عائشہ کی برتھ ڈے پارٹی
یہ ان کی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ پارٹی کے عروج پر ہم محو گفتگو تھے، خواتین ویلا کے پچھلے برآمدے اور مرد برگولا کے نیچے کرسیوں اور صوفوں پر براجمان تھے۔ ہمارے سامنے باربیکیو بنانے کا ریک تھا، اس کے ساتھ ہی سٹینڈوں پر سٹیل کے سفید اور چمکیلے مرتبانوں، ڈشوں اور پلیٹوں میں میزوں پر طرح طرح کے کھانے لگے ہوئے تھے۔ یہ گھر کا بیک گارڈن تھا جہاں ہم سب لوگ مختلف موضوعات پر گپ شپ کر رہے تھے۔ دراصل یہ ایک لان نما گارڈن تھا جس کی آخری دیوار کے ساتھ سومنگ پول بھی تھا جس کے پانی میں رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ اس گارڈن کی دیواروں کے ساتھ چھوٹے بڑے قد کے پودے اور درخت بھی تھے اور ان پر بھی روشنیوں کے چراغ جل رہے تھے۔
یہ ایک بڑا دلکش اور پرتخیل قسم کا رومانوی ماحول تھا۔ یہ پانچ بیڈ رومز کا گھر دبئی جمیرا پارک میں واقع ہے۔پاکستان کی شادیوں کی مانند ابھی مہمانوں کی برات کا کھانا نہیں کھلا تھا اور ہم ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو بھی کر رہے تھے اور ساتھ میں سافٹ ڈرنکس بھی لے رہے تھے کہ میرے میزبان نے میری معنی خیز خاموشی کو دیکھ کر کہا کہ آپ بھی کوئی بات کریں۔ حالانکہ اس سے پہلے میں اپنے ساتھ بیٹھے ایک بزرگ مہمان شاہد صاحب سے باتیں کر رہا تھا۔ پارٹی کے میزبان سجاد احمد صاحب جسے ہم "ساج” کہتے ہیں میرے پرانے اور قریبی ترین دوست ہیں۔ سجاد احمد صاحب برٹش پاکستانی ہیں جن کے والدین کا تعلق جہلم سے ہے جو 70 کی دہائی میں انگلینڈ کے شہر بلیک برن میں جا بسے تھے۔ ان سے میرا پہلا تعارف دسمبر 2008ء میں ہوا جب میں نے سمندری کشتیوں Yachts کی خرید و فروخت کی ایک کمپنی بنانے میں ان کی مدد کی تھی۔ ان کی کمپنی کا نام مڈل ایسٹ رویل یاٹنگ Middl East Royal Yachting ہے۔ سجاد احمد صاحب متحدہ عرب امارات میں واحد پاکستانی ہیں جو اس غیر معمولی Exclusive a کاروبار سے وابستہ ہیں۔ چند برس پہلے پاکستان آرمی نے بھی ان کے توسط سے کچھ سمندری کشتیاں خریدی تھیں۔
یہ سمندری کشتیاں جنہیں "یاٹس” کہتے ہیں امراء و روساء کا شوق ہے جن میں دو سے تین یا اس سے زیادہ بیڈ روم ہوتے ہیں، اٹیچ واش رومز ہوتے ہیں، کچن ہوتا ہے اور ڈائینگ ٹیبل وغیرہ بھی ہوتا ہے۔ یاٹس کی چھت پر بیٹھنے کی بہت خوبصورت جگہ ہوتی ہے جسے "ڈیک” کہتے ہیں۔ یہ عام سی کشتیاں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں جن کی قیمت 5لاکھ درہم سے لے کر 40ملین درہم تک بھی ہو سکتی ہے۔ حتی کہ دنیا کی سو فٹ لمبی مہنگی ترین یاٹ کی قیمت 4.8 بلین ڈالر ہے جس کے اندر اور باہر سونا لگا ہوا ہے اور جس کا مالک ملائشیا کا امیر ترین آدمی رابرٹ نوک Robert Knok ہے۔
دس سال قبل ایک مہنگی یاٹ پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری نے بھی خریدی تھی جس کی قیمت اندازا 50ملین درہم بتائی جاتی ہے۔ ان کشتیوں میں امراء عموما شادیاں، کھانے اور ڈرنکس وغیرہ کی پارٹیاں کرتے ہیں۔ ساج صاحب کے ان امراء کسٹومرز میں عربی شیخ، مشہور فٹ بالرز اور کراچی کے کچھ بزنس مین وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بعض یاٹس اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ ان کی خالی خرید و فروخت کا کمیشن ہی لاکھوں درہم میں بنتا ہے۔
میرے سوا پارٹی کے تقریبا سارے مہمان برٹش پاکستانی تھے۔ میں پاکستانی تو ہوں مگر برٹش نہیں ہوں۔ چونکہ میں برطانیہ میں 9سال رہا ہوں تو دبئی میں مقیم برٹش کمیونٹی سے میری اچھی یاد اللہ ہے اور اس دوستی کا ذریعہ بھی ساج صاحب ہی ہیں۔ مجھے ان برٹش پاکستانیوں کی پارٹیوں میں جانے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے۔ وہ عموما جن موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں ان میں مہنگی گاڑیوں، نئے بنگلوں کی خرید و فروخت، کیمپنگ، ڈیزرٹ سفاری اور اچھے کھانوں کے مشہور اور مہنگے ریسٹورنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ جب ساج صاحب نے گفتگو کرنے کے لیئے میری طرف اشارہ کیا تو میں نے تعلیم، اقوام کے عروج و زوال اور مسلم دنیا کے "احیاء” پر بات کرنا شروع کر دی۔ انگریزی زبان میں بات کرنا تو مجھے بھی آتی ہے۔ لیکن برٹش پاکستانی سلینگ انگش میں بات کرتے ہیں۔ اوپر سے ان کا لہجہ بھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی باتیں سنو تو لگتا ہے یہ "کاٹھے” انگریز ہیں۔
ایسی کسی محفل میں مجھے جب بھی موقع ملے میں روحانی ترقی، شعوری اور شخصی ارتقاء کی بات کرتا ہوں جو اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔انسان کا فکری سفر میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ یہ میری ایسی زہنی کیفیت ہے کہ جس سے میں ذاتی طور پر گزرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ انسان کے آگے بڑھنے کا روحانی سفر اس وقت رک جاتا ہے جب اس کی روح مادی زرائع میں الجھ کر یا ان میں اضافہ ہونے سے سکون محسوس کرنے لگتی ہے۔
جب میں نے بات کا آغاز کیا تو سارے دوست اسی طرح کنگ ہو گئے جیسے پہلے میں خاموش بیٹھا ان کی دلچسپی کے موضوعات پر غور کر رہا تھا۔ میں پارٹی میں اچانک بن بلائے مہمان کی طرح ٹپکا تھا کیونکہ مجھے پارٹی میں قبل از وقت نہیں بلایا گیا تھا اور میں کسی کام کے سلسلے میں اتفاقا وہاں گیا تھا۔ وہاں ایسی شمولیت پر قدرے تذبذب تھا جس کا ازالہ ساج صاحب نے یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی ہم آپ کو فون کرنے ہی لگے تھے کہ آپ پہلے ہی ہمارے دفتر پہنچ گئے تھے۔ خیر اس پارٹی میں شمولیت کے لیئے ساج اور بیگم ساج مجھے اپنے دفتر سے خود لینے کے لیئے آئے۔ جب مجھے اپنی مرضی کے موضوع پر بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تو مجھے کافی طمانیت محسوس ہوئی۔ اسی دوران ساج صاحب نے سارے دوستوں کو مسکرا کر میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آپ بھی برداشت کرو، "میں یہ باتیں سولہ سال سے سن رہا ہوں” اسی دوران خواتین کھانے کے میزوں سے کرسیوں اور صوفیوں پر واپس آئیں تو ہم مرد حضرات کو بھی سٹاٹرز، مچھلی، بریانی، مٹن اور چکن وغیرہ پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گئے۔ میں سب مہمانوں سے پہلے گیا تھا اور واپس بھی سب مہمانوں کے بعد آیا۔
یہ آٹھ سالہ عائشہ کی برتھ ڈے پارٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس ہیں اور بچوں کی بجائے میرے ساتھ کھیلنے کو ترجیح دیتی ہیں، میں اکثر دعا کرتا ہوں کہ میری جو باتیں ان کے والد گرامی ساج صاحب کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں، وہ عائشہ سمجھنے لگے تو ہماری آئندہ نسل میں ایک مختلف سوچ رکھنے والے فرد کا اضافہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم و فضل میں سب سے آگے ہوتی ہیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔