مرحومین کے لئے سول اعزازات کا میلہ

مرحومین کے لئے سول اعزازات کا میلہ!

Dubai Naama

مرحومین کے لئے سول اعزازات کا میلہ

خوشی قسمتی سے اس سال صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے تمغہ حسن کارکردگی وصول کرنے والوں میں ہمارے دوست اور ہم سے ایک سال سینئیر سٹوڈنٹ اور قومی اسمبلی کے جوائنٹ سیکریٹری مشتاق انجم بھٹی بھی شامل تھے۔ ہماری پوری بھٹی برادری اور دیگر دوست احباب کو مشتاق انجم بھٹی کے یہ قابل فخر اعزاز حاصل کرنے پر بڑی خوشی ہوئی۔ زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو یوم آزادی کے موقعہ پر حکومت پاکستان کی طرف سے صدر مملکت ہر سال شہری ایوارڈز دیتے ہیں جن میں سرکاری محکمہ جات اور دیگر شعبوں کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ایک پروقار تقریب میں یہ اعزازات دینے کا سلسلہ 1958ء میں شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے۔ مختلف سرکاری محکموں میں سرکاری ملازمین کی خفیہ کارکردگی کی رپورٹ (اے سی آر) لکھی جاتی ہے اور مئی، جون، جولائی تک اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی ان ایوارڈز کے لئے سفارشات پیش کی جاتی ہیں جس پر 14اگست سے پہلے ایوارڈ کمیٹی تمغہ جات حاصل کرنے والوں کے نام فائنل کرتی ہے۔ اس سال حسب معمول تقریبا 232 ایوراڈز دیئے گئے جن میں اعلی محکمہ جاتی کارکردگی دکھانے والوں میں مشتاق انجم بھٹی کا نام بھی سرفہرست تھا۔

ایوان صدر اور گورنر ہاوسز میں منعقدہ تقاریب میں ان 200 سے زائد شخصیات کو صحت، تعلیم، صحافت، فنون لطیفہ اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات پر سول اعزازات سے نوازا گیا۔ صدر پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز حاصل کرنے والوں میں سرتاج عزیز، میر حاصل خان بزنجو مرحوم، جسٹس (ر) رانا بھگوان داس، احمد غلام علی چھانگلہ (مرحوم)، صوفی غلام مصطفی تبسم (مرحوم)، محمد قوی خان (مرحوم)، جہانگیر خان اور جان شیر خان شامل ہیں۔ ہلال پاکستان کا اعزاز رابن رافیل کو دیا گیا تھا جبکہ ہلال امتیاز کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحئ مرحوم، انجینئر پروفیسر احمد فاروق بازئ، پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، حکیم رضوان حفیظ، ڈاکٹر راجہ علی رضا انور، رئیس احمد، امجد اسلام امجد مرحوم، احمد عارف نظامی مرحوم، بلقیس بانو مرحومہ، معروف افضل، شیر عالم محسود مرحوم اور خواجہ مسعود اختر وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر جیمز شیرا کو ہلال قائداعظم کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ستارہ شجاعت کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں ملک محمد حسن، ملک گگڑائ مرحوم اور فضہ طارق ملک مرحومہ وغیرہ شامل ہیں۔ ستارہ امتیاز کا اعزاز شمع خالد مرحومہ، ہمایوں خان مرحوم، ڈاکٹر شریف ملک، ساغر صدیقی مرحوم، محمد ضیاءالدین مرحوم، لیفٹیننٹ جنرل نعمان زکریا، میجر جنرل محمد اویس دستگیر اور طارق محمود وغیرہ نے حاصل کیا۔ صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ اور پروفیسر جہانزیب نیاز خان مرحوم نے حاصل کیا۔ اسی طرح تمغہ شجاعت حاصل کرنے والوں میں عامر نواز خان شہید اور محمد کامران شہید وغیرہ شامل ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پنجاب کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اعلی کارکردگی کی حامل 40شخصیات میں سول اعزازات تقسیم کئے گئے۔ اسی طرح گلوکاروں، قوالوں، اداکاروں، رقاصاو’ں اور طبلہ نوازوں کو ان اعزازات سے نوازا گیا! گورنر خیر پختون خواہ نے 11شخصیات کو اپنے متعلقہ شعبوں میں مثالی خدمات انجام دینے پر صدارتی سول اعزازات سے نوازا۔ اسی طرح گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے 28افراد میں سول ایوارڈز تقسیم کیئے۔

ان سالانہ صدارتی ایوارڈز کی تقسیم میں اقرباء پروری اور سفارش بھی چلتی ہے جس کی ایک مثال غالبا 2017 میں اسلام آباد اور کراچی کی عدالتوں میں کچھ معروف اور حقدار شعراء کو ایوارڈز میں نامزد نہ کیئے جانے پر مقدمات درج کئے گئے تھے اور یہ معاملہ وزراء کمیٹی میں بھی زیربحث آیا تھا۔

اس سال جو ایوارڈز تقسیم کیئے گئے ہیں ان میں ایک خاص بات جو واضح نظر آئ وہ یہ ہے کہ اس سال کسی پی ایچ ڈی، محقق، سائنس دان، مصنف یا اہل فکر (دانشور) وغیرہ کو صدارتی سول اعزاز سے نہیں نوازا گیا ہے!! ساغر صدیقی نے 19 جولائی 1974 میں لاہور کے ریلوے سٹیشن کے سامنے فٹ پاتھ پر کسمپرسی میں کھانستے ہوئے وفات پائی۔ ان کی وفات کے 49 سال بعد یعنی ان کے مرنے کی تقریبا نصف صدی کے بعد انہیں سول اعزاز دیا گیا گیا ہے۔ اللہ اکبر! اب یہ اعزاز کیا ان کی قبر پر سجانے کے لئے دیا گیا یا ان کی قبر کو “مزار” میں بدلنے کے لئے دیا گیا؟ سول اعزاز کے ساتھ کم و بیش 10لاکھ روپے بھی دیئے جاتے ہیں۔ یہ رقم مرحوم ساغر صدیقی کی بخشش کا لنگر پکانے کے کام آئے گی۔ آپ اعزاز پانے والے 200 سے زیادہ افراد کی لسٹ پڑھ کر دیکھ لیں ان میں اعزاز پانے والا تقریبا ہر چوتھا آدمی “مرحوم” ہے۔ کیا ہم ذہین لوگوں کو جیتے جی انعامات اور اعزازات سے نواز کر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے کہ انہیں خوشی ہو اور وہ اپنے شعبے میں اس سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی دیں، کیا ہم “مرحوم” قوم ہیں کہ اپنے ہیروز اور اور ذہین لوگوں کی جیتے جی قدر نہیں کر سکتے ہیں؟ اسی طرح مہندی حسن مالی مشکلات میں بستر علالت پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر 2012 میں دنیا سے رخصت ہوئے اور انہیں ستارہ امتیاز بعد از مرگ 2013 میں دیا گیا:
کی اس نے مرے قتل کے بعد جفا سے توبہ،
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!

ہم واقعی عجیب “زندہ قوم” ہیں کہ اتنے زیادہ مرحومین کو اتنے زیادہ اعلی سول اعزازات سے نوازنے جیسا یہ کارنامہ ایک ہماری ہی قوم انجام دے سکتی ہے! ہمیں درحقیقت زندہ قوم بننا ہے تو ہمیں اپنا “مائنڈ سیٹ” اور “انداز” بدلنا ہو گا۔ زندگی انہی لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی قوم کی حالت ان کے جیتے جی سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

24واں تقسیم اسناد و شانِ اولیاء کانفرنس

ہفتہ اگست 19 , 2023
مرکز اسلام جامعہ حقانیہ ظاہرالعلوم رجسٹرڈ اٹک کینٹ کا 24واں تقسیم اسناد و شانِ اولیاء کانفرنس
24واں تقسیم اسناد و شانِ اولیاء کانفرنس

مزید دلچسپ تحریریں