پروفیسر عاصم بخاری کی شاعری کا ایک اہم موضوع بیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار
(مقبول ذکی مقبول ، بھکر
مختلف زاویوں سے برتا ہے
لفظ بیٹی کو میں نے شعروں میں
۔۔۔۔۔
مثل مہماں کے بیٹیاں ہوتیں
بیٹیوں کا خیال رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔
ظلم کی انتہا نہیں تو کیا
آپ تو بیٹی کا بھی حق کھاتے
۔۔۔۔۔
چار دن ہی سہی بخاری جی
گھر کی رونق تو بیٹیوں سے ہے
۔۔۔۔۔
مثل مہماں کے بیٹیاں ہوتیں
بیٹیوں کا خیال رکھتے ہیں
عاصم بخاری ایک سریع الرفتار شاعر و ادیب ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں خلاق ذہن عطا کیا ہے ۔ منفرد آ واش ہیں شعر و ادب کی دنیا میں ۔
ان کے چند ا ھوتے اشعار سے میں نے اپنے مضمون کا آ غاز کیا ہے ۔ اب کی بار ان کا موضوع مشرقیت ، اسلامیت اور آدمیت و انسانیت کا حامل ہے ۔ اس میں ایمانیات بھی ہے دینیات بھی ہے اور اخلاقیات و سماجیات بھی
۔۔۔۔۔
اس بار انھوں نے اپنی ، شاعری کا موضوع بیٹی جیسے پاکیزہ و مقدس رشتے کو بنایا ہے جسے بڑی جامعیت کے ساتھ کامیاب نبھایا ہے
شعر ملاحظہ ہو
کتنے رنگوں میں بیٹیاں عاصم
آ ج بھی زندہ دفن ہوتی ہیں
۔۔۔۔
عاصم بخاری کا تخیل بیدار ہے ۔سماجی مسائل کا شعور انہیں بخوبی ہے ۔ جس کا بڑے کرب ناک انداز میں ببانگ دہل اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔ بیٹا بلاشبہ اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے مگر بیٹی کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ماں باپ اور گھر کے لیے رحمت قرار دیا ہے ۔
شعر دیکھیں
بیٹے بھی مانا بیٹے ہیں دل کا سرور ہیں
عاصم بخاری بیٹیوں سے گھر کی رونقیں
۔۔۔۔۔۔
بخاری یہ حق دار ترکے سے بھی ہے
فقط تیری میت کی وارث نہیں اک
۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری ایک حساس دل کے مالک شاعر و ادیب ہیں ۔ ان کے ہاں رشتوں کی پاکیزگی اور قدر و منزلت شعری صورت میں زیادہ ملتی ہے ۔ ان کا نفسیاتی شعور بھی خاصا بلند ہے
شعر ملاحظہ ہو
بیٹیوں کی تو قدر پوچھ ان سے
جن گھروں میں کہ یہ نہیں ہوتیں
۔۔۔۔۔
پروفیسر عاصم بخاری کا تعلق چوں کہ سادات گھرانے سے ہے ۔دینی شعور و تعلیم رکھتے ہیں عورت کے مقام سے باخبر ہی نہ ۔ بیٹی کے مقام و مرتبہ کی بات دین مبین کے تناظر میں قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ دینی تعلیمات کی ترجمانی کرتا شعر
اس کو ربّ کی رضائیں ہیں حاصل
بیٹیاں ہیں بخاری جس گھر میں
۔۔۔۔
والدین کی مشرق میں روایت ہے کہ بیٹی کے بچپن سے ہی فکرمند ہو جاتے ہیں اور اپنے فرض اور اس ادائیگی کو ہمہ وقت اپنے ذہن میں رکھتے ہیں اسی اجتماعی سوچ اور فکر کی یہاں کچھ ان الفاظ میں ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
دیر لگتی نہیں کوئی عاصم بیٹیوں کے جوان ہونے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے اور زمانے کے تلخ حالات کی تصویر اور حقیقت نگاری عاصم بخاری کو خوب آ تی ہے ایک مکمل نظمانہ قارئین کی نذر
باپ بوڑھے نے پوچھا بیٹے سے
جان کی گر امان میں پاؤں
دور ہے گھر یہاں سے بیٹی کا
ہو اجازت تو شب ٹھہر جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے کے ایک رائج نظریے اور خیال سے عاصم بخاری انحراف اور اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ عموماً نرینہ اولاد کو ہی پہچان قرار دیا جاتا ہے ۔ عاصم بخاری نے اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ ضروری تو نہیں ، بل کہ معاشری میں اس کے برعکس بھی کبھی کبھی لایا ہےکہ بیٹے خاندان قوم اور قبیلے کے لیے ننگ و عار کا بھی سبب بنتے ہیں اور بیٹیاں قبیلوں کی پہچان فخر اور تعارف ثابت ہوتی ہیں ۔
شعر ملاحظہ ہو
بے نظیروں کو ہی قبیلوں کی
ہم نے پہچان بنتے دیکھا ہے
۔۔۔۔۔
ایک اور قطعہ
جس میں عاصم نے ایک اور حقیقت کو آ شکار کیا ہے کہ یہ ضروری تو نہیں صرف بیٹے ہی ہماری شناخت اور پہچان بنیں ، بعض اوقات اس کے بر عکس ہی مل جاتا ہے ۔ لیکن یہاں ہندی رسم س رواج کی قدیم جھلک پر بھی چوٹ ملتی ہے ۔
باعثِ ناز بیٹیاں دیکھیں
دیکھے پہچان بنتے کم بیٹے
بعد مرنے کے نام رہ جائے
مانگتے ہیں خدا سے ہم بیٹے
۔۔۔۔
ادھیڑ عمر والدین کی ہر نماز کے ساتھ بس ایک ہی یہی دعا دل سے نکلتی ہے ۔ بخاری نے موقع کی مناسبت سے خوب عکاسی اور ترجمانی کی ہے ۔
سو دُعاؤں کی اِک دُعا یاربّ
بیٹیوں کے نصیب اچھے کر
۔۔۔۔۔
ایک اور خوب صورت نظم جس میں انھوں معاشرتی رویے اور طرزِ عمل پر بیٹی کے حوالے لاجواب طنزیہ نشتر چلایا ہے
بیٹی
۔۔۔۔۔
( نظم )
بیٹی کو ہم
کیوں پڑھوائیں
اس نے پڑھ کے
کیا کرنا ہے
ایسی سوچیں
کیسی عاصم
۔۔۔۔۔۔
اللّٰہ تعالیٰ بیٹی کو رحمت قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ تو اس کی رحمت کا طالب ہو مگر ہم ہندوستانی طرزِ عاشرت میں ایک عرصہ رہنے پر بیٹی کے خواہش مند کم ہوتے ہیں اور اس کی پیدایش پر شکر بجا لانے کی بجائے افسردہ پائے جاتے ہیں جس کی ایک اچھا عمل نہیں
چاہتا ہے وہ مانگ بیٹی بھی
مانگتے ہو خدا سے بیٹے تم
۔۔۔۔
معاشرے کی ایک اور بھیانک اور خود غرضانہ تصویر یوں پیش کرتے ہیں۔
وراثت کی تقسیم کے خوف سے
کئی بیٹی کی شادی کرتے نہیں
۔۔۔۔۔۔
پروفیسر عاصم بخاری نے بیٹی کے ذمہدارانہ رویے کو تحسین پیش کی ہے کہ بیٹی تاحیات اپنے ماں باپ کی عزت اور وقار کا بھرپور خیال رکھتی ہے مگر بیٹوں کے ہاں ایسا رویہ کم ملتا ہے ۔ شعر کا خوب صورت زاویہ دیکھیں
بیٹی کے جیسے گھر کی عزت کا
بیٹے پر بھی خیال لازم ہے
عاصم بخاری بزرگانہ ہمدردانہ اور ناصحانہ انداز امت مسلمہ کی ہر بیٹی کو اپنی بیٹی تصور کرتے ہوئے آج کے جدید اور حاضرہ معاشی مسئلے سے دو چار بیٹی سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ۔
بس ہوسٹس
۔۔۔۔۔۔۔
نظم معریٰ
عاصم بخاری
بات اچھی ہے کام کرنا تو
کام سے کون روکتا تجھ کو
ایک ٫٫ شو پیِس ،، بن کے گاڑی میں
کام کرنے سے ہے کہیں بہتر
کام شایان شان کر کوئی
تجھ کو یہ زیب تو نہیں دیتا
کام توقیر کے لیے کرتے
کب ہیں تحقیر کے لیے کرتے
گھر میں عورت ہی کام کر کوئی
کام ایسے ہزار دنیا میں
جن سے عاصم وقار دنیا میں
چیتا چنتا جہاں نہ ڈر کوئی
حال اپنے پہ رحم کر کوئی
مغربیت کہاں ترا بیٹی
مشرقیت شعار ہو تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری اسلامیت اور مشرقیت کے علم بردار اور بڑے پرچارک ہیں ۔ وہ ایک مشرقی بیٹی کو اپنی مذہبی روایات کی پاس داری کرتے دیکھنا ۔ چاہتے ہیں ۔ اور اس پر اس کی حوصلہ افزائی اور دل کھول کر داد و تحسین بھی کرتے ہیں۔
قطعہ ملاحظہ فرمائیں
آ خر بیٹی کس کی ہے یہ سچ تو یہ ہے مشرق کی
جب بھی دیکھی پورے کپڑوں میں ہی سب نے دیکھی ہے
مغرب سے دوری کی ہی یہ عاصم ساری برکت ہے
ہم نے ہر ان پڑھ عورت کے سر پر چادر دیکھی ہے
۔۔۔۔۔
پروفیسر عاصم بخاری دورِ حاضرہ کی جدت اور تیز رفتاری سے مسلم قوم کی بیٹیوں کے بارے فکرمند ہیں کہ مخلوط تعلیم نے قوم کی اخلاقیات کا سب جڑا غرق کر دیا ہے ۔ سج بے چینی کا سبب اظہار بیٹیوں کے چچا حوالے سے وہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں
شعر
کوئی تو یونی ورسٹی کے علاؤہ بھی جگہ ہوتی
جہاں تعلیم بے فکری سے عاصم بیٹیاں کرتیں
۔۔۔۔۔۔
ایک اور درد ناک منظر
شعر میں دیکھیں
سامنے بیٹی کے جب اک باپ کو مارا گیا
یاد اک صدیوں پرانے واقعے کی آ گئی
مخلوط تعلیم سے خائف اور نالاں باپ کی ترجمانی عاصم بخاری شعری صورت میں کچھ ایسے کرتے ہیں ۔
یہاں موجود ہے ہر موڑ پر یونی ورسٹی
کہاں لے جائے بیٹی کو پڑھانے باپ کوئی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |