چترال تا روس سڑک منصوبہ: وقت کی اہم ضرورت
رحمت عزیز خان چترالی
دنیا کی سیاست، جغرافیہ اور معیشت کے دھارے وقت کے ساتھ ساتھ رخ بدلتے رہتے ہیں۔ آج جو علاقے دنیا سے کٹے ہوئے اور پسماندہ سمجھے جاتے ہیں، کل وہی علاقے عالمی سیاست اور تجارت کے اہم مراکز بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع خیبر پختونخوا کا ضلع چترال اپنے محلِ وقوع کی بدولت اسی تغیر پذیر دنیا میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سرد جنگ کے دوران، جب روس (سوویت یونین) نے افغانستان پر حملہ کیا تو مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ نے پاکستان کو اپنا مرکزی مورچہ بنایا تاکہ روس کو گرم پانیوں (بحیرہ عرب) تک رسائی سے روکا جا سکے۔ پاکستان نے اس جنگ میں اپنے لاکھوں شہریوں، معیشت اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر مغرب کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً نہ صرف روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ خطہ کئی دہائیوں تک جنگ، انتہاپسندی اور بے یقینی کا شکار رہا۔
لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ روس، چین اور وسط ایشیائی ممالک اب جنگ نہیں، تجارت کو اولیت دے رہے ہیں۔ اس بدلتے عالمی تناظر میں پاکستان، خصوصاً وادی چترال، دوبارہ ایک جغرافیائی پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
موجودہ حکومت چترال سے روس تک سڑک کا خواب پورا کرے۔ چترال جو کہ پاکستان کا جغرافیائی لحاظ سے شمالی سرحدی ضلع ہے، افغانستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے ساتھ متصل ہے۔ اس علاقے سے روس اور وسط ایشیا تک زمینی راستہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ چترال سے روس تک ممکنہ سڑک کے تین اہم راستے تجویز کیے جا سکتے ہیں جن میں سرفہرست چترال – لوٹ کوہ – گرم چشمہ – افغان سرحد – روس تک سڑک اور ٹنل بنائے جائیں۔ اگر لوٹ کوہ اور گرم چشمہ سے سرنگ (ٹنل) کے ذریعے افغانستان کے اندر داخل ہوا جائے تو تاجکستان اور اس کے بعد روس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ راستہ قدرتی طور پر مختصر اور سٹریٹجک اعتبار سے موزوں بھی ہے۔
دوسرا راستہ چترال – تورکھو – اجنو گول – زیوار گول – افغان سرحد – روس تک ٹنل والا راستہ ہے۔ یہ دوسرا متبادل راستہ ہے جو قدرتی درّوں سے گزرتا ہوا افغانستان کے بدخشاں علاقے سے ہوتا ہوا تاجکستان اور روس تک پہنچتا ہے۔ یہ راستہ ثقافتی و لسانی روابط کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ تیسراراستہ چترال – بروغل پاس – واخان کاریڈور – تاجکستان – روس ٹنل کے زریعے بنایا جاسکتا ہے۔ بروغل پاس تاریخی راستہ ہے جو صدیوں تک مقامی کھوو اور روسی اقوام اور قافلوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ پاکستان کو افغانستان کے واخان کاریڈور کے ذریعے تاجکستان اور روس سے ملاتا ہے۔ اس راستے کی بحالی چترال اور گلگت بلتستان کے لیے ایک نیا معاشی در کھول سکتی ہے۔
حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر مواصلات عبدالعلیم خان اور روس کے نائب وزیر ٹرانسپورٹ کے درمیان زمینی روابط پر باقاعدہ مذاکرات ہوئے۔ اس کا مقصد پاکستان، روس اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان سڑکوں اور ریل نیٹ ورک کو فروغ دینا ہے۔ ان مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ علاقائی ممالک کے درمیان شاہراہوں کی تعمیر تیز کی جائے۔ جدید ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی جائے اور پاکستان کو تجارتی گیٹ وے بنایا جائے۔
پاکستان خاص طور پر چترال جیسے سرحدی علاقے، اس سڑک منصوبے سے بے شمار فوائد حاصل کر سکتے ہیں جن میں سرفہرست دوطرفہ تجارتی فروغ ہے۔ روس، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور قازقستان جیسے ممالک کو پاکستان کے گوادر اور کراچی بندرگاہوں تک رسائی ملے گی، جبکہ پاکستان کو وسط ایشیائی منڈیوں تک رسائی ملے گی۔
سیاحت اور ثقافت کو فروع ملے گا۔ چترال کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی ورثہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بن سکتا ہے، جو زمینی راستے سے سفر کریں گے۔
دونوں ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ شاہراہوں، سرنگوں اور پلوں کی تعمیر سے مقامی افراد کو روزگار اور کاروباری مواقع حاصل ہوں گے۔
اس سڑک کے سٹریٹجک فوائد بھی ہیں۔ پاکستان ایک بار پھر ایک "جیو اکنامک” ریاست کے طور پر ابھرے گا، جو اپنی جغرافیائی پوزیشن کو پرامن تجارت کے لیے استعمال کرے گا نہ کہ جنگ کے لیے۔
چترال سے روس تک سڑک بنانے کا خواب اب محض ایک تصور نہیں بلکہ عملی شکل اختیار کرنے کے قریب ہے۔ آج کی دنیا اسلحے کی نہیں، تجارت کی دنیا ہے۔ اگر پاکستان اس وژن پر عمل کرے تو چترال صرف ایک سرحدی ضلع نہیں، بلکہ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک پل بن سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اس منصوبے کو سنجیدگی سے لے، مقامی آبادی کو شامل کر کے سوشل استحکام کو یقینی بنائے اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک پرامن، باہمی فائدے پر مبنی سڑک ترقیاتی منصوبہ شروع کرے۔
یوں چترال سے روس تک سڑک نہ صرف خطے میں ترقی و خوشحالی لائے گی بلکہ پاکستان کو ایک بار پھر عالمی جیو اکنامک منظرنامے میں مقام دلائے گی ان شاء اللہ۔
Title Image by Damián Luzzi from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |