حسین امجد کی باعثِ نجات

حسین امجد کی باعثِ نجات

تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قاٸم

اٹک شہر کےمعروف شاعر جناب حسین امجد کا پہلا نعتیہ مجموعہ ” باعث نجات ” منصہ ٕ شہود پر آ گیا ہے۔ فکر کی تابانیاں جب مقدس ہوں تو صوتی ترنگ نعت کی صورت میں ڈھلتی جاتی ہے باعث نجات سلاست و بلاغت کا عظیم شاہکار ہے حسین امجد کے پاس نعتیہ شعر لکھنے کا وصف انہیں کٸی شعرا سے ممتاز کرتا ہے حسین امجد کی شاعری الفاظ کی جادوگری اور خیالات و جذبات ہی کی صورت گری نہیں بل کہ یہ خیال آفرینی اور مضمون آفرینی کا بہترین شاہ کار بھی ہے

حسین امجد کی باعثِ نجات

اخلاقی لحاظ سے حسین امجد ایک محبت کرنے والے بے ضرر انسان ہیں جن کا شعر اسلوبیاتی سفر طے کرتا ہوا اوج کی طرف گامزن ہے انہیں نہ صرف شعر کہنے کا ملکا حاصل ہے بلکہ وہ بہت اچھے نعت خوان بھی ہیں شہر میں جتنے بھی مشاعرے یا قومی دن مناٸے جاتے ہیں ان میں آپ کی شرکت ضروری سمجھی جاتی ہے
“باعثِ نجات ” حسین امجد کی حقیقتاً باعث نجات ہو گی کیونکہ کتاب کا ہر شعر ان کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کا اظہاریہ ہے جو کہ منفرد ہے کیونکہ اُن کا سلاست و بلاغت میں ڈھلا ہر شعر اپنی مثال آپ ہے جسے بہت دیر تک یاد رکھا جاٸے گا حسین امجد کی غزل کا سفر جب نعت میں ڈھلا تو خدا کا خاص لطف و کرم ان کے اشعار میں نظر آنے لگا جس سے قاری کی فکر و آگہی پنپتی ہے اور وہ عشق و وارفتگی میں گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں طے کر لیتا ہے حسین امجد خاکِ مدینہ سے عشق کی حد تک محبت رکھتے ہیں اور کٸی بار بارگاہِ نبوی ﷺ میں خاکِ مدینہ اٹھانے کی اجازت مانگتے ہیں کربلا کی مٹی سے یہی نسبت پا کر وہ اسے آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہتے ہیں وہ ان ذرات سے ضیا کشید کرتے ہیں جن پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک مس ہوٸے انہیں مدینہ کی گلیوں سے عشق ہے وہ غار حرا اور غار ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو پا کر انہیں مقام عود و عنبر قرار دیتے ہیں حسین امجد سے ہمیں محبت ہو گٸی ہے اگرچہ پہلے ان کے اشعار سے ہمیں حسد تھا اور وہ حسد یہ تھا کہ ہمارے اشعار حسین امجد جیسے کیوں نہیں ہیں لیکن یہ حسد محبت میں بدل گیا ہے حمد و نعت کے متعلق حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر اس حسد اور محبت پر کتنا صادق آتا ہے

محبت چوں تمام افتد رقابت از میں خیزد
طوافِ شعلہ پروانہ با پروانہ می سازد
یعنی
حسد و رقابت کا ختم ہونا محبت کی تکمیل کی علامت ہے پروانے ایک دوسرے کے حریف نہیں ایک ہی شمع کے گرد مل کر طواف کرتے ہیں۔

جی ہاں بالکل ہمارا محور حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے جس کے گرد ہمارا عشق و وجدان طواف کرتا ہے اور یہ وجدان ہمارے خیالات کے پرندے کو مدینے کی فضاوں میں لے جاتا ہے جہاں نور بٹتا ہے جہاں ضیاٸیں خیرات مانگتی ہیں جہاں اجالے رقص کرتے ہیں جہاں سورج کی کرنیں رقصِ جمیل کا منظر پیش کرتی ہیں جہاں صبا روضہ ٕ اطہر سے عود و عنبر کشید کرتی ہے

حسین امجد کی کتاب باعثِ نجات میں اشعار کا چناو میرے لیے خاصا مشکل کام ہے کیونکہ ہر شعر عشق و وارفتگی میں ڈھلا ہوا ہے فکری نظافت سے بھرپور ہر شعر گداز پیدا کر رہا ہے جو مومن کے دل میں طمانیت اور کیف پیدا کرتا ہے حسین امجد کی فکری عفت میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہاٸے جمیل ان کے درج ذیل فرخندہ بخت اشعار میں ملاحظہ کیجیے:۔

حضور ﷺ آپ کا لطف و کرم ہو ساتھ اگر
تو لفظ لفظ کو خوشبو سے بھر بھی سکتا ہوں
آپ ﷺ جس وقت مرے دھیان میں آ جاتے ہیں
مہر و ماہ دل میں مری جان میں آ جاتے ہیں
چشمہ ٕ عشقِ نبی دل میں اگر پھوٹے تو
نیک اوصاف بھی انسان میں آ جاتے ہیں

مرے غموں کا مداوا نہیں ہے اس کے سوا
زہے نصیب کہ ہے میرا غم گسار درود

میں پل صراط سے پل میں گزر بھی سکتا ہوں
جو آپﷺ کہہ دیں کہ امجد تجھے اجازت ہے

حسین امجد کے اشعار میں مودت کا دھنک رنگ ان کے الہامی قرینے کا وصف ہے ایسا عشق و فروتنی کہاں کسی قلم کار کے نصیبوں میں ہے اشعار میں عشقِ نبی ﷺ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نہ صرف عشق رسول ﷺ بل کہ مدینہ شہر کی خاک کا تقدس بھی انہیں جان سے پیارا ہے اور پیارا بھی کیوں نہ ہو ان ذروں پر نعلین پاک پڑتے رہے ہیں جہاں محبوب کے پاوں مبارک آٸیں وہ خاک خاک کب رہتی ہے خاکِ شفا بن جاتی ہے یہی گلرنگ ادا حسین امجد کے ان اشعار میں جھلکتی دکھاٸی دیتی ہے ذرا اشعار کی اداٸے جمیل دیکھیے :۔

دل و نظر میں بسا لوں مدینہ شہر کی خاک
اجل ٹھہر میں ذرا لوں مدینہ شہر کی خاک

حضور ! آپ کے لطف و کرم سے ہے ممکن
میں ایک بار کما لوں مدینہ شہر کی خاک

حضور ! آپ کا منگتا ہوں میں حسین امجد
حضور ! کیا میں اٹھا لوں مدینہ شہر کی خاک

عشقِ رسول ﷺ شاعر کو درِ رسول سے دور کب جانے دیتا ہے بس شاعر کا کام دستک دینا ہوتا ہے کبھی نہ کبھی اس در سے اسے جواب مل جاتا ہے اور ایسے اختر نصیب شعرا کامرانیاں سمیٹتے رہتے ہیں
کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ اللہ پاک حضور ﷺ کا وسیلہ رد نہیں کرتا وہ تو چاہتا ہے کہ حضور ﷺ کے وسیلے سے کوٸی خیرات مانگے تو وہ بے نیاز جھولیاں بھر دیتا ہے حسین امجد کی جھولی میں کیسے کیسے گل اندام اشعار کی کثرت ہے ملاحظہ کیجیے:۔

حضور ! آپ سے میں بھیک مانگتا ہی رہوں
مرے نصیب میں تا حشر یہ گداٸی ہو

حاضری کے لیے بلواٸیں مجھے شاہِ امم
منتظر بیٹھا ہوں دیدارِ مدینہ کے لیے

صاحبِ کمال آپ ہیں
اپنی خود مثال آپ ہیں
فاطمہ ہے جان آپ کی
آمنہ کے لال آپ ہیں

وہ نور بانٹتی ہوٸی روضے کی جالیاں
پلکوں سے چھو کے دیکھ لوں اک بار یا نبی

خدا کے سامنے آقا کسی کی چل نہیں سکتی
حوالہ آپ کو دونوں جہاں میں معتبر ٹھہرا
میں چشمِ تر لیے اک روز پہنچوں گا حسین امجد
اگر میرے مقدر میں مدینے کا سفر ٹھہرا

حسین امجد ایسے شاعر ہیں جنہیں نعت اور سلام لکھنے کی وجہ سے میں نے خوشبوٸے اٹک کا خطاب دیا تھا کیونکہ جب وہ نعت اور سلام پڑھتے تھے تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے تھے اور سننے والے افراد کے دلوں پر ایک عجیب سا کیف طاری ہو جایا کرتا تھا لیکن اب حسین امجد پنجابی زبان میں لکھ رہے ہیں ہماری راٸے یہ ہے کہ پنجابی میں بھی نعت کا سفر جاری رکھیں اور ہمیں اُسی سوز اور گداز بھری آواز میں سرکار صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی انعات لکھ لکھ کر سناٸیں تا کہ عشق و وارفتگی کا کارواں آگے بڑھتا رہے
آخر میں میری دعا ہے کہ خدا کرے مدینے کا سفر آپ کا مقدر ہو اور آپ ایسے عشق و فروتنی میں ڈھلے اشعار رقم کرتے رہیں ۔آمین

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سچائی اور دانائی

جمعہ جنوری 12 , 2024
سچائی کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ کڑوی ہوتی ہے اور سچ بولنے والوں کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
سچائی اور دانائی

مزید دلچسپ تحریریں