قمر عباس گِل سے بات چیت

قمر عباس گِل صاحب

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، بھکر

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ کے گاؤں شیرگڑھ جہاں صحرا ہی صحرا ہے ، دور دور تک ادب کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا ۔ ایسے ماحول میں ادب تخلیق کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مگر خوبی بہرطور سامنے آ جاتی ہےصحرا دریا پہاڑ اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔قمر عباس گل بھی ایسا ہی لالہ ء صحرائی ہے قمر عباس گل یکم اکتوبر 1983ء کو ریاض حسین گل کے گھر گاؤں شیرگڑھ میں پیدا ہوئے ۔ قمر عباس گل نے بچپن سے لے کر جوانی تک ایک ایک کام محنت اور لگن سے کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ تعلیمی قابلیت ایم فل اردو ہے اور بطور پرائمری اسکول ٹیچر گورنمنٹ ہائی اسکول شیرگڑھ میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں ۔ قمر عباس گل ایک ایسی شخصیت ہے کہ جسے پڑھنے کا شوق تھا لیکن علاقائی پسماندگی ، وسائل اور مناسب رہنمائی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ریگولر اداروں میں تعلیم تو حاصل نہ کرسکے لیکن اپنی محنت ، اور سعی مسلسل کے بل بوتے پر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ صاحب ِکتاب مصنف کا شرف بھی حاصل کیا ۔ یہاں پر مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا ہے ۔

مجھ کو ہے جن پہ ناز مرا فخر مان جو
قابل ہیں محنتی ہیں بھکر مرے کے لوگ

راقم الحروف (مقبول ذکی مقبول)
الحمدللہ ہمارے ضلع بھکر کے ایسے ہی محنتی نوجوان ہیں ۔

قمر عباس گِل سے بات چیت


قمر عباس کی کتاب “درگاہ شاہ نینوا “جولائی 2020ء میں شائع ہوئی ۔ کتاب پر شائع ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی ملک پاکستان کے معروف قلمکاروں نے اپنی آراء تحریری شکل میں دیں اور اس کو ملک بھر سے ادبی تنظیموں سے انعامات بھی وصول ہوئے ۔ 21 نومبر 2021ء کو مشرق سانئس کالج گوجرانولہ تنظیم کار خیر سے گولڈ میڈل ، کیش ، سند اور دیگر انعامات حاصل کئے ہیں ، اسلام آباد ، ننکانہ صاحب اور دیگر شہروں کی ادبی تنظیموں سے بھی ایوارڈز و اسناد وصول کئے ۔چند روز قبل ملاقات کرنے کا موقع ملا ہے جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ کو درگاہِ شاہِ نینوا (سفرنامہ زیارات ایران و عراق )لکھنے کا خیال کیسے ْآیا ۔؟
جواب : ذکی صاحب میں سب سے پہلے آپ کی اس عمدہ کاوش کو داد تحسین پیش کروں گا اور اس کے علاوہ میں آپ کا بےحد شکرگزار بھی ہوں کہ آپ نے بندہ ناچیزکو ان اہل قلم کی صف میں شامل کیاجن کا آپ نے مصاحبہ کیاہو ۔
دراصل میرے(بطور لکھاری) ، سفر کا آغاز ہی اسی تحریر سے ہوتا ہے اور ایم فل مقالہ لکھتے ہوئے میرے اندر لکھنے کا جذبہ جنم لیتا ہےاور یوں اس مقدس سفر کے دوران اس شوق کی تکمیل ہوتی ہے ۔
سوال : سفرنامہ کی روح اور اقسام کیا ہے اسے قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : سفر نامہ قدیم مگر دلچسپ صنفِ ادب ہے کیونکہ جب سفر کیا گیا تو دوسروں تک معلومات پہنچانے کی غرض سے سفر و حضر کی روداد لکھنے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی ۔ سفرنامہ شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں پھرنے کا نام نہیں بلکہ ادبی نقطہ نظر سے کامیاب سفرنامہ وہ ہوتا ہے جس میں مصنف اپنے ذاتی مشاہدات کے ساتھ ساتھ ان تاثرات کو بیان کرتا ہے جو سفر کے دوران میں اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اردو ادب میں مذہبی ، جغرافیائی ، تاریخی ، مزاحیہ ، ادبی ، سیاسی ، اور سوانحی سفرنامے لکھے گئے ۔
سوال : آپ کے سفرنامہ نے بڑی شہرت حاصل کی ہے اس پر کچھ کہیں گے ۔؟
جواب : واقعی بندہ کی اس کاوش کو ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا اس کا کریڈٹ آپ کو بھی جاتا ہے کیونکہ آپ ہی نے قدآور علمی و ادبی شخصیات سے اس تحریر کو متعارف کرایا ۔
سوال : سفرنامہ کی تاریخ بہت قدیم ہے اور ادب میں ایک منفرد مقام ہے اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں ۔؟
جواب : اردو سفر نامے کی روایت کا آغاز یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامے “عجائبات فرنگ” سے ہوتا ہے ۔جس کا دوسرا نام تاریخ ِ یوسفی ہے جو پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا ۔ اس میں مصنف کے ذاتی تاثرات کم اورخارجی دنیا کی تفصیلات زیادہ ہیں ۔ عجائبات فرنگ کے علاوہ جعفر تھانیسری کی تصنیف’ کالا پانی’، محمد حسین آزاد کی ’سیر ایران‘ اور سر سید احمد خاں کی ’مسافران لندن‘ بہت اہم سفر نامے ہیں ۔ جو کئی اعتبار سے اردو سفر نامے کی تاریخ میں بنیادی نام ہیں ۔’مسافران لندن’ کئی اعتبار سے سرسیدکےتاریخی سفر کی روداد ہے جو ان کے شوق ، اضطراب اور بے چینی کا بھی بیان ہے ۔ اردو کے ابتدائی سفر ناموں میں مولانا جعفر تھانیسری کا ’کالا پانی‘ 1862ء میں سامنے آیا ۔ مولانا کو انگریزوں نے کالا پانی کی سزا دی تھی ۔ یہ سفر نامہ اسی کیفیت میں انڈمان کے سفر کی تکالیف اور مشکلات کا بیان ہے ۔
1892ء مولانا شبلی نے پروفیسر آرنلڈ کے ہمراہ قسطنطنیہ کا سفر اختیار کیا اور ترکی ، مصر ، شام کا دورہ کیا ۔ شبلی کا یہ سفر علمی سفر تھا ۔ اپنے سفر نامے ’سفر نامہ مصرو روم و شام‘ میں انھوں نے وہاں کے سیاسی سماجی حالات پر روشنی ڈالی ۔
منشی محبوب عالم کا ‘سفر نامہ یورپ’، خواجہ حسن نظامی کا سفر نامہ مصرو فلسطین ، قاضی عبدالغفار کا ’نقش فرنگ‘ قاضی ولی محمد کا’سفر نامہ اندلس‘ اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان سفرناموں میں دنیا کے عجائبات اور مختلف دلچسپ مشاہدات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ دنیا کے عجائبات کو دیکھنے کے شوق کو بھی بڑھاوا ملتا ہے۔عبدالماجد دریابادی کا ‘سفر حجاز ‘اردو سفر ناموں میں ایک اہم نام ہے ۔ ابن انشاءکا ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘ اور ’دنیا مرے آگے‘ قابل ذکر ہیں ۔ رام لعل نے ’زرد پتوں کی بہار‘ سفر نامہ لکھا اور رام لعل کا یہ سفر نامہ 1980ء میں پاکستان کا سفر ہے جو جذباتی طور پر دلوں کو بے چین کردینے والا سفر نامہ ہے۔
سوال : آپ کو سفرنامہ تخلیق کرتے ہوئے کِن کِن مشکلات کا سامنا رہا ۔؟
جواب : میرے خیال میں سفر کے بنیادی طور پر دوہی مقاصد ہوسکتے ہیں یا تو آپ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوتے ہیں یا پھر کوئی دوسرا مقصد مثلاً سیاحت ، معلومات یا پھر ذاتی کام آپ کو اس جانب راغب کرتا ہے ۔ ذاتی کام اور زیارات کے دوران اس کام کی طرف توجہ دینا تھوڑا مشکل ہوتا ہے ۔ آپ نے اپنی عبادات بھی مکمل کرنا ہوتی ہیں لیکن الحمد للّہ میں نے شروع سے ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرناہے یعنی یہ اچانک سے میرے دل میں خیال نہیں پیدا ہوا ۔ لہٰذا مشکلات کے باوجود عشقِ حسین علیہ السّلام میں یہ روداد کامیابی سے مکمل کی ۔
سوال : آپ کی کتاب سفرنامہ کو مختلف ادبی تنظموں سے ایوارڈز ملے ہیں اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔ ؟
علاوہ ازیں آپ نے کون سی اصناف ِ میں طبع آزمائی کی ۔؟
جواب : بالکل اس میں کوئی شک نہیں کہ میری اس ادنی سی کاوش کو ادبی حلقوں نے توقع سے بڑھ کر پزیرائی بخشی لیکن اس کی وجہ میرے ذاتی کمالات و اوصاف نہیں بلکہ ان ہستیوں کا خصوصی کرم ہےجنہوں نے اس سفر کے لئے میرا انتخاب کیا ۔ اس تحریر کے علاوہ میں نے ادبی کالم بھی لکھے جو مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔
سوال : آج کل آپ کی کیا ادبی مصروفیات ہیں ۔ ؟
جواب : ان دنوں وقت کی قلت ، ملازمت کے مسائل اور کچھ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے دھیان تھوڑا ہٹ گیا ہے لیکن انشاءاللہ ادب سے یہ ناتا قائم رہے گا ۔
سوال : کیا آپ مزید کوئی کتاب چھاپنے کا ارادہ رکھے
ہیں ۔؟
جواب : مقالہ شائع کرنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ تعالیٰ یہ خواب پورا ہوگا ۔
سوال : پہلی کتاب منظر ِ عام پر آنے سے ادبی حلقوں سے کیا پذیرائی ملی ۔ ؟
جواب : یقیناً پہلی تحریر تھی لیکن ادب پرور لوگوں نے بہت حوصلہ افزائی کی ۔
سوال : بھکر کے تھل کی ادبی فضا میں آپ کے علاوہ کس کس نے سفر نامہ لکھا ۔؟
جواب : تھل میں ادب پر بڑا کام ہو رہا ہے ۔ سفرنامہ سے وابستہ شخصیات میں سے چند ایک کے نام مجھے یاد ہیں ان میں پروفیسر نوبہار شاہ ، ریاض حسین انجم ، نجف علی شاہ بخاری ، امیر محمد کیس ، سعید الحسن شاہ ، پروفیسر جاوید عباس جاوید اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال صاحب ان کا ایک سفرنامہ شائع ہوچکا ہے اور 10 سفرنامے شائع ہونے کی راہ دیکھ رہ ہیں ۔
سوال : سفر نامہ لکھنا کیا آسان ہے ۔ ؟
جواب : اگر آپ کے اندر لگن ، شوق اور جذبہ ہے تو کوئی کام بھی مشکل نہیں ۔
سوال : بھکر کے ادبی ماحول میں حوصلہ افزائی و رہ نمائی کے حوالے سے کیا رواج ہے ۔ ؟
جواب : ادب کے حوالے سے میں بھکر کے ادبی حلقوں سے بہت کچھ سیکھا ہے بالخصوص پروفیسر ڈاکٹر قمر عباس صاحب جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں میری بہت رہنمائی کی اور بعد میں آپ سے بھی بہت معاونت ملی ۔
سوال : کیا آپ نے بھکر کی کسی ادبی نشست میں شرکت کی ۔ ؟
جواب : ابھی تک باقاعدہ کسی ادبی نشست میں شرکت کا موقع نہیں ملا
سوال : کیا آپ نثر گوئی میں اتفاقاًاور حادثاتی طور پر آ گئے ۔؟
جواب : میرا جواب نفی میں ہے ۔
سوال : نو آموز نثر کو کیا سبق دینا چاہیں گے ۔ ؟
جواب : اگر آپ زندگی میں کوئی ہدف مقرر کر کے اس کے لوازمات پورے کرتےہیں اور جہد مسلسل آپ کا اوڑھنا بچھونا ہےتو کامیابی یقینی ہے ۔ انشاءاللہ

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش

پیر مارچ 13 , 2023
بھوک کی اذیت دنیا کی تمام مصیبتوں سے بڑھ کر ہے ، بھوک سے مرنے والے کی روح ایک ہی دم قفس عنصری سے پرواز نہیں کرتی بلکہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش

مزید دلچسپ تحریریں