انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات گوجرانوالہ
ڈاکٹر حفیظ احمد صاحب ، گوجرانوالہ
انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
سوال : آپ کا نام کیا ہے ۔ ؟ اور بچپن کے بارے میں معلومات دیں ۔ ؟
جواب : میرا نام والدین نے حفیظ احمد رکھا اور یہی نام میری تمام اسناد میں درج ہے ۔ میری پیدائش میرے سرئیفیکیٹ کے مطابق 5 اکتوبر 1945ء ہے ۔ میری پیدائش گکھڑ منڈی تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی ۔ میرے آباء واجداد کا تعلق گاؤں رتالی ورکاں سے تھا جو کہ گوجرانوالہ شیخوپورہ روڈ پر واقع ہے ۔ میرا تعلق ورک قوم سے ہے ۔ سکھ دور میں میرے بزرگوں کو مجبوراً گاؤں چھوڑنا پڑا اور وہ گوجرانوالہ منتقل ہوئے لیکن وہ زیادہ دیر وہاں قیام نہ کر سکے اور گوجرانوالہ پسرور روڈ پر ایک گاؤں ستراہ میں مقیم ہوئے اور کاشتکاری کرتے رہے لیکن پھر وہاں سے انہیں نقل مکانی کرنی پڑی اور وہ ایک گاؤں رمداس کوٹ میں آ کر بس گئے ۔ اور کاشتکاری کرتے رہے اور اپنی گزر اوقات کرتے رہے ۔ اسی دوران میرے دادا کا ایک بھائی اللّٰہ داد گوجرانولہ میں مقیم رہا ۔ لیکن باقی لوگ گاؤں میں رہے لیکن بدقسمتی سے وہاں ان کا جھگڑا ایک سکھ خاندان سے ہوگیا جس کے نتیجہ میں انہیں 1945ء میں اس گاؤں سے بھی نقل مکانی کرنا پڑی ۔ میرے دادا کی دو بہنیں اور دو بھائی بھی تھے ۔ لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ میری نانی کی شادی باجوہ فیملی میں ہوئی ۔ اور ان کی اولاد میں دو لڑکیاں اور لڑکا تھا ۔ یعنی ایک میری خالہ جس کا نام رحمت بی بی اور ماموں محمد حسین تھا جبکہ میری والدہ کا نام سید بی بی تھا۔ جبکہ میرے والد کا نام محمد حنیف تھا ۔ اس طرح میرے ننھیال باجوہ اور ددھیال ورک ہیں ۔ میرے بزرگ کاروبار کرتے تھے ۔ ابھی میری عمر 5/6برس کی تھی کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا اور میرے ماموں کے بیٹے جن کا نام محمد شریف باجوہ تھا اور وہ پرائمری اسکول کے مدرس تھے ۔ تعلیم و تربیت کے لئے مجھے اپنے پاس گاؤں کنگ تحصیل سمبڑیال ضلع سیالکوٹ لے آئے ۔ وہ باجوہ کے چنانچہ سبھی لوگ مجھے باجوہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ اور جانتے ہیں حالانکہ میری قومیت ورک ہے ۔ دسمبر 1962ء تک اسی گاؤں میں مقیم رہا ۔ گاؤں میں پرائمری اسکول تھا ۔ پانچویں جماعت کا امتحان اسی اسکول سے پاس کیا پہلی جماعت کے میرے استاد میرے ماموں زاد بھائی محمد شریف باجوہ تھے جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ چھٹی جماعت میں پڑھنے کیلئے مجھے نزدیکی گاؤں گھڑ تل کے ہائی اسکول میں داخل کرایا تھا ۔ جو کہ گاؤں سے تقریباً ۔۔۔۔۔۔ میل کے فاصلہ پر تھا ۔ ان دنوں آمدورفت کے ذرائع کوئی نہ تھے چنانچہ پیدل ہی اسکول جانا ہوتا تھا اور اسکول سے واپس آ کر جانوروں کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑتی تھی ۔ بہرحال وقت گزرتا گیا اور 1962ء میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔ اپنے گروپ میں سر فہرست رہا ۔
ان پانچ سالوں میں میرا اسکول میں ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا۔ اساتذہ کا تعلق اسی دیہاتی علاقوں سے تھا ۔ اسکول کی فٹ بال ٹیم کا رکن بھی رہا اور تحصیل لیول مقابلوں میں شرکت بھی کی مجھے بیت بازی کا بہت شوق تھا ۔ اسی وجہ سے تمام طلباء میں میری شناخت بھی تھی ۔ دوسری خوبی میری خوشخطی تھی اس کی بھی وجہ سے میری پہچان تھی ۔ ہمارا گاؤں نہراپرچناب کے کنارے واقع ہے ۔ میں دیہاتی کھیلوں میں بھی حصہ لیتا رہا ہوں ۔ گلی ڈنڈہ اور کرکٹ بھی ہم کھیلتے تھے ۔ جسمانی طور پر زیادہ مضبوط نہ تھا ۔ لیکن پی ٹی کے وقت میں لیڈ کرتا تھا ۔ میرے ہم جماعتوں میں ایک سپریٹڈنٹ انجیز ایک وائس پرنسپل جامعہ ہائی اسکول ایک آفسر ریٹائر ہوئے ہیں ۔ ہم سب کا تعلق دیہی علاقوں سے ہی تھا ۔ دوران تسلیم ہمارے ماسٹر صاحب جن کا نام محمد یوسف چھیمہ تھا انہوں نے اسکول کی سطح پر ایک میگزین طبع کرانے کا عندیہ دیا جس کا نام انہوں نے سورج مکھی نام تجویز کیا تھا اس رسالے/ میگزین کی کتابت میں نے اور ایک دوسرے سینئیر طالب علم نے کی ۔ وہ بھی خوشنوس تھا ۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہماری تحریریں آج بھی اسکول کے ریکارڈ میں موجود ہونگی ۔ جولائی 1962ء میں ہمارا نتیجہ شائع ہوا ۔ اس وقت میری عمر سرکاری ملازمت کیلئے ناکافی تھی ۔ تاہم بندہ نے ملازمت کیلئے پنجاب یونیورسٹی لاہور درخواست دی اور اس کیلئے تو میری امتحان میں شمولیت بھی کی ۔ اسی دوران میں مجھے لاہور یونیورسٹی میں ملازمت کا خط موصول ہوا ۔ جب وہاں حاضر ہوا اور انہوں نے کاغذات کی پڑتال کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کی عمر چھوٹی ہے لہذاا چند ماہ انتظار کریں ۔ چنانچہ دوبارہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور میں درخواست برائے ملازمت دی گئی اور 29 دسمبر 1962ء کو مجھے ملازمت مل گئی ۔
سوال : مزید اعلیٰ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی ۔؟ اور ملازمت کا سلسلہ کہاں کہاں رہا ۔ ؟
جواب : پہلے اسکول کے جواب میں بتا چکا ہوں کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی تھی دسمبر 1962ء میں ، میں نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور میں ملازمت شروع کی ۔ لاہور بورڈ کی ملازمت کے دوران میں ہی ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔ 1962ء پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور 1971ء میں ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا ۔ اور 1986ء میں ایم اے پنجابی کا امتحان بھی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا ۔ یہاں میں کہتا جاؤں گا کہ بی اے اور ایم اے کے امتحانات میں سرگودھا میں رہتے ہوئے پاس کئے تھے 1968ء میں لاہور یونیورسٹی بورڈ تین حصوں میں تقسیم ہوا ۔ کچھ ملازم لاہور میں ٹھہر گئے کچھ ملتان بورڈ اور کچھ سرگودھا بورڈ میں مستقل طور پر چلے گئے ۔ 1968ء تک دس سال سرگودھا بورڈ کی ملازمت کی اور محکمہ نہ ترقی حاصل کرتا رہا ۔ 1968ء میں راولپنڈی بورڈ مستقل طور پر چلا گیا ۔ سرگودھا بورڈ تقسیم ہو گیا تھا ۔ راولپنڈی بورڈ میں 1981ء میں سپریٹنڈٹ کے عہدہ پر ترقی حاصل ہوئی ۔ 1982ء میں راولپنڈی کی تقسیم ہوئی کچھ ملازم گوجرانوالہ نئے بورڈ میں مستقل طور پر تبدیل ہوئے میرا آبائی ضلع گوجرانولہ تھا ۔ مجھے موقع ملا اور میں بھی فروری 1983ء میں یہاں آ گیا اور یہیں اکتوبر 2005ء میں سکیل 18 میں بطور ڈپٹی کنٹرولر امتحانات ریٹائر ہوا ۔ اب مجھے ریٹائر ہوئے سترہ سال ہورہے ہیں ۔ دوران ملازمت ملازمین کے حقوق کیلئے کوشاں رہا اور ایمپلائز و یلفئیر کا ممبر بھی رہا ۔
سوال : آپ دنیائے ادب میں کیسے وارد ہوئے ۔؟
جواب : مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا ۔ پرائمری سطح پر بیت بازی سے شغف تھا ۔ سینکڑوں شعر زبانی یاد تھے ۔ گھر پر بانگ درا (علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ) اور مشہور زمانہ نعت گو شاعر اعظم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجموعہ ہائے نعت موجود تھے ۔ ان کو پڑھا۔ پنجابی کتابیں شاہ نامہ کربلا اور کمبل پوش (دائم اقبال دائم) کتابیں بھی گھر میں موجود تھیں انہیں بھی پڑھا۔ ہائی درجہ میں نسیم حجازی کے کئی ناول میں نے پڑھے ۔ ملازمت کے دوران بھی رسالے اور کتابیں پڑھتا رہا ۔ اور شوق تاحال جاری ہے ۔ کتاب تحفتہ مل جائے تو بھی پڑھتا ہوں اور اکثر خرید کرتا ہوں ۔
جہاں تک میرے لکھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات کہوں گا کہ میں نے 1971ء میں ایم اے اردو کا امتحان دیا تھا ۔ اس کے آخری پرچہ جو اب مضمون میں ایک سوال تھا کہ اقبال کی شاعری میں طنز و مزاح کے بارے میں لکھو ۔ میں نے اس وقت تک کئی کتابوں کا مطالعہ کر چکا تھا ۔ مجھے اس طرح کا کوئی مواد پڑھنے کا موقع نہ ملا ۔ چنانچہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں اور ان کے متعلقہ کتابوں کی تلاش کی جن میں ایسے مواد کو تلاش کیا جا سکتا تھا ۔ تقریباً تیس پینتیس کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان میں سے مطلوبہ مواد کا انتخاب کیا خوش بختی کہ مجھے ایک کتاب فٹ پاتھ سےکلیات اقبال مل گئی ۔ چنانچہ میں نے ایک کتابچہ اقبال اور طنز و مزاح کے نام سے مرتب کیا ۔ اور سو وہ رفیع الدین ہاشمی (ڈاکٹر) صاحب دیباچہ لکھنے کے لئے پیش کیا جو پچاس سال گزرنے کے باوجود انہوں نے آج تک واپس نہیں کیا ۔ وہ کتاب اب تک تین بار چھپ چکی ہے ۔ 1978ء میں میرا تبادلہ راولپنڈی میں ہو گیا تھا۔ وہاں میری ملاقات جناب انور مسعود ، ڈاکٹر احسان اکبر اور یوسف حسن صاحبان تینوں صاحبان نے میری کتاب کے ضمن میں اپنی آراء سے نوازا ۔ جو کتاب میں شامل ہیں ۔ 1976ء میں سرگودھا بورڈ کی ملازمت کے دوران میں میری ملاقات تین صاحبان سے ہوئی جو اعلیٰ پائے کے تخلیق کار تھے ۔ حیات محمد سیال ان کا تعلق جھنگ گورنمنٹ کالج سے تھا ۔ عبدالغفور قریشی ان کا تعلق بھکر سے تھا ۔ان کی پنجابی ادبی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ تیسرے سمیع اللہ قریشی تھے جو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے غالباً ریٹائر ہوئے ہیں ۔ یہ تینوں ہماری پنجابی کمیٹی کے ارکان تھے ۔ یہ ایک عرصہ میں شرکت کیلئے تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے کمیٹی کی کاروائی اردو میں لکھی ۔ معا” مجھے کہنا پڑا کہ دیگر زبانوں کے ماہرین نے اپنے مضمون کی نسبت سے کاروائی کی زبان میں لکھی ہے آپ نے پنجابی زبان میں کیوں نہیں لکھی انہوں نے کہا کہ ہمیں آج تک یہ خیال ہی نہیں آیا ۔ اور پھر پوچھا آپ کیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی زمہ داریوں سے انہیں آ گاہ کیا انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کیا کرتے ہو۔ ؟
میں نے جواباً عرض کہ کچھ بھی نہیں کرتا ۔ کتابیں پڑھتا ہوں ۔ انہوں نے پوچھا لکھتے بھی ہو ۔ ؟ میں نے نفی میں جواب دیا ۔ انہوں نے تعلیم کا پوچھا تو جوابا عرض کیا کہ ایم اے اردو ہوں پنجابی پڑھنے کا شوق ہے ۔ قریشی صاحب (بھکر والے) بولے ۔ لکھتے کیوں نہیں ۔ ؟ جوابا عرض کیا ۔ کون شائع کرے گا انہوں نے کہا آپ لکھیں میں چھپؤاں گا ۔ چنانچہ اس طرح سے مجھے لکھنے کا اشتیاق ہوا ۔ چند صفحات پر پیر فضل گجراتی کے بارے میں لکھ کر جناب قریشی کو بھجوا دیئے گئے جو ماہنامہ” لہراں “میں شائع ہوئے اور یوں ہم پنجابی ادب کے لکھاری میں شامل ہوگئے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلا جاؤں کہ کتابچہ اقبال اور طنز و مزاح 1978ء میں پہلی بار طبع ہوا تھا ۔ اس کے بعد دو اور ایڈیشن ایک گوجرانوالہ سے اور دوسرا لاہور سے شائع ہو چکا ہے ۔
سوال : آپ نعت کی طرف دیر سے کیوں آئے ۔؟
جواب : جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ میرا میدان تحقیق و تنقید ہے اور میرا سارا یہی ہے اور میری پہچان بھی یہی ہے ۔ اس صدی کے اوائل میں ماہنامہ لکھاری” نے طرحی نعتیہ شروع کیا تھا ۔ انہوں نے یا رسول اللّٰہ کی ردیف پر نعتیں ارسال کرنے کا عندیہ دیا ۔ میں نے بھی طبع آزمائی کی کوشش کی ۔ اور نعت جناب بسمل صاحب کو تصحیح کےلئے پیش کی ۔ انہوں نے اس کی نوک پلک سنوار دی اور نعت متذکرہ رسالے میں شائع ہوئی ۔ یہ میری پہلی شعری کاوش تھی ۔ جنوری 2006ء میں مجھے بعداز ریٹائرمنٹ حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ واپسی پررجحان اس طرف راغب ہوا اور میں نے نعتیہ کلام لکھنا شروع کیا ۔ چالیس پچاس نعتیں مختلف ردیفوں میں لکھیں جو اصلاح کے لئے جناب غلام مصطفیٰ بسمل کو پیش کی گئیں۔ انہوں نے رائے سے بھی نوازا اور استفسار کیا کہ اس کو دیوان کی شکل دی جائے چنانچہ جس میں ردیف کی کمی تھی اس کو پورا کیا گیا اور اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام بھی کیا گیا ۔ اس کی خوب پذیرائی ہوئی اور چھ ، سات جگہوں سے انعام اور سند تعریف سے نوازا گیا ۔ 2021ء میں دوسرا مجموعہ” نعتیہ طیبہ” والیا”کے نام سے شائع ہوا ہے یہ مکمل کتاب ایک ہی ردیف طیبہ “والیا” پر لکھی گئی ہے اور یہی اس کی انفرادیت ہے اسے بھی کئی جگہوں سے انعام سے نوازا گیا ہے ۔ اب پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھنے کی کوشش جاری ہے میرا ایک سلام سہ ماہی” فروغِ نعت “ایک شمارہ نمبر 22_27 میں شائع ہوا ہے (ص105) ۔ اکتوبر 2018ء تا مارچ 2020ء فدائے لم یزل کے فضل سے یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا بشرط حیات ۔
سوال : آپ کا ادبی سرمایہ کیا ہے ۔؟
جواب : جیسا کہ پہلے آپ کو بتا چکا ہوں ۔ میری پہلی کاوش”اقبال اور طنز و مزاح”ہے جو 1979ء میں شائع ہوئی ۔ اور اب تک جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کے نام آپ کو بتا دیتا ہوں ۔
زیادہ تر میری کتابیں انعام یافتہ ہیں۔
1 سوچ وچار (تنقیدی مضامین) 2 . گواچے مہاندرے (تحقیقی مضامین) انعام یافتہ 3 گواچے لعل (تحقیقی مضامین) 4 تارے انبراں دے (تنقیدی مضامین) 5 قصہ تے پنجابی قصہ (تحقیقی) 6 پنجابی قصہ یوسف زلیخا ( تحقیقی تے تنقیدی جائزہ) 7 نعتاں دا محل (شاعری) انعام یافتہ 8 طیبہ والیا ( نعتیہ کلام پنجابی) انعام یافتہ 9 چن حرا دا (انتخاب پنجابی نعت) یہ شرکت غلام مصطفیٰ بسمل ۔ اکرم سعید ، رزاق شاہد 11 اقبال قلندر (علامہ اقبال) ترتیب پنجابی نظمیں شرکت غلام مصطفیٰ بسمل 12 غلام مصطفیٰ بسمل فن تے شخصیت (ترتیب)یہ شرکت ڈاکٹر اکرم سعید 13 معلومات قرآن ۔ 14 پھل اور بارود (جہاد افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی نظمیں) ترتیب یہ اشتراک محمد اقبال نجمی 15 ڈلھکاں ماردے تارے (پنجابی تنقیدی مضامین)
سوال : کیا آپ کی کوئی تحریر یا کلام نصاب کا حصہ بنا ہے ۔؟
جواب : میرا تعلق لوٹر قدل کلاس سے ہے اور ادب میں بھی لوٹر قدل کلاس کا ہی ادیب ہوں ۔ تمام عمر دفتری امور سے واسطہ پڑا رہا ۔ عوامی رابط پیدا نہیں کر سکا ۔ کچھ لوگ ہی میرے نام سے واقف ہونگے ۔ اگر کسی سے علیک سلیک ہوئی بھی ہے تو اس کو جاری نہیں رکھ سکا ۔ جہاں ، جس مقام پر ملاقات ہوئی وہیں ختم ۔ آ گے نہیں چل سکا ۔ نصاب کا حصہ بننا بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ بڑے بڑے عالم اور فاضل لوگوں کا حصہ ہے ۔ یہ اعزاز انہی لوگوں کو زیب دیتا ہے ۔ جن کے روابط ایسے اداروں سے مستقل طور پر ہیں ۔ ادب میں گروپ ہیں اور کسی گروپ کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ۔ اور نہ ہی ہوں ۔ لہزا نصاب کا حصہ بننا میرے لئے نہایت ہی مشکل ہے ۔
سوال : جدید ادب کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ۔ ؟
جواب : جدید ادب سے مراد اگر واہیاتی ہے تو میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ دوم اگر آپ ابہام کی بات کرتے ہیں تو اس کے بارے میں کہوں گا کہ ادب برائے زندگی ہوگا تو قاری آپ کی بات کو سمجھ سکے گا ۔ اگر آپ اشاروں میں بات کریں گے تو عام بندہ اس کو کس طرح سمجھ پائے گا ۔ گونگے کی بات اس کی ماں سمجھ سکتی ہے ۔ دوسرے لوگ سمجھ نہیں سکتے ۔ ہاں کچھ باتیں رمزوکنا یہ میں کہنے کی گنجائش رکھتی ہیں ۔ جیسے آپ حاکم وقت کو گالی نہیں دے سکتے ۔ گالی دینا تو میرے مزہب میں جائز نہیں ۔ برائی بھی بیان کرنا غیبت کے زمرہ آتا ہے ۔ تاہم ایسے حالات میں بات رمزوکنا یہ میں کی جاسکتی ہے ۔ مادرپہرر آزادی گا میں قائل نہیں ہوں ۔ ادیب کا مقصد معاشرے کو سدھارنا ہے اور اس کو یہ فرض پورا کرنا چاہیئے نہ کہ خرافات و مقلظات سے اصلاح معاشرہ کا ٹھیکیدار بنتا دکھائی دے ۔
سوال : کیا آپ تخلیق ہونے والے ادب سے بطور ڈاکٹر ، محقق ، نقاد شاعر اور ادیب مطمئن ہیں ۔ ؟
جواب : میں ادب برائے زندگی زندگی کا قائل ہوں ۔ ادب برائے ادب کو پسند نہیں کرتا ۔ شاعر ، ادیب کو معاشرہ کی آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ جو وہ محسوس کرتا ہے اسے صفحہ قرطاس پر منعکس کر دیتا ہے ۔ معاشرہ جو اسے دیتا ہے وہ معاشرہ کو دے دیتا ہے ۔ جس کی تربیت دینی ماحول میں ہوگی اس پر وہی رنگ غالب ہوگا ۔ جو لادینیت میں پلا ہو گا اس پر وہی رنگ چڑھا ہو گا ۔ جیسا وہ ہو گا ویسا ہی رنگ ، اس تخلیقات میں دکھائی دے گا ۔ ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تخلیق کار بھی اچھے برے ہوتے ہیں۔ جیسے معاشرے میں چور ڈاکو ، لٹیرے موجود ہیں اسی طرح اس قبیل کے لوگ ادب میں دکھائی دیتے ہیں ۔ جو دوسروں کی تخلیقات کو اپنے نام سے پیش کرنے میں کوئی خجالت محسوس نہیں کرتے ۔ کچھ لوگ دوسروں سے کلام لکھوا کر اپنے نام سے پڑھتے ہیں ۔ جنون اور ان جنیئون کی تمیز مشکل ہو گئی ہے ۔ تاہم جیسے ہم ہیں ویسا ہی ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔ کئی بار سکے بند چیزوں پر بھی شک گزرنے لگتا ہے ۔ بہرحال نہ ہونے سے ہونا بہتر ہوتا ہے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیئے ۔ کوشش جاری رہنی چاہیئے ۔ ہمارے ہاں ہر طرح کے ادب کے خریدار موجود ہیں لہذا ہر نوع کا ادب لکھا جانا ضروری ہے ۔ سیاست میں اگر گالی گلوچ چلارہا ہے تو معاشرہ میں بھی یہی دکھائی دے رہا ہے ۔ بہرکیف جو بھی کام کر رہا ہے وہ ادب ہی کی خدمت کر رہا ہے ۔ اگر ناقص مال نہ ہو تو خالص کی پہچان نہیں ہو سکتی ۔ بہرحال ٹھیک ہے میں پنجابی ادب سے وابستہ ہوں مجھے اچھا لکھنے والے دکھائی دیتے ہیں لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیئے ۔
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔