خالی ہاتھ
سہراب سائیکل کے بانی اور مالک شیخ اکرم صاحب ارب پتی پاکستانی تھے جو بے بسی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں چند روز قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ کہا جاتا ہے ان کی میت کئی دنوں تک ہسپتال میں بے گوروکفن پڑی رہی مگر اسے وصول کرنے کے لیئے وارثین نہیں پہنچے۔ اپنی موت سے چار دن پہلے تک وہ ڈاکٹروں سے مسلسل التجا کرتے رہے کہ وہ نصیحت لکھنے کے لیئے اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہیں مگر تمام ڈاکٹر اس کی درخواست کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ ڈاکٹروں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس کی اولاد کو اس بارے آگاہ کرتے رہے تھے مگر اس کے بچوں کو مرنے سے پہلے اپنے باپ کو دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شیخ اکرم انتہائی نیک دل انسان تھے وہ یتیم بچیوں کی شادی کرواتے تھے اور درجنوں غریب گھروں کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ آخرکار یہ نیک دل باپ اپنی نصیحت لکھے اور اولاد کو آخری بار دیکھے بغیر آنکھوں میں آنسوؤں کی سسکیاں بھرتے بھرتے موت کے منہ میں چلا گیا، اور جن بچوں کے لیئے ورثے میں باپ نے اربوں روپے کی جائیداد چھوڑی تھی وہ اپنے باپ کی آنکھوں پر آخری بار ہاتھ رکھنے کے لیئے بھی میسر نہیں تھے۔
یہ حسرت بھری اور المناک موت ہماری ہر دوسری المیہ کہانی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز غربت اور انجام امارت کی چاردیواری کے حبس میں ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی صحت ہو اور دولت بھی ہو تو اس کے گرد درجنوں سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ لیکن کسی امیر آدمی کے مرنے کا جونہی وقت قریب آتا ہے تو اس کی اولاد اور رشتہ دار مرنے والے کو بھول کر اس کی جائیداد کا بٹوارہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں انسان کے رشتوں اور تعلقات کی حد فاصل بستر مرگ ہے جس پر پڑا انسان ساری دنیا کی دولت رکھنے کے باوجود بھی کسی کو اپنے پاس بلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جتنا بھی پیارا ہو مرنے والے کے ساتھ جانے کو تیار ہوتا یے۔
ہمارے سرمایہ داری زدہ معاشرے میں تو صورتحال اور بھی بدتر ہے کہ جہاں اخلاقی اقدار اور رکھ رکھاو’ کو بھی رسم و رواج اور دکھاوے میں بدل دیا گیا ہے۔ آپ شہروں یا دیہاتوں میں میت والے گھروں میں جا کر دیکھ لیں کہ ابھی میت گھر میں پڑی ہوتی ہے اور لواحقین اسے جلدی دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ اس سے بدبو نہ آنے لگے مگر سوگواران اور اہل خانہ مہمانوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایسا نہ کیا جائے تو افسوس کرنے کے لیئے آئے ہوئے دوست احباب طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اور طعنے تک دیتے ہیں کہ میت والے گھر میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ وہ ڈھنگ سے مہمانوں کو کھلا پلا سکیں۔ بہت سی جگہوں پر اس مد میں سوگ کو شادی کی طرح منانے کے خلاف انتظامات کیئے گئے ہیں جہاں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو یہ سارا انتظام و انصرام کرتی ہیں۔
لیکن اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی کتنا امیر ہے یا وہ کس بری طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارا اصل مسئلہ ہمارے ذہنی رجحان (مائنڈ سیٹ) کا ہے جس کی روشنی میں ہم لوگوں کے درمیان غربت اور امارت کے تفاوت کی لکیر کھینچتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مقابلے میں ایسی طبقاتی سوچ یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا مفقود ہے۔ یہ تہذیب یافتہ ممالک اسی وجہ سے "سوشل سٹیٹس” کہلاتی ہیں کہ وہاں کوئی غریب ہے یا نان نفقہ سے تنگ ہے تو ان ممالک کی حکومتیں ایسے شہریوں کو عزت کے ساتھ سرکاری گھر اور اسے چلانے کے لیئے ہفتہ وار رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ وہاں ایک دوسرے کو کوئی یہ الزام نہیں دیتا کہ وہ سوشل بینیفٹس پر زندگی کیوں گزار رہا ہے کیونکہ اس طرح کے فوائد لینے والے شہری اپنی وہ رقوم وصول کر رہے ہوتے ہیں جو وہ پہلے ہی حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کر چکے ہوتے ہیں۔
ان ممالک میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا آپ بیمار پڑ جاتے ہیں تو آپ کی تیمارداری اور نگہداشت کے لیئے حکومت کے منظور شدہ سوشل ورکر فوری طور پر خدمت کے لیئے آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زخم یا بیماری وغیرہ کی صورت میں حکومت آپ کو اتنا کچھ دے دیتی ہے کہ اتنا آپ نے عمر بھر نہیں کمایا ہوتا ہے۔
سکندر اعظم کے بارے ایک محاورہ بڑا مشہور ہے کہ، "سکندر جب چلا جہاں سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔” انسان پوری کائنات کا مالک بھی بن جائے مگر وہ مرتے وقت اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا۔ اسی لیئے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو زیادہ دولت جمع کرنے کا لالچ ہوتا ہے اور نہ کم پیسہ ہونے کی وجہ سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہمارے ایشیائی لوگ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ کا پاسپورٹ لینے کے لیئے اسی معیار زندگی کی وجہ سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دولت کی ہوس بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں شیخ اکرم جیسی امیرانہ مگر تکلیف دہ اذیت تب محسوس ہوتی ہے جب اتنا کچھ کما کر بھی آخر میں انسان اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کے بلانے پر اس کی اولاد تک اس کے پاس آنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس لیئے زندگی میں اتنا ہی کمائیں جس سے آپ کسی کے محتاج نہ ہوں اور آپ کی پہچان بن جائے یا اسے آپ کی اولاد جتنا ہضم کر سکے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ دولت کے انبار لگانے اور جائیدادیں بنانے کی بجائے اپنا کمایا ضرورت مندوں اور دوستوں پر خرچ کریں تاکہ ایسی دولت کو سخاوت اور نیک اعمال کی شکل میں اپنے ساتھ اوپر لے جا سکیں
یہ پہلی کہانی نہیں جو ایک مرنے والے دولت مند آدمی کے ساتھ پیش آئی ہے۔ پاکستان کی بہت سی امیر فیملیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں بلکہ ورثے میں ملنے والی زمینوں اور جائداد پر بہت زیادہ لڑائیاں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ تہذیبوں کے امیر ترین افراد بھی آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ وہ سیکورٹی عملہ کے بغیر لائن میں لگ کر برگر خریدتے نظر آتے ہیں یا بستر مرگ تک پہنچنے تک وہ اپنی ساری یا آدھی دولت چیرٹی کے نام کر جاتے ہیں۔ دولت یا دنیا کی بے جان چیزیں گوشت پوسٹ کے جاندار انسانوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی ہیں آپ کوشش کریں کہ آپ اپنے ذرائع اور دولت سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ خوشیاں دینے کی کوشش کریں۔ یہ واقعہ عبرت کی مثال ہے جو گزشتہ ہفتے پیش آیا یے۔ آپ دنیا میں خالی ہاتھ آئے ہیں اور دنیا سے خالی ہاتھ ہی واپس جانا ہے، بہتر ہے لوگوں کی مدد کریں اور کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹائیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |