پاک و ہند کشیدگی: صدر وزیر اعظم ملاقات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
یکم مئی 2025 کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے مابین ہونے والی ملاقات ملکی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر وقوع پذیر ہوئی۔ اس ملاقات میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ بھی شریک ہوئے۔ اس اعلیٰ سطحی مشاورت کا محور پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جنوبی ایشیا میں تیزی سے بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال تھی۔
یہ ملاقات بظاہر ایک رسمی کارروائی دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے اندر چھپی سیاسی، عسکری اور سفارتی اہمیت کا دائرہ کافی وسیع نظر آرہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ 1947 سے لے کر اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور کارگل جیسی نیم جنگی کیفیت کا سامنا بھی کر چکے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ، لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں، آبی تنازعات، سرجیکل اسٹرائیکز اور سفارتی کشیدگیاں اس تعلق کو ہمیشہ ایک غیر متوازن راستے پر گامزن رکھتی رہی ہیں۔
پہلگام حملہ، جس کا الزام بھارت نے بغیر کسی ٹھوس تحقیق اور ثبوت کے فوری طور پر پاکستان پر عائد کر دیا، ایک مرتبہ پھر اسی رجعت پسندانہ سفارتی رویے کی عکاسی کرتا ہے جو نئی دہلی کی سیاسی قیادت کی جانب سے وقتاً فوقتاً اپنایا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں صدر اور وزیراعظم کے مابین ملاقات نہ صرف ایک حفاظتی تدبیر تھی بلکہ یہ پاکستان کے ریاستی بیانیے کو واضح کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ پاکستان اپنی علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ یہ موقف نہ صرف ریاستی عزم کا مظہر ہے بلکہ افواجِ پاکستان کی دفاعی تیاریوں اور قومی وحدت کی جھلک بھی دکھاتا ہے۔ اس بات پر زور دینا کہ قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے، داخلی اتحاد و اتفاق کے پیغام کو تقویت دیتا ہے، جو کسی بھی بیرونی دباؤ کے خلاف مؤثر ڈھال کا کام کرتا ہے۔
اس ملاقات کی ایک اور اہم جہت بھارت کے اشتعال انگیز بیانات اور جارحانہ رویے پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی ایٹمی اسلحہ سے لیس دو ممالک کے درمیان کشیدگی کے سبب عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت کی بالغ نظری اور سفارتی احتیاط علاقائی امن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
قومی تاریخ میں ایسے لمحات بارہا آئے ہیں جب ریاستِ پاکستان کو داخلی استحکام اور بیرونی خطرات کے درمیان متوازن حکمت عملی اختیار کرنا پڑی۔ چاہے وہ 2002 کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہو یا 2019 کا پلوامہ واقعہ، پاکستان کی کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، تاہم اپنی خودمختاری اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ بھی نہ کیا جائے۔
آج کا اعلامیہ نہ صرف اس تاریخی روایت کا تسلسل ہے بلکہ اس امر کی بھی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کی ریاست، حکومت، افواج اور عوام ایک صفحے پر متحد و یکجا ہیں۔ ایسے اعلامیے محض بیانات نہیں بلکہ وہ قومی دستاویزات ہوتے ہیں جو آنے والے وقت میں تاریخ کے صفحات پر گواہ بن کر محفوظ رہتے ہیں۔
01 مئی 2025 کی ایوانِ صدر ملاقات ایک سفارتی اور قومی حکمت عملی کے تسلسل کا علامتی اور حقیقی مظہر ہے۔ بھارت کے جارحانہ رویے کے سامنے پاکستان کا پُرامن مگر مضبوط ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کلید صرف ایک طرفہ الزامات یا فوجی طاقت نہیں بلکہ تدبر، انصاف اور مساوات پر مبنی خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |