کشمیر کا انتباہی احتجاج
دوبارہ احتجاج کے خوف سے آزاد کشمیر میں ٹیلیفون کی سروس ابھی تک بند ہے۔ کشمیر میں خونریز احتجاج کے بعد بجلی کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ آٹے کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا۔ آزاد کشمیر میں قیمتوں میں کمی کا یہ اعلان وہاں مہنگائی کے خلاف احتجاج کے بعد کیا گیا۔ اس تاریخ ساز فیصلہ کے بعد پاکستان میں ایک عام تاثر یہ پایا جا رہا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کا بوجھ پنجاب اور دوسرے صوبوں پر بھی پڑے گا یعنی پورے پاکستان میں مہنگائی کا ایک اور سیلاب آنے والا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں قیمتوں میں کمی کا یہ بوجھ پنجاب یا پورے ملک پر نہ ڈالا گیا تو آئیندہ بجٹ میں حکومت لامحالہ طور پر نئے ٹیکسز لگائے گی اور پہلے کے ٹیکسوں میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے مہنگائی میں مزید کئی گنا اضافہ ہو گا۔
صرف آزاد کشمیر میں قیمتوں میں کمی کا جو جواز ڈھونڈا گیا ہے اس کا تعلق کشمیر کے احساس محرومی سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ اس احتجاج کے تانے بانے مودی حکومت سے بھی جوڑے جا رہے ہیں جس کا ازالہ حکومت نے کشمیر میں احتجاج کے مطالبات کے مطابق بروقت قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے کیا۔ کشمیری عوام بھی خود کو اسی طرح پاکستانی سمجھتے ہیں جس طرح دوسرے پاکستانی خود کو سمجھتے ہیں۔ اگر کشمیر کو مہنگائی کا یہ ریلیف دیا جا سکتا ہے تو یہی ریلیف پاکستان کے دوسرے صوبوں کی عوام کو بھی ملنا چایئے اور نہیں ملتا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بجلی، آٹے اور تیل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد یہ احتجاج دیگر صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی بنیادی وجہ کا کھوج کبھی نہیں لگایا گیا۔ ملک میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور بدعنوانی کی وجہ سے امیر لوگ امیر ترین اور غریب لوگ غریب ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی طرح ہمارے ہاں مہنگائی کے مطابق فی کس آمدنی میں بھی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ملک میں جتنی مہنگائی ہے اس کے مقابلے میں آمدن میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اس پر مستزاد ملک کرپشن کی لعنت میں سر سے لے کر پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے۔ رشوت اور بدعنوانی صرف ایف بی آر ہی کا مسئلہ نہیں کیونکہ یہ وبا پورے ملک کے ہر محکمہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ محتسب کا ادارہ موجود تو ہے مگر وہاں بھی اقربا پروری پائی جاتی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے ایف بی آر (FBR) کی تقریب میں یہ تسلیم کیا تھا کہ 2700 ارب روپے کے ٹیکس کا معاملہ پہلے ہی لٹکا ہوا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق 3 سال کے سیلز ٹیکس سے ساڑھے7 سو ارب روپے غائب ہیں جو کرپشن، فراڈ، لالچ اور جعلسازی سے ہڑپ کیئے گئے اور صرف 1 ارب 60 کروڑ وصول ہوئے۔ خدا کا قہر! جس ملک میں اس قدر کرپشن ہو اور اس کا کچھ اتا پتا بھی نہ چلے اسے تقدیر ہی بچا سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے جب امراء اور اشرافیہ ٹیکس چوری کریں گے تو ملک میں لامحالہ طور مہنگائی کا سیلاب آئے گا جس کا اثر امراء کی بجائے صرف غریب طبقہ پر پڑے گا۔
پاکستان کے لیئے آئ ایم ایف(IMF) کی شرائط کا بوجھ اشرافیہ سے موڑ کر سفید پوش اور غریب طبقے پر ڈالنا حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس میں نجکاری بھی شامل ہے۔ خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں جو مجموعی طور پر سالانہ 458 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں PIA، اسٹیل ملز، ریلوے اور واپڈا (ڈسکوز) قابل ذکر ہیں جن کی نجکاری کیلئے مختلف ادوار میں حکومتیں کوششیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن ان اداروں کے ناقابل برداشت خسارے کے باعث کوئی بھی ملکی سرمایہ کار انہیں لینے کو تیار نہیں تھا۔ حکومت نے 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری بھی دی تھی جس میں پی آئی اے (PIA) بھی سرفہرست تھی۔ قومی ایئر لائن کی خریداری میں دو خلیجی ممالک نے بھی دلچسپی ظاہر کی تھی مگر اس میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی حکومتی نجکاری پالیسی کے خلاف ہے۔ آخر حکومت کی ناقص اور غیرمعیاری معاشی پالیسیوں کی وجہ سے عوام مہنگائی کے کتنے مزید سیلاب برداشت کرے گی۔
مظفرآباد میں کے پی کے کی رنینجرز کی فائرنگ سے چار سے پانچ جوان شہید ہوئے۔ جب بات آٹے، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں سے کہیں آگے جائے گی تو کشمیر کا یہی احتجاج کل کو کسی نئے سانحہ کا باعث بنے گا۔ حکومت نے کشمیر میں دی جانے والی رعایت کو کہیں نہ کہیں تو ایڈجسٹ کرنا ہے جس کے بدلے میں ملک بھر کی غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پسے گی۔کشمیر سے نکل کر یہ احتجاج پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں پھیلے گا تو شاید احتجاج کا یہ طوفان حکومت سے تھم نہ سکے ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت غریب عوام پر مہنگائی کی کاٹھی ڈالنے کی بجائے مراعات یافتہ طبقہ پر ہاتھ ڈالے۔
اگر حکومت مُلک کو بچانے اور عوام کو مہنگائی در مہنگائی کے سیلابوں سے نکالنے میں مخلص ہے تو اسے مہنگائی کو کم کرنے کی اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ ہمارے ملک کی فوج، بیوروکریسی، انتظامیہ اور عدلیہ میں دولت اور زرائع کی ریل پیل ہے۔ مہنگائی کا رخ اگر اشرافیہ کے اس طبقہ کی طرف موڑا جائے تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر گزشتہ ادوار کہ طرح اس دفعہ بھی مہنگائی کا بوجھ دوبارہ عوام ہی پر ڈالا گیا تو کشمیر میں ہونے والے احتجاج سے واضح ہو گیا ہے کہ اس کے خطرناک نتائج بعید از قیاس نہیں ہیں۔
Title Image by Designer
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔