دبئی، دبئی اے Dubai is Dubai
کویت سنہ 1994ء میں کسی ملک پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ تب طالب علمی کے زمانے میں حب الوطنی کے بارے بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریت اور مٹی کے صحرا میں واقع 3 گھنٹوں کی مسافت اور 2 شہروں پر مشتمل کویت کو دیکھ کر کھلا ڈلا مادر وطن “پاکستان” بہت زیادہ یاد آیا تھا۔ بیرون ملک یہ میرا پہلا سفر تو تھا ہی مگر آپ حیران ہونگے کہ میرا دوسرا غیرملکی سفر بھی کویت ہی کا تھا جب سنہ 1997ء میں صحافی کے طور پر مجھے دوبارہ کویت جانے کا موقعہ ملا۔ پہلی بار بھی وہاں حکومت کویت کی دعوت پر گیا تھا اور دوسری بار بھی کویت کی اطلاعات و نشریات کی “وزارتہ الاعلام” نے بلایا۔ اس وقت ایک عربی زبان جاننے والے دوست نے میرے کویت کے ویزہ پر لفظ “مجانہ” لکھا دیکھا تو مشورہ دیا کہ میں متحدہ عرب امارات کا ویزہ بھی لگوا لوں۔ چونکہ میرے پاس کویت کا سرکاری ویزہ تھا میں اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانہ گیا تو میرا امارات کا ویزہ بھی لگ گیا۔ لیکن تب بھی “دبئی” Dubai اتنا مشہور تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارت خانہ کو لوگ “متحدہ عرب امارات ایمبیسی” کی بجائے “دبئی ایمبیسی” کہتے تھے۔
میں دوسری دفعہ کویت گیا تو حکومت کویت کی وزارت اطلاعات کا عملہ مجھے ائیر پورٹ پر رسیو کرنے کے لیئے موجود تھا۔ میں نے جنوری، سنہ 1991ء میں کویت کی آزادی کے حق میں کچھ کتابچے اور اخبارات میں مضامین لکھے تھے۔ یہ ریکارڈ کویت ایمبیسی میں موجود تھا۔ جب 28فروری سنہ 1991ء میں کویت عراق کے قبضے سے آزاد ہوا تو کویت کی حکومت نے مجھے خصوصی طور پر کویت جانے کی دعوت دی مگر بوجوہ میں پہلی اور دوسری بار بلترتیب 1994 اور 1997 میں کویت جا سکا۔ جب میں دوسری بار کویت گیا تو کویتی حکام مجھے کویت کا دوسرا شہر دکھانے کے لیئے “فاہیل” بھی لے کر گئے۔ کویت کے میرے اس دورے کے بنیادی مقصد میں کویت کی تاریخ اور تعمیر نو کے بارے میں کچھ مزید مضامین لکھنا شامل تھے۔ لیکن کویت کے اس دس روزہ دورے کے دوران بھی دبئی Dubai کے بارے بہت ساری معلومات پڑھنے اور سننے کو ملیں۔ جب میں کویت سے واپسی پر دبئی ائیر پورٹ پر اترا تو دبئی ائیرپورٹ کو دیکھ کر تجسس دوبالا ہو گیا۔ اس وقت تک میرے سمیت دیگر پاکستانیوں کی اکثریت صرف دبئی کو جانتی تھی۔ پاکستانی عوام شارجہ کا نام بھی محض شارجہ میں ہونے والے کرکٹ میچوں کی وجہ سے سنتے اور یاد رکھتے تھے جن میں زیادہ تر لوگوں کا یہی خیال ہوتا تھا کہ دبئی ایک ملک ہے اور شارجہ اس کا کوئی شہر ہے۔
میں جنوری اور مارچ سنہ 1997ء میں دبئی Dubai مزید دو بار وزٹ پر آیا، میں جولائی سنہ 1998ء میں پاکستان سے انگلینڈ چلا گیا، مگر اس شہر کی چھاپ دل و دماغ میں ایسی بیٹھی کہ میں جب 9سال بعد سنہ 2007ء میں پاکستان آیا تو جون 2008ء میں ایک بار پھر دبئی آ گیا اور پھر یہ شہر دل کو ایسا بھایا کہ یہاں پکے پکے ڈیرے جما لیئے۔ 1997 میں عجمان سے دبئی آتے ہوئے رستے میں ریت کے ٹیلوں اور “ملا پلازہ” کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ جب دوسری ریاستوں سے ٹریفک دبئی آتی تھی تو تیز ہوا کے طوفان سے سڑکیں ریت سے بھر جایا کرتی تھیں۔ شیخ زید روڈ پر “کراو’ن پلازہ” اور چند دیگر عمارتیں نظر آتی تھیں۔ تب “برج العرب” تکمیل کے مراحل میں تھا جس کا افتتاح دسمبر 1999ء میں ہوا۔ اٹلانٹس ہوٹل، جمیرا کے ویلاز اور جے بی آر وغیرہ کی تعمیرات بھی جاری تھیں۔ برج خلیفہ جس کا پہلے “برج دبئی” نام تھا بھی 2004 میں شروع ہو کر 2010 میں مکمل ہوا۔ اسی دوران دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ مال یعنی “دبئی مال” جس کا پہلا نام “دی دبئی مال” تھا کی اوپننگ بھی 4نومبر 2008 کو ہوئی جس کی مزید توسیع کی چند روز قبل منظوری دی گئی ہے۔
گو کہ دبئی مال دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال ہے مگر اب یہ مزید پھیلنے کیلئے تیار ہے۔ دبئی مال کی توسیع کے منصوبے پر 40 کروڑ ڈالرز سے زائد خرچ کئے جائیں گے۔ میں نے دبئی Dubai کے وزٹس اور 2008 کے بعد اس کی مسلسل ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہاں نئی عمارات، سڑکوں کا نظام اور انفراسٹرکچر ایسا ہے کہ ہر نیا آنے والا مسافر دبئی Dubai کی ترقی کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے 1997 کے وزٹ کے دوران ایک جرمن جوڑے سے پوچھا تھا کہ جرمنی اور دبئی میں کیا فرق ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ دبئی میں جرمنی سے زیادہ خوبصورت عمارتیں ہیں، یہاں کی سڑکیں اچھی ہیں اور مہنگی کاریں زیادہ ہیں۔ حالانکہ جدید ترقی کے لحاظ سے جرمنی انگلینڈ سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ میں انگلینڈ میں 9 سال رہا ہوں مجھے سہولیات، امن و امان اور بہت سے دیگر مواقع کی وجہ سے لندن کے مقابلے میں دبئی زیادہ پسند ہے۔ میرے خیال میں کم ترین وقت میں دبئی دنیا بھر میں تیز ترین ترقی کرنے والی ریاستوں اور شہروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس وقت بھی دبئی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ شائد دبئی کو تعمیراتی شعبے میں ریکارڈز بنانا بہت زیادہ پسند ہے۔
دبئی Dubai دنیا کی بلند ترین عمارت کا گھر ہے اور اسی شہر میں دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر بھی موجود ہے جو اب مزید پھیلنے جا رہا ہے!
دبئی مال ایک کروڑ 20 لاکھ اسکوائر فٹ رقبے پر پھیلا ہوا شاپنگ سینٹر ہے اور اب اس میں مزید 240 دکانوں اور ہوٹلوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس شاپنگ سینٹر میں دنیا کا سب سے بڑا فش ایکوریم بھی موجود ہے جبکہ یہاں ڈیجیٹل آرٹ میوزیم بھی ہے، 15 کروڑ سال پرانا ڈائنا سور کا ڈھانچہ بھی ہے اور 26 اسکرینوں پر مشتمل ایک سنیما کے علاوہ اور بھی بہت کچھ موجود ہے۔
دبئی Dubai کی نئی تعمیرات میں 58 میل طویل ائیر کنڈیشنڈ شاہراہ کا منصوبہ بھی شامل ہے تاکہ دبئی میں سیاحوں کی بڑھتی تعداد کو زیادہ سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ فروری 2023 میں اس منصوبے کی تفصیلات سامنے آئی تھیں جس کے مطابق یہ شاہراہ اٹھاون میل طویل ہو گی جس کے اوپر ایک چھت موجود ہو گی اور اسے “دی لوپ” کا نام دیا جائے گا۔
بنیادی طور پر یہ شاہراہ سائیکل چلانے یا پیدل گھومنے والوں کے لئے ہو گی جس کا ایک مقصد دبئی Dubai میں کسی بھی جگہ آسانی کے ساتھ پہنچ جانے کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ شاہراہ دبئی Dubai کے گرد گھومے گی اور یہ گاڑیوں سے پاک سر سبز راہداری ہو گی تاکہ لوگ پیدل یا سائیکل پر شہر کی سیر کر سکیں!
میں جب 80 کی دہائی میں پاکستان لاہور ایف سی کالج کا طالب علم تھا تو مجھے لاہور بہت پسند تھا۔ لاہور میں شالیمار باغ ہے، شاہی قلعہ اور شاہی مسجد ہے جس کے دامن میں مزار اقبال ہے، پنجاب یونیورسٹی ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں تاریخی مقام “چوبرجی” اور “انار کلی بازار” ہیں۔ یہاں تک کہ لاہور میں جتنی رونقیں ہیں یا وہاں کے شہری جتنے مہمان نواز اور “جی دار” ہیں، لوگ بجا طور پر کہنے میں حق بجانب ہیں کہ “لہور لہور اے” مگر لاہوری بھی دبئی آتے ہیں تو اسے دیکھ کر لاہور کو لاہور کہنا بھول جاتے ہیں کہ دبئی Dubai واقعی دنیا بھر کا ایسا “عروس البلاد شہر” (میٹروپولیٹن سٹی) بن چکا ہے کہ دبئی آنے والے سیاح دبئی کے ائیر پورٹ ٹرمینل3 پر اترتے ہی اس شہر کو دل دے بیٹھتے ہیں کہ لاہور میں اب پولیوشن کے سوا کچھ نہیں بچا۔
دبئی Dubai میں آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ہیں جن میں ہر طرف صفائی ہے جو ماحول دوست ہیں تعمیر و پائیداری کا نمونہ ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کا رش ہے مگر دھواں نہیں، یہاں جھیلیں ہیں، چھوٹی لگژری لانچیں ہیں، شاہراہوں کے کناروں کے ساتھ کیفے اور ریسٹورنٹس ہیں، کھجور اور پام کے درخت ہیں، آپ کھلے سمندر کے کنارے چلے جائیں تو مجال ہے کہ وہاں کوئی شاپر بیگ، کھانے کے ریپر، پلاسٹک کی بوتلیں یا کوئی دیگر کباڑ پھینک سکے۔ٹریفک جام نہیں ہوتی، فلائی اوور برجز ہیں، سڑکیں صرف اس مقام سے عبور کی جاتی ہیں جہاں زیبرا کراسنگ ہو، گاڑی پارک کرنے کی فیس ہے، لباس پہننے کی آزادی ہے لیکن اس پر اعتراض کرنے کا حق کسی فرد کو نہیں۔ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دبئی ایک منظم زندگی کا شہر ہے۔ پاکستان کے بہت سے شہر دبئی سے زیادہ قدرتی وسائل کے مالک ہیں، پاکستان میں پانی کی کمی ہے لیکن پھر بھی وہاں پانی اس قدر وافر ہے کہ لوگ گلیوں میں بہاتے رہتے ہیں، جس سے جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں اور مچھروں کی نرسریاں قائم ہو جاتی ہیں۔ اس سے ہماری “سوک سینس” کی سطح ظاہر ہوتی ہے کہ ہم اپنے وسائل کو کس بے دردی سے لٹا رہے ہیں۔ دبئی میں ترقی کے عمل کا شاید ہی ہمارے فیصلہ سازوں اور ماہرین تعلیم نے کبھی تجزیہ کیا ہو، دبئی کی ریاست کے بارے زیادہ تر علم میڈیا کی کوریج سے ملتا ہے، خاص طور پر نیوز میگزین اور کاروباری رپورٹس سے، دنیا دبئی کی ترقی کو ایک ماڈل کے طور پر جانچ رہی ہے جو کہ ایسا کاروباری ماڈل ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود صرف دولت سے مزید دولت پیدا کرنے میں دبئی دنیا بھر کے شہروں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے کہ پوری دنیا کا پیسہ بلا رکاوٹ یہاں پہنچ رہا ہے۔
گزشتہ 10 برسوں میں متحدہ عرب امارات کی تیل کے بغیر تجارت 16.14 کھرب درہم (4.4 کھرب امریکی ڈالر) تھی۔ متحدہ عرب امارات کی جی ڈی پی سنہ 2021ء میں 407 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022ء میں 440 ارب ڈالر اور سنہ 2023ء میں 467 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی طرح فی کس جی ڈی پی جو سال 2020ء میں 43,868 ڈالر تھی، بڑھ کر گزشتہ سال 48,822 ڈالر ہو گئی۔ تیل کی پیداوار جو کبھی دبئی Dubai کی مجموعی جی ڈی پی کا 50 فیصد تھی، آج ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتی ہے۔ سنہ 2018ء میں تھوک اور خوردہ تجارت کل جی ڈی پی کے 26 فیصد کی نمائندگی کرتی تھی۔ نقل و حمل اور لاجسٹکس 12 فیصد، بینکنگ، انشورنس اور کیپٹل مارکیٹ 10 فیصد، مینوفیکچرنگ 9فیصد، رئیل اسٹیٹ 7 فیصد، تعمیرات 6 اور سیاحت 5 فیصد تھی۔ تازہ ترین اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سیاحت، مینو فیکچرنگ اور کیپٹل مارکیٹ میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔
آج دبئی Dubai نے ہوٹلوں کی تعمیر اور رئیل اسٹیٹ کو ترقی دے کر اپنی معیشت کا محور سیاحت کو بنا لیا ہے۔ پورٹ جبل علی، جو 1970ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، دنیا کی سب سے بڑی انسانی ساختہ بندرگاہ ہے۔ دبئی مارینہ کے علاوہ ڈیرہ مرینہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ واٹر فرنٹس، گرین سٹی اور سموک فری سٹی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دبئی اور ابوظہبی کے درمیان بلٹ ٹرین کا منصوبہ زیر تکمیل ہے جو اڑھائی گھنٹے کی بجائے یہ فاصلہ صرف 30 منٹ میں طے کروائے گا۔ یہ ٹرین جاپانی ٹرینوں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہو گی۔ دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر، آئی ٹی اور فنانس جیسی سروس انڈسٹریز کے مراکز بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ایمریٹس ایئرلائن کی بنیاد حکومت نے 1985ء میں رکھی تھی (جسے پی آئی نے پروموٹ کیا تھا)، یہ اب بھی سرکاری ملکیت میں ہے اور دنیا کی آج بھی انتہائی منافع بخش اور نمبر ون آئیر لائن ہے جبکہ خود پی آئی اے بنک رپٹ ہو چکی ہے۔
دبئی Dubai دنیا بھر کے کاروباری دفاتر کا مرکز ہے، یہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ کے لئے سب سے بڑا کاروباری گیٹ وے ہے اور بزنس ہب ہے، دبئی انٹرنیٹ سٹی، اب دبئی میڈیا سٹی کے ساتھ دبئی ٹیکنالوجی، الیکٹرانک کامرس اور میڈیا فری زون اتھارٹی کے ساتھ مل کر ایک ایسا انکلیو ہے جس کے ممبران میں آئی ٹی فرمز جیسے ای ایم سی کارپوریشن، اوریکل کارپوریشن، مائیکروسافٹ، سیج سافٹ ویئر اور آئی بی ایم شامل ہیں۔ کئی میڈیا ہاوس جیسے ایم بی سی، سی این این، رائٹرز اور اے پی کے دفاتر یہاں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے میڈیا اداروں کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ دبئی نالج ولیج، دبئ فری زونز، دبئی انٹرنیٹ سٹی اور دبئی میڈیا سٹی بھی کام کر رہے ہیں، جو کلسٹرز کے مستقبل کے کارکنوں کو تربیت دینے کے لئے سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ دبئی آؤٹ سورسنگ زون ان کمپنیوں کے لئے ہے جو آؤٹ سورسنگ کی سرگرمیوں میں شریک ہیں۔ یہاں کمپنیاں دبئی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مراعات کے ساتھ اپنے دفاتر قائم کر سکتی ہیں۔
مزید برآں دبئی Dubai میں سیاحت کے لیئے شاپنگ مالز، ڈزنی لینڈز، برج العرب کے ساتھ “وائلڈ وادی”، ڈو کروز، ڈیزرٹ سفاری دبئی مال کا “واٹر ڈانس”، شوٹنگ، اور دیگر بے شمار ایسی ٹورسٹ اٹریکشنز ہیں کہ دبئی Dubai میں دنیا بھر سے سیاح امڈ آتے ہیں جس سے سیاحت دبئی کے لیئے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی نقدی کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لئے سیاحت دبئی حکومت کی حکمت عملی کا بنیادی حصہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیاحت کے شعبے نے سنہ 2017ء میں جی ڈی پی میں تقریباً 41 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا، جو کہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد بنتا ہے اور یہ شعبہ تقریباً 570,000 ملازمتیں بھی فراہم کرتا ہے، جو کل روزگار کا 4.8 فیصد بنتا ہے۔سال 2007ء سے2017ء کے دوران جی ڈی پی میں اس شعبے کی شراکت میں 138 فیصد اضافہ ہوا۔ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے 2016ء میں 83.6 ملین مسافروں کو خوش آمدید کہا اور اسی سال 14.9 ملین سیاح دوبئی کے ہوٹلوں میں ٹھہرے، جو کہ 2015ء سے 5% زیادہ تھا۔2023 اور 2024 میں سیاحوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
پاکستانی فخر سے لاہور کے بارے کہتے تھے: “جئنے لہور نہئ ویکھیا او جمیا ای نہئ” اب دبئی Dubai کی اس بے مثال ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا دبئی کے بارے کہتی ہے کہ جس نے دبئی نہیں دیکھا اس نے دیکھا ہی کیا ہے؟ انڈیا اور پاکستان سے لوگ تیزی سے یہاں کاروبار قائم کر رہے ہیں اور پراپرٹیاں خرید رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انڈین اور پاکستانی دبئی میں زیادہ پراپرٹیوں کے مالکان کے طور پر بلترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ریکارڈ کیئے گئے۔ یہ ہمارے لیئے سبق آموز بات ہے کہ دبئی Dubai کتنا کاروباری دوست ماحول رکھتا ہے جس کے مقابلے میں پاکستان انوسٹمنٹ کے لحاظ سے کس قدر بدترین ملک ہے۔
آج کی سائنسی ٹیکنالوجی اور کونیات کے دور میں دولت اور ذرائع سے زیادہ “آئیڈیاز” بکتے ہیں۔ دبئی Dubai ہر لحاظ سے ایک لبرل اور کمرشلایزڈ سٹیٹ ہے۔ آپ کے پاس کوئی اچھوتا خیال ہے، آپ محنت کرنا جانتے ہیں یا آپ میں کوئی بھی غیر معمولی صلاحیت ہے تو دبئی Dubai ایسا شہر اور ریاست ہے جہاں آپ کو آگے بڑھنے کا ضرور موقع ملتا ہے۔ مجھے دبئی میں رہتے ہوئے 15 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ میں مزدوروں اور ان پڑھوں کو اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر ملینئیر بنتے دیکھا ہے۔۔۔ قانون شکنی کیئے یا کسی کو نقصان پہنچائے بغیر آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور جو چاہیں بیچ سکتے ہیں جو شرطیہ منافع کی ضمانت ہے۔ دبئی اپنی انہی لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی کاروباری شخصیات کو اٹریکٹ کرتا ہے۔ آج متحدہ عرب امارات کی حکومت نے کچھ ممالک کے ویزوں پر پابندی لگا رکھی ہے مگر ان ممالک کے شہری ہیں کہ دبئی پہنچنے کے لیئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کر کے یہاں پہنچنے کے لیئے پریشان و بیتاب ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ دبئی دنیا کے ہر شہری کو وہ سہولیات اور پرامن رہنے کی وہ سہولیات فراہم کرتا ہے جو دُنیا کا دوسرا کوئی ملک یا شہر فراہم نہیں کرتا۔
دبئی Dubai دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جہاں دوست اور دشمن ایک ساتھ امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔ کہاوت کے مطابق، یہاں شیر اور بکری قانون کی پابندی اور حکومت کے اس پر عمل کروانے کی وجہ سے ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ جہاں قانون کی بالادستی ہو وہاں نہ صرف ترقی ہوتی ہے بلکہ وہاں دنیا کے تمام ممالک سے لوگ امان پانے کے لیئے کھچے چلے آتے ہیں۔
Title Image by Pexels from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔