ایک واقعہ ہے۔اس طرح کہ کئی واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ محلے سے کوئی آدمی آدھی رات کو آجاتا کہ فلاں جگہ آن لائن داخلہ بھیجنا ہے یا پرنٹ نکالنا ہے۔ ثاقب خندہ پیشانی سے اس کا کام کرنے نکل پڑتا اور اپنا لیپ ٹاپ کھول کر اس کی مشکل کا حل تلاش کرتا۔حتیٰ کہ اس کے چلے جانے کے بعد بھی جو کبھی کالج میں کمپوٹر کے کسی مسئلے میں الجھتے تو ثاقب اقبال یا ملک مبشر ہی ہوتے جو فون پر اس مسئلے کو حل کرتے۔ ثاقب اقبال وہ سیمابی صفت انسان ہے جو ستاروں سے اگے جہاں کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اس کے مسلک میں یہ بات نہیں کہ بنا سعی کے کچھ حاصل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ ہمہ دم سرگرداں نظر آیا۔کم و بیش آٹھ مرتبہ آزاد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن میں شمولیت کی درخواست دی مگر شومئی قسمت کے کچھ عناصر نے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات پر عدالت سے حکم امتناعی جاری کروا دیا۔ اس طرح ثاقب دو مرتبہ شامل امتحان ہو کر بالترتیب ٥٦ اور ٧٣ نمبرز لینے کے باوجود منتخب نہ ہو سکا۔ وجہ اس اسامی پر حکم امتناعی۔یہی نہیں بلکہ منزل کی تلاش میں آزاد کشمیر کی تین بڑی جامعات باغ، پونچھ اور کوٹلی میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود سفارش نہ ہونے کی بنا پر نظر انداز ہونے والا یہ نوجوان اتنا با ہمت رہا کہ اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ لیکچرر کے لیے ٢٠٢٢ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والے امتحانات میں شمولیت کے لیے درخواست دی۔ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع سے کئی لوگوں نے اس دوڑ میں ہنر آزمایا لیکن صرف ایک امیدوار کا انتخاب عمل میں آیا جو ثاقب اقبال تھا۔ ہمارے ایک ساتھی نے جب یہ سنا کہ ثاقب خوش قسمت رہا کہ اس کا تقرر ہوا تو میرا یہ جواب تھا کہ بخت سے بڑھ کر اس کی شبانہ روز محنت کا یہ ثمر ہے کہ اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی لگن اور کوشش کو کبھی ماند نہ پڑنے دیا۔ثاقب اقبال کی محنت کی بابت اس کے ہم جماعت ملک مبشر احمد کا کہنا ہے کہ وہ جماعت میں بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ محنت کرتا۔ کبھی کسی پرچے یا مشق کے معاملے میں اس نے غفلت نہ برتی۔ گورنمنٹ مڈل اسکول،میر پورہ میں اس کی سرگرمیاں دیکھ کر بھی مجھے اس کے محنتی ہونے کا ٹھیک طور پہ اندازہ ہو گیا۔ امتحانی پرچے بنانا، کمپوز کرنا اور پھر ان کو بہتر انداز میں طلبہ کو دینا، داخلوں کے لیے اشتہار بنوانا حتیٰ کہ اسکول کے ہر ہر معاملے میں اس کی دل چسپی اس کے محنتی ہونے کی غماز ٹھہری۔ثاقب نے زندگی میں ہارنا نہیں سیکھا اور اس کی یہی ادا مجھے بہت بھائی۔ میں نے اپنے تئیں ثاقب کی شخصیت پر یہ چند سطور قلم بند کیں۔ دعا گو ہوں کہ ڈاکٹر ثاقب اقبال لیکچرر کے عہدے سے ترقیاب ہو کر مزید آگے بڑھے اور زندگی میں ہمیشہ کام یابیاں سمیٹے آمین۔

احمد ندیم قاسمی مرحوم کا یہ شعر ثاقب کے حوصلے کی نذر:


قعرِ دریا میں بھی آ نکلے گی سورج کی کرن
مجھ کو آتا نہیں محرومِ تمنا ہونا

Title Image by Leszek Stępień from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اردو کا دیس نکالا

منگل دسمبر 26 , 2023
تقسیم پاک و ہند سنہ 1947 انسانی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت تصور کی جاتی ہے جس میں کم و بیش 12 سے 15 ملین لوگ در بدر ہوئے
اردو کا دیس نکالا

مزید دلچسپ تحریریں