ترامیم ڈرامہ
پاکستان کے رائج الوقت جمہوری و پارلیمانی 1973 کے آئین میں کی جانے والی حالیہ ممکنہ ترامیم کے اصل مسودے میں کیا شقیں شامل تھیں، ابھی تک عوام کو اس کی مکمل آگاہی نہیں دی گئی ہے۔ خیر عوام کے لیئے اس میں زیادہ دلچسپی کی کوئی خاص بات بھی نہیں ہے کیونکہ عوام الناس کو ان نام نہاد حکمرانوں نے روٹی اور دال کے ایسے تلخ اور پیچیدہ جال میں پھنسا رکھا ہے کہ انہیں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے ناکہ انہیں سیاہی سے لکھے گئے گنجلک آئین اور اس میں ہونے والی انہونی ترامیم سے کوئی دلچسپی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب بھوکے بچوں کے باپ کو دو انگلیاں دکھا کر پوچھا جائے کہ یہ کیا ہیں تو وہ بے ساختہ کہتا ہے کہ، “یہ دو روٹیاں ہیں۔” پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ملک کی بھوکی ننگی اور کم تعلیم یافتہ عوام کا اپنے ملک کے مجوزہ آئین کو سمجھنا “ہنوز دلی دور است” والی بات ہے۔ ویسے بھی کسی ملک کا پارلیمانی آئین اتنا گنجلک ہوتا ہے کہ عوام کا اسے سمجھنا، “لکھے مُوسا پڑھے خود آ” والی بات ہے۔ لیکن ان ترامیم کے بارے میں جو سننے میں آیا یے، سادہ لوح اور متوسط عوام تو کیا، آئینی فلسفیوں، دانشوروں اور پولیٹیکل و سوشل سائنسز کے طلباء تک کی چیخیں نکل گئیں ہیں۔
آخری اطلاعات آنے تک مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہونے اور وزیراعظم شہباز شریف کے جوڑ توڑ اور نمبرز پورے کرنے میں ناکامی کے بعد آئیں میں ترامیم لانے کا حکومتی منصوبہ غیر معینہ مدت تک کے لیئے کھٹائی کا شکار ہو گیا ہے۔ حکومت اور مقتدرہ یہ ترامیم کروانے میں کافی عجلت کا شکار تھی۔ یہ آئین جسے پارلیمانی نظام کی ماں سمجھا جاتا ہے، کا معاملہ تھا جو بلفرض تعطل کا شکار ہوا ہے تو اچھا ہوا ہے، کیونکہ آئین روز روز بنتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ہر چوتھے اجلاس میں اس کے اندر ترامیم ہوتی ہیں۔ آئین بنانا کوئی خالی جی کا واڈا نہیں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کی مخالفت کی تو یہ بھی خبر سامنے آئی تھی کہ ان کی جماعت کے خلاف ایک جھوٹا کیس فائل کر دیا گیا تھا۔ ایک پولیٹیکل سائنس کے طالب علم حسنات محبوب کے بقول یہ آئینی ترامیم ملک کے آئین سے کھلواڑ سے کم نہیں تھیں۔ آئینی ترامیم کا یہ مسودہ منظر عام پر آنے سے پتہ چلا کہ اس میں مجموعی طور پر 54 ترامیم کی تجاویز شامل تھیں۔ آئین میں ترامیم کی تمام تر حکومتی کوششیں ناکام تو ہو ہی گئیں مگر اس سے حکومتی اتحاد میں بھی بدشگونی پیدا ہوئی۔ اس سے قبل آئیں میں آج تک اتنی بڑی تعداد میں ترامیم کا عدالتی بل اسمبلی میں کبھی پیش نہیں کیا گیا تھا جسے پاس کروانے کی موجودہ حکومت نے ناکام کوشش کی۔ اسی طرح جمہوریت، سیاست اور آئین سے دلچسپی رکھنے والے پاکستان کے تمام طبقات نے ان ترامیم کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔
متجوزہ اہم آئینی ترامیم کے مطابق آرمی چیف اور دیگر سروسز چیفس کی تقرری، دوباری تعیناتی اور برطرفی آرمی ایکٹ کے مطابق ہونا تھی جس میں مزید ترمیم نہیں کی جا سکتی تھی۔
یعنی کہ یہ آرمی ایکٹ ہی کو آئین کی حیثیت دینے کی تجویز تھی اور اس میں ترمیم صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہونا تھی۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینئر ججز میں سے کرے گی۔ پہلا چیف جسٹس صدر پاکستان وزیراعظم کی سفارش جبکہ آئینی عدالت کے پہلے ججز کی تقرری صدر پاکستان چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔ نئی آئینی عدالت کا ہیڈ چیف جسٹس آف پاکستان ہو گا جس کی ریٹائرمنٹ عمر 68 سال ہو گی (جس سے قاضی فیض عیسی کو ایکسٹینشن ملنی تھی)۔ ججوں کے نکالنے کا بھی طریقہ کار آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا جانا تھا یعنی جو جج حکم عدولی کرے گا، اس کو اٹھا کر گھر بھیجنا مقصود تھا۔مجوزہ ترامیم کے مطابق ججز کی تقرری کے لئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی پر آئین کے آرٹیکل 68 کا اطلاق نہیں ہونا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 68 کے مطابق ججز کے کنٹریکٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا تھا یعنی عملا آرٹیکل 68 کو آئین سے نکالنے کی ہی تجویز تھی۔
مزید برآں ان آئینی ترامیم کے ذریعے فورتھ شیڈول میں ترمیم کے ذریعے کنٹونمنٹ ایریاز میں آرمڈ فورسز کو ٹیکسز، ٹولز یا دیگر سروسز کے چارجز لگانے کا بھی اختیار دینے کی تجویز تھی۔ آئینی ترمیمی بل میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی کام جاری رکھ سکتے تھے جب تک کہ ان کی جگہ نئی تعیناتی نہیں ہو جاتی۔ یہی نہیں بلکہ جو شخص پہلے کمشنر یا ممبر رہ چکا ہو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد منظور کروا کر دوبارہ تین سال کے لئے عہدے پر تعینات کیا جا سکتا تھا یعنی یہ لوگ مکمل طور پر حکومت کی خوشنودی کیلئے کام کریں گے۔وفاقی آئینی عدالت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے تنازعات کے کیسز سن سکے گی۔ بنیادی حقوق کے معاملات اور عوامی مفاد سے متعلقہ معاملے پر حتمی فیصلہ بھی دے سکے گی۔ 26وی آئینی ترمیم کے نافذ العمل ہوتے ہی سپریم کورٹ میں پینڈنگ آئینی کیسز وفاقی آئینی عدالت کو ٹرانسفر ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار محدود ہو جائے گا جس کا منشا خیبر پختونخواہ حکومت کو قابو میں کرنا تھا۔
آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی وفاقی آئینی عدالت سب سے سپریم ہو گی اسلئے ملک بھر کی تمام عدالتیں بشمول سپریم کورٹ، حکومتیں اور ادارے وفاقی آئینی عدالت کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے۔
نئی قائم ہونے والی وفاقی آئینی عدالت کے پاس تمام فیصلوں اور آرڈرز پر پارلیمنٹ کے ایکٹ سے مشروط ریویو کا اختیار ہو گا۔وفاقی آئینی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی ریویو کر سکے گی اور اس کا فیصلہ تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی بائنڈنگ ہو گا۔
اس کے علاوہ ان ترامیم میں مقتدرہ کے اختیارات میں توسیع کے کچھ ایسے نکات بھی شامل تھے کہ جنہیں یہاں بیان کرنا بیچاری جمہوریت کی توہین ہے کہ یہ آئینی ترامیم کا ڈرامہ اتنا بھیانک تھا کہ جس کے سامنے بچوں کے لیئے بنائے گئے ڈراؤنے ڈرامے بھی پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت کی رائے ہے کہ ان ترامیم سے نسلوں کو مکمل غلام بنانا مقصود تھا کہ آپ کی نسلوں نے کوریا اور میانمار کو بھی بھول جانا تھا۔ اچھا ہوا کہ یہ ڈرامہ چلنے سے پہلے ہی فلاپ ہو گیا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔