دل کا مرض اور موت کا لاشعوری عمل
بعض انسانوں کو اپنی موت کی خبر کچھ عرصہ پہلے ہو جاتی ہے۔ 28اپریل کو انہوں نے مجھے آخری بار فون کیا اور کہا، "آپ میرے بڑے بھائی ہیں، ہم حج پر جا رہے ہیں، کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کر دینا۔” میں کافی خوفزدہ ہوا کہ وہ معافی کیوں مانگ رہی ہیں؟ ہاں حج پر جانے سے پہلے کچھ لوگ معافی تلافی کے ایسے کلمات کہتے ہیں۔ البتہ میں زیادہ پریشان اس وجہ سے ہوا کہ جب دو ماہ پہلے سجاد بھائی نے بتایا تھا کہ ان کی پوری فیملی حج پر جا رہی ہے تو تب بھی لاشعوری طور پر مجھے ایک انجانہ سا خوف لاحق ہوا تھا۔ آپ اسے الہام کہیں یا میرا وہم سمجھیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دماغ میں زندگی کے مستقبل کے بارے کچھ خلیات ہوتے ہیں، جو کبھی کبھی اپنا کام ضرور دکھاتے ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ دنیا سے جانے والی میری بہناں کو بھی کچھ وقت پہلے پتہ چل گیا کہ اب اس کا وقت رخصت قریب ہے۔ 3مئی کی صبح کو یہ بات سچ ثابت ہوئی جب 7بجے سجاد بھائی نے میسج کیا، جسے کھول کر پڑھا تو لکھا تھا، "میری بیوی کا مکہ میں انتقال ہو گیا یے حرم میں کل ظہر کے بعد ان کی نماز جنازہ تھی۔”
سجاد احمد حسین اور اس کی بقیہ فیملی حج کے بعد سیدھی انگلینڈ چلی گئی۔ میں کل سجاد صاحب کو افسوس کرنے گیا اور جب ہم نے گھر کی روشنیاں آن کیں تو وہ بہت مدھم لگ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی خادمہ کو بنگلہ دیش چھٹی پر بھیج دیا تھا، بیڈ رومز، ڈرائنگ روم، کچن اور سٹڈی روم بلکل ایسے بے رونق اور خاموش تھے جیسے یہ کوئی بھوت بنگلہ ہو۔ میں نے سفید شیشے کی کھڑکیوں سے بیک گارڈن کو دیکھا تو سوئمنگ پول میں پانی نہیں تھا، پچھلے برآمدے اور برگولا کے نیچے کرسیاں اور میزیں موٹے کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور فرش پر خشک پتوں کا ڈھیر تھا۔ سجاد بھائی نے بتایا کہ ان کی خواہش تھی کہ انہیں مکہ میں موت آئے۔ پہلی بار انہوں یہ خواہش تب کی تھی جب ان کے انکل مظفر کی حج کے دوران وفات ہوئی تھی اور انہیں مکہ میں دفن کیا گیا تھا۔ میرا تجسس اکثر وجوہات کے بارے کھوج لگانے کا ہوتا ہے۔ میں نے سجاد بھائی سے تفصیل جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا کہ وہ سو رہی تھیں اور اچانک اٹھیں تو انہیں سانس لینے کی پرابلم محسوس ہوئی جس کے دو گھنٹے بعد ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی، جنہوں نے بتایا کہ ان کا انتقال "ہرٹ اٹیک” کی وجہ سے ہوا ہے۔
پاکستان میں دل کی بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر تیسرے آدمی کی موت دل کے دورے یا دل کے بند ہو جانے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ سجاد بھائی کی مسسز کو کبھی بلڈ پریشر کی شکایت ہوئی اور نہ اس سے پہلے انہیں کبھی ہارٹ کا مسئلہ پیش آیا تھا۔ دل کی بیماری عموما دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور دوسرا دل کا بند ہو جانا ہوتا ہے۔
دل کی ناکامی کو ہارٹ فیلیئر بھی کہا جاتا ہے، جو ایک دائمی طبی حالت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک طویل عرصے میں آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے۔ دل کی ناکامی اس وقت ہوتی ہے جب دل کے عضلات جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی خون پمپ کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ تنگ شریانیں دل کو کمزور، بلاک یا سخت بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے خون کی مناسب پمپنگ نہیں ہوتی، جبکہ دل کا دورہ چربی کے ذخائر کے ذریعہ شریانوں میں رکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے جسے تختی کہتے ہیں۔ تختیوں کے پھٹ جانے کی وجہ سے خون کے جمنے کی تشکیل شریانوں کو مزید روکتی ہے جس سے اکثر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے جو اچانک ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں، خون کی فراہمی کی کمی کی وجہ سے دل کے پٹھوں کے حصے مر جاتے ہیں۔ یہ صحت کی حالت مہلک ہو سکتی ہے اگر مریض کو فوری طبی امداد دستیاب نہ ہو۔
یعنی ہارٹ اٹیک کی وجہ پلمبرنگ پرابلم ہوتی ہے جس میں خون کی نالیاں بند ہو جاتی ہیں یا بلڈ کلاٹس بن جاتے ہیں، جبکہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ الیکٹریکل پرابلم ہوتی ہے جس سے دل کسی صدمے، پریشانی یا دماغ میں میسر کسی لاشعوری خیال کی وجہ سے بھی ڈھڑکنا بند ہو جاتا ہے کیونکہ دل کو دماغ سے وہ احکامات موصول نہیں ہوتے جن کی بنیاد پر وہ کام کر رہا ہوتا ہے۔
سجاد صاحب نے بتایا کہ ان کی مسسز نے اپنی موت سے ایک گھنٹہ قبل کہا کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں اب کر لیں مگر وہ نہیں بچیں گی۔ شاید ان کے دماغ میں موجود ان کی خواہش کہ وہ مکہ میں دفن ہونا چاہتی ہیں اپنا کام کرنے لگی تھی۔ جب ان کی نماز جنازہ ہو گئی تو انہیں اسی قبرستان میں دفن کیا گیا جس میں ان کے انکل مظفر کو دفن کیا گیا تھا۔
بے شک موت برحق ہے مگر شہادت کے سوا کبھی بھی موت کی خواہش نہیں کرنی چایئے کیونکہ موت دماغ میں موجود ایک خوف یا فطری خواہش یعنی بیالوجیکل ضرورت ہے جو زندگی کو دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ اگر کسی خاص جگہ یا مقام پر مرنے کی خواہش بھی اس میں شامل ہو جائے تو وہاں پہنچ کر زندگی کے خلاف موت کا امکان دو چند ہو جاتا ہے یعنی بڑھ جاتا ہے۔ ممکن ہے وہ دوبارہ حج نہ کر سکتیں تو ان کی مکہ میں دفن ہونے کی خواہش بھی پوری نہ ہو سکتی۔
انہوں نے مکہ دفن ہونے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوا۔ وہ نرم دل اور احسان کرنے والی تھیں۔ اچھے انسان دنیا سے چلے بھی جائیں تو وہ مرتے نہیں ہیں۔ ان کی یادیں یہاں رہ گئی ہیں اور اپنی نیکیاں وہ اپنے ساتھ لے گئی ہیں۔ اللہ پاک میری بہناں کے درجات بلند فرمائے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |