خادم حسین کھو کھر سے مصاحبہ

خادم حسین کھو کھر ، لیہ

مصاحبہ نگار : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
لیہ کی دھرتی نے بہت سارے نام ور شعراء و ادباء پیدا کئے ہیں ۔ ڈاکٹر خیال امرووہی مرحوم ، نسیمِ لیہ مرحوم ، شعیب جاذب مرحوم ، پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین ، ڈاکٹر گل عباس ، اعوان ، امان اللّٰہ کاظم ، جسارت خیالی اور دیگر نے نا صرف لیہ کا نام روشن کیا بلکہ تاریخِ ادب لیہ کی جان بن گئے ہیں ۔ عصرِ حاضر میں ایک نیا اور جوبصورت نام خادم حسین کھو کھر کا ہے ۔ جو ایک خوش گوار ہوا کے جھونکے کی طرح وارد ہوا ہے ۔
اپنے اشعار کے ذریعے نوجوان نسل کو راہِ راست پر لانے میں بھر پور کردار ادا کر رہا ہے ۔ ایسے شاعر شہر و قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں ۔ جن کے کلام سے معاشرہ خود کو سمجھنے سنوارنے اور بھائی چارہ جیسے کردار ادا کرنے لگ جائے تو سمجھو کہ شاعر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ ایسے شعراء کا کلام بھی زندہ رہتا ہے اور خود بھی زندہ رہتے ہیں ۔
خادم حسین کھو کھر 4 اپریل 1977ء کو بستی سبانی چک نمبر 108 TDA لیہ میں الہیٰ بخش کھو کھر کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم 1984ء سے اسکول بند والا سے شروع کی چھٹی کلاس کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول کوٹلہ حاجی شاہ (لیہ) سے میٹرک پاس کیا اور ایف اے ۔ بی اے پرائیوٹ طور پر پاس کیا آگے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور محکمہ پنجاب پولیس میں ملازمت اختیار کر لی ۔ یاد رہے راقم الحروف کی پیدائش بھی لیہ کنال کالونی میں 1977ء کو ہوئی تھی ۔
کتاب کا نام” سجِھ اُبھاریاونجے “مصنف خادم حسین کھو کھر صفحہ نمبر 23 پر صابر جاذب لکھتے ہیں ۔
شائستہ مزاج شاعر خادم حسین کھو کھر کو قدروں کا احساس ہے ۔ وہ عوام کے درد و کرب سے آشنا ہے ۔ تب ہی تو انہوں نے زندگی کا امرت کشید کرکے وسیع و عریض کائنات کو شاعری کی روح بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان کا تخلیقی سفر تو ابھی شروع ہوا ہے ۔ آغاز ہی میں وہ سنگلاخ زمینوں میں پھول کھلانے اور دشت میں گل بوٹے اگانے کا ہنر جانتا ہے ۔ اس کی شاعری تمام تر لطافتوں سے آراستہ ہوتی ہے ۔ ان کا احساس پاکیزہ ، وہ بصیرت اور بصارت کے شاعر ہیں ۔ مجھے امید ہے وہ دن دور نہیں جب جادم حسین کھو کھر کو اور ان کی شاعری کو آفاقی عالمگیر سطح پر جانا جائے گا ۔

خادم حسین کھو کھر سے مصاحبہ


خادم حسین کھو کھر سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ چند روز قبل ہونے والی ملاقات میں جو علمی و ادبی حوالے سے سوالات و جوابات ہوئے ہیں وہ نذر قارئین ہیں
سوال : آپ فقط سرائیکی میں اشعار کہتے ہیں یا اردو میں بھی کہتے ہیں ۔ ؟
جواب : میں لسانیت کے اعتبار سے کسی زبان کو فوقیت دینے کا قائل نہیں ہوں ایک زبان کو فقط ایک زبان ہی سمجھتا ہوں لیکن دانشوروں کی اِس بات کے ساتھ Agree کرتے ہوئے کہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار انسان اپنی قومی اور مادری زبان میں صحیح کر تا ہے اور آسانی سے کر لیتا ہے تو اِس لئے زیادہ تر میرا کلام سرائیکی میں ہے یعنی میری مادری زبان میں ہے ۔ میں وقتآ فوقتاً اپنی قومی زبان اردو میں بھی شعر کہتا ہوں اور کہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔
سوال : آپ کی شاعری کا خاص موضوع کیا ہے ۔ ؟
جواب : حضرت غالب سے کسی نے ایک دن کہا کہ حضرت آپ اپنے فلاں شعر کی تشریح کر دیں تاکہ ہم
کسی حتمی رائے تک پہنچ جائیں ۔
یہ سن کر حضرت غالب نے کہا کہ تشریح سے شعر کا مفہوم محدود ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا آپ اِس خدمت سے مجھے دور رکھیں میرے شعر کو محدود نہ کروائیں
اسی طرح کسی ایک شاعر کے پاس کوئی ایک میدان نہیں ہوتا بلکہ شاعر ہمہ پہلو ہوتا ہے ۔
بہر حال آپ کے سوال کی اہمیت دیکھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں
جواباً میرا نمائدہ حوالہ بیٹی کے حقوق کی آواز ہے جو کہ میرے شعروں میں کثرت سے پائی جاتی ہے ۔
سوال : آپ شاعری میں خود کو کیسا پاتے ہیں ۔؟
جواب : یہ اپنے منہ سے میاں مٹھو بننے والی بات ہے ایسے کسی سوال کا جواب آپ جیسے فاضل احباب دے سکتے ہیں بہر حال احباب کی رائے سے آپ کو آگاہ کرتا ہوں دوچار دن قبل اور ایک مستند رائے میرے بارے میں
سید مرتضیٰ افسوسؔ نے دی جوکہ ابھی تک ایف بی پر موجود ہے مذکورہ رائے میں مجھے شاہ جی نے ایک اچھا اور ہمہ پہلو شاعر مقرر کیا ہے ۔ میری کتاب “سجھ ابھاریا ونجے ” میں میری دھرتی کے عظیم دانشوروں نے شعرا کرام نے جس میں میرے استاد محترم منظور بھٹہ صاحب (تخلیق تے تخلیق کار کیا ہے)۔ڈاکٹر گل عباس اعوان صاحب (سرائیکی ثقافت دا امین )۔صابر جاذب (گلِ ادب خادم حسین کھوکھر) ۔ محمد سلیم اختر جونی
(سرائیکی روایات کا علم بردار)
اسی طرح میاں شمشاد حسین سرائی حاجی یاسین بھٹی صبغت اللّٰہ بزمی نے نمایاں طور پر ہمہ جہت نمائندہ شاعر کہا ہے ۔
سوال : آج کل مشاعرہ کی روایت دم توڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ آپ کیا کہیں گے ۔؟
جواب : جی بالکل ایسا ہی ہے ۔”دم توڑتی کیا ؟دم توڑ چکی ہے ۔خصوصاً سرائیکی ماحول میں اِس معاملے میں زیادہ تر ہاتھ بزموں کی روایت کا ہے ۔
بزموں نے ہم سے ایک اچھا مشاعرہ جو کہ وقت کی ضرورت ہے چھین لیا ہے ۔ ایک متشاعر نے ہم سے ایک اچھا شعر فہم انسان لوٹ لیا ہے ۔ مشاعرے کرانے کا موقع چھین لیا گیا ہے ۔ اِس بات کی آپ کے اور میرے آس پاس بہت ساری نشانیاں موجودہ ہیں ۔ اگر ہم غور کریں تو ! لیکن نام اٹھا کر ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔
سوال : لیہ کی ادبی محافل میں آپ نے کیا پایا ۔؟
جواب : فنِ شعرو سخن کے ساتھ محبت اور نفرت کو برابر پایا ۔
سوال : آپ کے حلقہء ادب میں کون کون لوگ ہیں ۔ ؟
جواب : بہت سارے دور و نزدیک کے ادیب و شاعر شامل ہیں نام لینے بیٹھو ں تو ایک طویل فہرست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
سوال : آپ کی کتاب
“سِجھ اُبھاریاونجے”
کتنے انعامات حاصل کر چکی ہے ۔؟
جواب : اساتذہ اکرام کہتے ہیں کہ اصل اعزاز تو شعر فہم لوگوں کی داد ہوتی ہے جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شعر فہم لوگ مسلسل نواز تے رہتے ہیں اور آرہے ہیں ۔ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سے انعامات سے نوازا ہے ۔ مجھے آرٹس کونسل ملتان ( خبریں ) کی طرف سے سند اعزاز ۔ادبی تنظیم کار خیر پاکستان گوجرانوالہ سے گولڈ میڈل مع کیش ۔ کاروان بیدل جھنگ سے احمد تنویر ادبی ایوارڈ ۔بھیل انٹر نیشنل ادبی ایوارڈ ننکانہ صاحب سے ۔ الوکیل کتاب ایوارڈ مع سند امتیاز حاصل پور سے ۔ ایوارڈ براۓ بہترین تصنیف انٹر نیشنل رائٹرز فورم راولپنڈی سے اور اسی طرح بزم لطیف فتح پور بزم فروغ ادب وثقافت لیہ ۔ لیہ ادبی سوسائٹی لیہ سے سند امتیاز اور ایوارڈز سے نوازا گیا ہے ۔
ہاں یاد آیا بزمِ اوج ادب بھکر نے بھی میری کتاب کو ایوارڈ کے لئے نامزد کر لیا ہے ۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ پولیس والا اور شاعر کا کوئی جوڑ نہیں ۔ اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : جی ضرور اس پر مختصر جواب دوں گا کہ پیشہ کا اور شعر گوئی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔
شعر گوئی کا تعلق موزوں اور غیر موزوں طبیعت سے ہوتا ہے ۔ضروری نہیں کہ ہر ایک پروفیسر شاعر موزوں طبیعت رکھتا ہو ۔ضروری نہیں ہر ایک انتظامیہ کا فرد غیر موزوں طبیعت ہو ۔ اِس طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ان گنت لوگ شعر گو اور شعر فہم بھی ہیں ۔
سوال : آپ کے شعبہ (پولیس) اور شوق( ادب ) میں بہت تفاوت ہے ۔
جواب : اِس سوال کا جواب میں اس سے پہلے والے سوال میں جواب دے چکا ہوں ،
پبلک کا یہ ایک وہم ہے کوئی فرق نہیں ہے ۔
جواب : ایک شعر ہے جس کے مفہوم کو
ہم نظریہ کے طور پر لے رہے ہیں
کیا آپ اِس نظریہ کے قائل ہیں ؟
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔
جواب : جی بالکل میں اسی طرح اورں کے درد کو اپنا درد محسوس کرتا ہوں ہے ۔
سوال : ملازمت میں کئی ایسے مشکل موڑ آ جاتے ہیں ۔ دوران ِ سروس پھر اس لمحے آپ کا طرز ِ عمل کیا ہوتا ہے ۔؟
جواب : تحمل اور حوصلے کے ساتھ مشکلوں سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
سوال : ادبی میدان میں آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ؟
جواب : امن و محبت کا رواج ,سماج میں اچھے سماج کی بہتری کیلئے سعیِ مسلسل ۔
سوال : شاعری میں فکر کو جلا بخشنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ۔؟
جواب : احساس اور مشاہدہ کے لیے مطالعہ شاعری کے ساتھ قرآن مجید کا
سوال : قنبر نقوی سے آپ کے رفاقت کا پوچھ سکتے ہیں ۔ ؟
جواب : ذکی صاحب! ضرور قنبر نقوی صاحب میرے اچھے دوست اور ایک اچھے شاعر ہیں ۔
ویسے میں سادات کی نسبت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں ۔
سوال : آپ خوش مزاج ہیں جب کہ آپ کے پیشے میں یہ چیز نہیں چلتی۔۔۔۔اس پر آپ کیسے مینیج کرتے ہیں ۔؟
جواب : یہ بات صرف ڈیوٹی کے دوران وہ بھی مخصوص جرائم پیشہ کے ساتھ یعنی خوش مزاجی کو چھوڑنا پڑتا ہے ۔
سوال : لیہ نے ادبی حوالے سے آپ کو کیا دیا ۔؟
جواب : ادبی ماحول /اور ڈاکٹر خیال امروہوی شعیب جاذب اور منظور بھٹہ کی نسبت نے اُسلوبِ کلام کے ساتھ ایک صحیح ادبی ماحول دیا ۔
سوال : آپ کی شاعری کا میدان ِ خاص کیا ہے ۔؟
جواب : بیٹی کا تحفظ اور حقوق
سوال : سرائیکی شاعری کا مستقبل آپ کے نزدیک کیا ہے ۔؟
جواب : ایک اچھے مستقبل کی امید ہے
سوال : لیہ میں کون سی سرائیکی صنف ِ شعر زیادہ برتی جا رہی ہے ۔؟
جواب : ویسے تو لیہ میں سرائیکی کے
اچھے اچھے شاعر موجود ہیں جو کہ ہر ایک صنفِ شعر پر طبعِ آزمائی کر رہے ہیں بلکہ اساتذہ کےاچھے اچھے شعر موجود ہیں
الغرض میری نظر میں تو غزل ہے ۔

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ٹرانسپورٹ میڈیا

بدھ جون 14 , 2023
یورپ میں اب بھی 80 فیصد صارفین خریداری بسوں پر کی جانے والی ایڈورٹائزنگ کو دیکھ کرکرتے ہیں،
ٹرانسپورٹ میڈیا

مزید دلچسپ تحریریں