اسلامک سائنس اور مذہبی فرقہ جات
عموما مذہب اور سائنس کو ایک مغالطہ کے زیر اثر ایک دوسرے کا متضاد یا مدمقابل قرار دیا جاتا ہے۔ بالخصوص اسلام کو سائنس میں ڈھونڈنے کا الزام اسی ایک سطحی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پوری قرآنی آیات اور تعلیمات و احادیث مبارکہ میں کسی ایک جگہ پر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی یا دیگر جدید علوم کے برخلاف کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ چہ جائیکہ کہ قرآن کریم کبھی تفصیلا اور کبھی اشاروں کنایوں میں دین اسلام کے عالمگیر علوم اور زندگی کے عملی قواعد و ضوابط کا ایک مکمل اور بھرپور نمونہ پیش کرتا ہے۔
قرآن کریم کے شائد بہت کم محققین اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قرآن مقدس میں قیامت تک کی جدید سے جدید تر سائنسی و آفاقی تعلیمات کے بارے میں ارشادات باری آیات کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر کسی قاری یا مفسر کی نظر اس طرف نہیں جاتی تو یہ ان کا قصور ہے قرآن مجید کا نہیں ہے۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے جن کو رب کائنات نے غیر متبدل اور اٹل طبیعاتی قوانین کے مطابق قائم رکھا ہوا ہے۔ قرآن بلیغ میں ایک ایک آیت کے لامتناہی مطالب اور مفاہیم ہیں جن کو وقت کے قدیم اور جدید پیمانوں پر جب بھی پرکھا جائے گا وہ ان کے معیار اور مقام پر عین پورا اتریں گے۔ قرآنی آیات کو اسی لیئے "آیات آفاق” بھی کہا جاتا ہے کہ ان سے ہر آنے والے جدید دور میں اس کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ہمیشہ معانی اور مطالب نکلتے رہیں گے۔ اگر قرآن کی کچھ آیات کا لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے، ان کی معنویت سے کچھ ناپسندیدہ چیز برآمد کی جاتی ہے تو اس میں انسانی فہم و فراست کی لغزش ہے ورنہ قرآن اقدس میں کسی بھی جگہ کم بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے یعنی قرآن فرقان کے ہم قارئین اور مبصرین و مبلغین کو کوئی غلطی لگ سکتی ہے مگر قرآن حکیم میں کسی غلطی یا لغزش کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
قرآن پاک میں مثال کے طور پر ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ، "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو،” جس کا ایک مطلب و مفہوم "اللہ کی رسی” سے متعلق ہے اور دوسرا "تفرقہ میں نہ پڑو” کے بارے میں ہے۔ اللہ کی رسی کو طبیعات کے بنائے گئے سائنسی قوانین سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اسے انسانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے جبکہ تفرقے میں نہ پڑو سے مراد یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے انہی سائنسی قوانین میں زندگی اور کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو بھٹک جاو’ گے اور ناکام رہو گے۔
اللہ کی یہ رسی پوری کائنات کا احاطہ کیئے ہوئے ہے اور اس نے کائنات کی ایک عام سی چیز لکڑی اور پتھر وغیرہ سے لے کر زمین، چاند ستاروں اور کہکشاو’ں کو سائنس کی زبان میں کہا جائے تو "کشش ثقل” کے ذریعے ایک مضبوطی کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ یہ کائنات تب تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ جب اللہ تعالی اپنی اس "رسی” (Gravity) کو کو کھول دے گا یا ختم کر دے گا تو سارے ستارے اور سیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور "قیامت” برپا ہو جائے گی جس کی سائنس اور مذہب دونوں تصدیق کرتے ہیں کہ بلآخر ایک دن یہ کائنات منہدم ہو جائے گی۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم بنی نوع انسان زندگی، کائنات اور اپنے روزمرہ کے معاملات کو ان مصدقہ سائنسی اور فطری اصولوں اور قاعدوں کے مطابق نہیں چلائیں گے تو ہماری زندگی نہ صرف پرآسائش نہیں ہو گی بلکہ اس سے ہر دم ہمارا سامنا ایک "قیامت صغری” سے رہے گا۔ اس آیت مبارکہ کا ترجمہ اور مفہوم "مذہبی تفرقے” کے حوالے سے کیا جائے تو قرآن پاک میں واضح طور پر تفرقوں یا "فرقہ بندی” سے منع کیا گیا ہے مگر قرآن حمید کی اس آیت کریمہ کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت خود کو سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی اور اہل حدیث وغیرہ کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے حالانکہ یہ تمام فرقے قرآن کی اس آیت کو جھٹلاتے ہیں یعنی قرآن حکیم مسلمانوں کو فرقہ بندی سے منع کرتا ہے مگر ہم مسلمانوں کی اکثریت ان پر ایمان رکھتی ہے۔
قرآن عظیم کی اس آیت مبارکہ کا دین اسلام پر صحیح اطلاق کیا جائے تو اس کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام فرقے قرآن کے متضاد اور متوازی "فرقے” یا "مذاہب” ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی لینا دینا ہے، نہ اس کی مثال نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگیوں میں ملتی ہے اور نہ ہی صالحین ان پر ایمان رکھتے ہیں۔
دین اسلام بہت سادہ اور سائنسی قواعد کا ضابطہ حیات ہے جن سے انحراف اسی طرح کی تنزلی سے دوچار کرتا ہے جس طرح سے آج مسلم دنیا زوال سے گزر رہی ہے۔ قرآن مجید میں وہ سائنس علوم بھی ہیں جن پر عمل کر کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ملکہ بلقیس کا تخت لایا گیا تھا۔ آج دنیا جدید سائنسی علوم "ٹائم ٹریول” (Time Travel) اور "ٹیلی پورٹیشن” (Teleportation) وغیرہ کے زریعے ان قرآنی علوم تک عملی رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح "مصنوعی ذہانت” (Artificial Intelligence) کے اشارے بھی قرآن پاک میں جا بجا موجود ہیں کیونکہ قرآن حمید میں مختلف حوالوں سے انسان کو عقل سے کام لینے اور غوروفکر کرنے کا 750 مرتبہ سے زیادہ زکر آیا ہے۔
یہاں تک کہ آئندہ صدیوں میں آنے والا کوئی بھی نیا، جدید یا سائنسی علم ایسا نہیں ہو گا کہ جس کی ابتداء کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادات ربانی اعلانیہ یا مخفیہ صورت میں نہ ملتے ہوں۔ یوں غور سے دیکھا جائے تو قرآن پاک خود ایک "اسلامک سائنس” ہے جو کسی بھی طرح سائنسی علوم کے متوازی یا متضاد ہے اور نہ ہی ان علوم کے حصول سے کسی جگہ منع کرتا ہے۔
مغرب میں جو سائنسی انقلاب آیا اس کی وجہ "تحریک احیائے علوم” تھی جسے انگریزی زبان میں Renaissance
کہا جاتا ہے. بنیادی طور پر یہ فرانسیسی لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ دوبارہ جنم Rebirth ہے۔ مغربی احیاء کی یہ علمی و اصطلاحی تحریک چودھویں صدی میں پہلی بار مڈل ایجز (Middle Ages) کے خاتمے کے بعد اٹلی سے متعارف ہوئی تھی جس کو عروج سنہ 1490ء سے لے کر 1520ء تک حاصل ہوا۔
یہ تحریک یورپین جدید سائنسی علوم اور کلاسیکل تہذیب کی تجدید نو سے متعلق ہے۔ مسلم دنیا میں بھی ایک دن اسی طرح علمی اور تہذیبی انقلاب آئے گا جب وہ اپنے اسلامی علوم کا احیاء جدید ترین سائنسی علوم کی روشنی میں کریں گے۔ لیکن مسلمانوں میں اس نوع کا "سائنسی انقلاب” اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ مذہبی تفرقہ جات سے باہر نہیں آتے یا اپنے حاضر درسی علوم کو قرآن مجید کی تعلیمات اور سائنسی علوم میں نہیں ڈھالتے ہیں۔
ایک حدیث مبارکہ ﷺ کا مفہوم ہے کہ، "علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے،” جس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اسلام دینی و اخروی علوم کے علاوہ دنیاوی اور عصری علوم کو سیکھنے کا بھی برابر درس دیتا ہے جس کو قرآن پاک کی اس آیت سے بھی تقویت ملتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔
اگر قرآن پاک مومنین کی اخروی کامیابی کو دنیا میں کامیاب ہونے سے مشروط کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان مومن ہو یا ایک عام غیرمسلم ہو وہ جدید یا سائنسی علوم کو حاصل کیئے بغیر کامیابی حاصل کرے یا ترقی کر سکے؟ لھذا یہ سوال ایک لایعنی سی بات ہے کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے متضاد یا متوازی مضامین ہیں۔ یہ تو ایک سادہ سی منطقی بات ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قوم یا معاشرہ تب تک ترقی کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ نئے اور جدید علوم پر دسترس حاصل نہیں کرے گا۔
دنیا کا کوئی دوسرا مذہب یا عقیدہ بھی اس وقت تک عوام الناس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا یے جب تک وہ جدید علوم سے ہم آہنگ نہ ہو یا نہ ان کا پرچار نہ کرتا ہو۔ جبکہ اسلام تخت صبا سے لے کر "واقعہ معراج” تک زمان و مکان (Time and Space) کی ہر قید کو سائنسی اور جدید علوم کے بل بوتے پر عبور کرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنس کو قرآن میں ڈھونڈنے کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ قرآن تو خود روحانی اور سائنسی علوم کے ہر دور کا جدید ترین منبع ہے۔
Title Image by ekrem from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |