غیرت کے نام پر دہرا قتل
دنیا بھر میں ظلم و بربریت اور انسانیت سوزی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں کے پی کے اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی "جرگہ نظام” رائج ہے۔ میں 90 کی دہائی میں اسلام آباد سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجن ڈویژن، فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ ایریاز) میں کام کرتا رہا ہوں۔ تب پاکستان کے میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ میں فاٹا کے قبائلی سٹوڈنٹ کا کوٹا ہوا کرتا تھا، شاید اب بھی ہو گا، تب مجھے قبائلی لوگوں اور ان کے جرگہ نظام کے بارے میں پتہ چلتا رہتا تھا۔ ان قبائلی علاقوں میں "پولیٹیکل ایجنٹ” ہوتے تھے جہاں انتظامیہ (پولیس) اور عدالتوں کی بجائے زیادہ تر فیصلے عوامی جرگے کرتے تھے۔ جہاں تک جرگوں کے بارے سن رکھا تھا اچھا ہی محسوس ہوتا تھا۔ لیکن چند روز قبل بلوچستان میں جس طرح جرگہ کے ایک فیصلے پر ایک شادی شدہ جوڑے کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، اس پر دنیا بھر میں ہونے والی ظلم و بربریت اور انسانیت بھی شرما گئی ہے۔
کیا وفاقی یا بلوچستان کی صوبائی حکومت اس واقعہ پر کوئی اقدام اٹھائے گی یا کوئی صوبائی یا وفاقی عدالت اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس واقعہ پر از خود کوئی نوٹس لے گی اور کیا قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی یا نہیں؟
سوشل میڈیا پر شیتل اور زرک کی محبت کو رومانوی کہانی کی شکل میں نمایاں کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس واقعہ میں ظلم اور جہالت کی حد کر دی گئی۔ شائد ایک وقت تک جس قبائلی نظام پر فخر کیا جاتا تھا، یہ واقعہ اس کے بدنما کفن میں آخری کیل ثابت ہو۔ سوشل میڈیا کی ہر دوسری تحریر میں اس ظلم کو محبت کا نام دے کر "گلیمیرائز” کیا جا رہا ہے مگر حکومت کو چایئے کہ وہ فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کر کے انہیں عدالت میں پیش کرے۔
اطلاعات کے مطابق مقتولہ قتل ہونے کے لیئے جب میدان میں اتری تو اس کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا، وہ خوش باش اور ہشاش نظر آ رہی تھی۔ اس لڑکی نے کسی سے زندگی کی بھیک مانگی اور نہ ہی وہ مرنے سے گھبرائی۔ جس بہادری کے ساتھ اس لڑکی نے موت کو گلے لگایا اسے محبت کی سچی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں نے محبت کی بنیاد پر نکاح کیا تھا اور شادی کا حلال راستہ چُنا تھا، کسی کا دل نہیں دکھایا تھا، کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ لیکن اُن دونوں کا قصور بس اتنا تھا کہ انہوں نے "پسند” سے شادی کی، جو غیرت کے ٹھیکیداروں سے برداشت نہ ہو سکی۔
محبت کی اس سچی داستان میں ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ان دونوں کو کھانے کی دعوت پر بلایا گیا، مگر یہ کھانے کی نہیں، ان کو قتل کرنے کی دعوت تھی۔ قبائلی جرگے کا فیصلہ آ چکا تھا۔ تب ان دونوں کو چٹیل میدان میں گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں لے جایا گیا، جہاں 19 مرد اور 5 لوڈڈ بندوقوں والے موجود تھے، جن کے درمیان میں یہ دو بے بس انسان کھڑے تھے۔ ایک 24 سالہ شیتل نامی لڑکی، خود قتل گاہ کی جانب بڑھی، اُس کے لبوں پر التجا نہیں تھی، رحم کی درخواست نہیں تھی، صرف ایک جملہ تھا کہ
"صرف گولی مارنے کی اجازت ہے،” اور پھر اسے 9 گولیاں ماری گئیں۔ ایک عورت سے اس کی محبت، وقار، وجود، اور اس کی زندگی چھین لی گئی۔
اس کے بعد 32 سالہ زرک نامی لڑکے کی باری آئی جسے 18 گولیاں ماری گئیں تاکہ غیرت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔ ان دونوں نے ڈیڑھ سال پہلے بھاگ کر شرعی نکاح کیا تھا۔ قبائلی جرگہ کی یہ کیسی عدالت تھی کہ جس میں جرم محبت تھا اور سزا موت تھی، جہاں باپ، بھائی، چچا، ماموں سب مل کر اپنی ہی بیٹی، بہن اور بھتیجی کو قتل کر ریے تھے، جس کے بعد "راضی نامہ” کی شکل میں انہوں نے اس قتل کو دھونے کی کوشش کی۔
اس لڑکی کے ہاتھ میں ایک طرف قرآن پاک تھا اور دوسری طرف ان ظالم قاتلوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ اگر وہ جوڑا "بے غیرت” تھا، تو جرگے اور قاتلوں نے کونسی غیرت کا ثبوت دیا؟ یہی کہ اس واقعہ سے پوری انسانیت شرما گئی۔ وہ دونوں مر گئے ہیں بلکہ قتل ہو گئے ہیں مگر اب ہر درد دل ایسے ظالمانہ جرگہ سسٹم پر تھو تھو کر رہا ہے۔ شاید کل کوئی اور شیتل، کسی اور زرک کے ساتھ اُسی میدان میں کھڑی ہو گی، اُسی پگڑی کے نیچے انصاف مانگے گی، اور وہ بھی مٹی میں دفن کر دی جائے گی۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی غیرت، صرف نکاح کرنے والوں کے لئے کیوں جاگتی ہے اس کا حق تو انہیں ان کا خالق بھی دیتا ہے، اور اگر یہی غیرت کسی بیٹے کی حرام کاری پر نہیں جاگتی، کسی زانی کو سر عام شریعت اسلامیہ کے تحت کوڑے نہیں مارے جاتے ہیں تو پھر یہ غیرت نہیں، بلکہ ظلم اور بزدلی ہے۔
قرآن پاک کی سورۃُ النِّساء میں یہ واضح طور پر لکھا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ، "پس تم اُن (عورتوں) کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔”
یہ انسانیت سوز واقعہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بڑی بڑی گاڑیاں دور دراز ویرانوں میں آتی ہیں، بڑی پگڑیاں بندوقوں سے فیصلے سناتی ہیں، اور جرگے بیٹیوں اور بیٹوں کی قسمت کا اعلان آبادیوں سے دور، بیابانوں میں کرتے ہیں۔ یہاں دونوں مقتولوں کو لایا گیا اور پھر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
یہ ایک پرانی روایت چلی آ رہی ہے جس کا بھیانک چہرہ ہم آج ٹیکنالوجی کی بدولت دیکھ رہے ہیں مگر ہمارے مسلم معاشرے میں مزید ایسے کتنے جوڑے، کب تک ایسی ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کیئے جاتے رہیں گے، حکومت اور فوج کو اس دفعہ قتل کی اس ظالمانہ واردات کے خلاف فوری ایکشن لینا چایئے، تاکہ آئیندہ ایسے انسانیت سوز مظالم کو روکا جا سکے!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |