انیل چوہان سے بات چیت

انیل چوہان صاحب

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، بھکر

انٹر ویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

ڈوبنے والے سے ساحل کے مکیں تھے بے خبر
اس کی چیخوں نے ہلا ڈالے مگر کوہسار تک

اس شعر کے خالق انیل چوہان صاحب ہیں ۔ جن کا خاندانی نام رانا انیل چوہان ہے ۔ ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان میں 27 مارچ 1967ء کو رانا محمد انور کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ علمی و ادبی حوالے سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ انیل چوہان صاحب ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان ٹیلیویژن لاہور میں بہت سارے ادبی پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں ۔ 1986ء سے قومی و مقامی اخبارات و رسائل و جرائد میں کلام اور تحریریں شائع ہونا شروع ہو گئی تھی ۔ اردو اور سرائیکی میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ ان کی 2 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ان کے نام درج ذیل ہیں ۔
(1) “اک دے امب” ( سرائیکی افسانوں کا مجموعہ ) 1996ء میں شائع ہوا ہے ۔
(2) “محبت اک نشّہ ہے” ( مجموعہ کلام ) 2010ء میں شاٸع ہوا
مختلف ادبی تنظیموں سے ایوارڈز اور اسناد وغیرہ وصول کر چکے ہیں ۔ خود بھی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے شاعر و ادیب نرم دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ پیار و محبت اور احساس کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ماشاءاللہ ہمارے ضلع بھکر میں ہر خاص و عام درد دل رکھنے والے انسان ہیں ۔ مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا ہے ۔ شعر کچھ اس طرح ہے ۔

ریت کے ٹیلوں کا اثر شاید
نرم دل لوگ میرے بھکر کے

راقم الحروف (مقبول ذکی مقبول)
انیل چوہان صاحب
دوستوں کے دوست ہیں ۔ خلوص و محبت سے ہمیشہ پیش آتے ہیں ۔ ان کی تمام تر توانائیاں آج کل بطور چیف ایڈیٹر روزنامہ” عوام کی عدالت” بھکر کے صرف ہو رہی ہیں ۔ چند روز قبل ملاقات کرنے کا موقع ملا ہے جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔

books


سوال : آپ نے تخلیقی سفر کا آغاز کب اور کیسے کیا ۔؟
جواب : سٹوڈنٹس دور میں بچوں کے رسائل ، بچوں کی دنیا ، بچوں کا باغ ، بچوں کی باجی ، تعلیم وتربیت زیر مطالعہ رہے بعدازاں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ڈائجسٹوں سے ہوتا ہوا ، افسانہ ، شاعری ، ناول کا مطالعہ جاری رہا ، آخر ادب کی طرف میلان ہوا ۔ شاعری غم جاناں سے شروع ہو کر غم دوراں تک آگئی ۔ ادب برائے زندگی نظریہ فن ہے 1986ء سے شاعری کا آغاز ہوا ۔1987ء میں بھکر سے ایک مقامی اخبار شائع ہوتا تھا “نوائے حق” اپنی ایک غزل اخبار کے ایڈیٹر کو شائع ہونے کیلئے دی ، دریاخان سے بھکر آکر اُن سے کئی بار غزل شائع کرنے کی گذارش کی ، مگرانہوں نے شاید نوآموز شاعر ہونے کی وجہ سے شائع نہیں کی ، بھکر آکر نیوزایجنسی سے 3 مختلف وہ اخبارات لئے جن کا دریاخان میں کوئی نمائندہ نہیں تھا اور لاہور اور فیصل آباد اُن کو درخواستیں ارسال کردیں ، بعدازاں روزنامہ ڈیلی بزنس رپورٹ فیصل آباد نے باقاعدہ مجھے نمائندہ بنادیا ، اس طرح صحافت بھی شروع ہوگئی اور میری شاعری ڈیلی بزنس رپورٹ کے صفحات کی زینت بننے لگی ، آج میں سوچتا ہوں اگر اس وقت میری غزل اخبار میں شائع ہوجاتی تو آج میں صحافی نہ ہوتا صرف ایک شاعر ہوتا ، اس دور میں شاعری چھپوانا آسان نہیں ہوتا تھا ۔آج کوئی بھی غیر معیاری غزل بھی کوئی اخبار میں شائع کرانے کیلئے مجھے بھیج دیں تو میں بطور چیف ایڈ یٹر اگلے دن شائع کر دیتا تھا اور آج کل ویسے بھی سوشل میڈیا آجانے سے اپنی تخلیقات قارئین تک پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔ مگر تخلیقات کا پرنٹ ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ،
جب میری شاعری ڈیلی بزنس رپورٹ میں شائع ہونے لگی تو بھکر کے اخبار نے بھی تصویر کے ساتھ وہی غزل شائع کردی ۔ اسی دوران اردو کے ساتھ ساتھ سرائیکی میں بھی لکھنے لگا ،
پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور کے جریدہ”پنجابی ادب لاہور”کا ضلع بھکر نمبر اکتوبر 1989ء میں شائع ہوا جسے میں نے بطور ایڈیٹر مرتب کیا ۔ پنجابی ادب کے ضلع بھکر نمبر میں ضلع بھکر کے اس دور کے تمام سرائیکی تخلیق کاروں کی تخلیقات شامل ہے ۔ 1996ء میں میرا سرائیکی افسانوں مجموعہ”اک دے امب”پاکستان پنجابی ادب بورڈ لاہور نے شائع کیا ۔ یہ ضلع بھکر کی آج تک پہلی اورآخری سرائیکی افسانوں کی کتاب ہے ۔ یعنی چند ایک لوگوں نے ایک دو سرائیکی افسانے لکھے مگر مجموعہ کسی کا شائع نہیں ہوا ،
میری مرتب کردہ نظموں کی کتاب آنسو اور سپنے 1995ء میں فائن آرٹ اینڈ کمپنی کراچی نے شائع کی اور شعری انتخاب جدید شاعری کے نام سے بھی اس ادارے نے شائع کی ، میرا اردو شعری مجموعہ ”محبت اک نشہ ہے”2009ء میں لاہور سے شائع ہوا ، اس دوران میری تخلیقات مختلف مقامی اور قومی اخبارات ، ڈائجسٹوں کے ساتھ ساتھ ادبی جرائد ماہ نو ، سیپ ، اقدار ، آئینہ ، فنون ، سرائیکی ادب ، پنجابی ادب وغیرہ میں شائع ہو تی رہی ۔ انجمن محبان سخن دریاخان کے زیر اہتمام راؤ سخاوت علی خاں مالی پانی پتی صدر ، خاکسار نے بطور جنرل سیکرٹری دریاخان میں اور بزم فکر جدید بھکر کے زیر اہتمام اقبال حسین صدر اور خاکسار جنرل سیکرٹری نے بھکر میں مختلف بڑے مشاعرے اور ادبی تقریبات منعقد کرا ئیں ۔ ایک اور ادبی تنظیم 1987ء میں اقبال حسین اورمیں نے ”صحراب”ادبی فورم کے نام سے بنائی جس کے اقبال حسین صدر اور میں جنرل سیکر ٹری بنے اسی تنظیم کے زیر اہتمام راؤ سخاوت علی خاں مالی پانی پتی کی دوکتابیں ”مہتاب رُتیں” ١٩٩٠ء اور ا اُن کا نعتیہ شعری مجموعہ”سکونِ دل” ١٩٩٢ء ہم نے شائع کیا ۔1987ء میں روزنامہ مشرق لاہور ، 1992ء میں روزنامہ خبریں لاہور بعدازاں روزنامہ ایکسپریس لاہور ، روزنامہ جناح لاہور سے بھی وابستہ رہا ۔ 1998ء میں دریاخان سے ہفت روزہ “عوام کی عدالت “نکالا جسے بعدازاں 2012ء میں روزنامہ کرکے بھکر آکر شائع کرنا شروع کیا جو تاحال باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہا ہے ۔ الحمداللہ ضلع کا مقبول ترین اورکثیرالاشاعت اخبار ہے ۔

انیل چوہان صاحب


سوال : آپ کا طبعی میلان نظم کی طرف زیادہ ہے یا نثر کی طرف ۔؟
جواب : دونوں طرف ہے
سوال آپ کا ذوقِ مطالعہ ۔!
جواب : شاعری ، نثر
سوال : بھکر کی ادبی تاریخ اور ادبی فضا کیسی ہے ۔؟
جواب : بھکر کی ادبی تاریخ شاندار رہی ، بھکر میں رہ کر کئی تخلیق کاروں نے بڑا نام پیدا کیا ۔ جن میں خلیل رامپوری ، عباس خان ، فرحت پروین ، خلش پیراصحابی ، قیصر بارہوی ، شکیب جلالی ، اقبال حسین ، اشرف کمال ودیگر کئی نام شامل ہیں ۔ موجودہ دور میں ضلع کا سب سے بڑا شاعر اقبال حسین ہے جن کے 19 شعری مجموعوں پر مشتمل 3 کلیات شائع ہوچکی ہیں ، اس لئے اپنے اخبار میں قطعات نگاری کیلئے میں نے اقبال حسین کی خدمات حاصل کیں ، جو 2012ء سے باقاعدہ روزنامہ”عوام کی عدالت” کیلئے قطعات لکھ رہے ہیں ۔ حالات ، واقعات کے مطابق قطعات لکھنا نہ آسان ہے اور نہ ہر کسی کا کام ہے ۔اس دوران کئی لوگوں نے رابطہ کرکے مجھے کہا کہ اقبال حسین کی جگہ ہمارے قطعات شائع کریں مگر میں نے انکار کر دیا۔
سوال : بھکر نے اردو ادب کے ساتھ سرائیکی ادب کو کیا دیا ۔؟
جواب : بھکر میں سونا خان بے وس ، نذیرڈھالہ خیلوی ، اقبال حسین ، مشتاق دلیوالہ ، خلش پیراصحابی ، شیخ محمد دین عاصی، انور شاہ انور ، انور کچھی ، عباس واصف ، بشیر لاہوری ، علمدارحسین علمی اور آپ خود مقبول ذکی مقبول نے بہت اچھی شاعری کی ہے یا کر رہے ہیں ۔
سوال : بھکرکا ادبی مستقبل کیاہے ۔؟
جواب ۔ میرے نزدیک بھکر کا ادبی مستقبل بھی پاکستان کے ادبی مستقبل کی طرح تاریک ہے جس طرح سے نئے لوگ شاعری کی طرف آرہے تھے وہ اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں ، لوگ اب خیال ولفظ ، کتاب اورقلم سے بہت دور ہو تے جارہے ہیں ، نئی نسل کوشاعری سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سوشل میڈیا نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے نئی نسل کو دور کردیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ آنیوالے دور میں ادب تاریخ کا حصہ بن کر لائبریری یا عجائب گھروں کی زینت بن جائیگا ، میں سوشل میڈیا کے خلاف نہیں میں خود بھی 24 میں سے 16 گھنٹے سوشل میڈیا کو دیتا ہوں کیونکہ صحافت اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ آپ دیکھیں گے جلد سکولوں ، کالجزسے کاپی پنسل کتب کی جگہ مکمل طور پر لیپ ٹاپ لے لے گا ۔
سوال : بھکر نظم کا ضلع ہے یا نثر کا ۔ ؟
جواب : بلاشبہ پہلے کی طرح آج بھی بھکر نظم کا ضلع ہے ، نثر نگار آج بھی چند ہیں ، میرے نزدیک معیاری نثر لکھنا زیادہ مشکل کام ہے ، 1989ء میں پنجابی ادب کا بھکر نمبر مرتب کیا تو مجھے نمبر کیلئے نظم تو آسانی سے مل گئی مگر نثر کیلئے ضلع کے کونے کونے کی خاک چھاننی پڑی ، اس میں زیادہ ترنثر میری اور اقبال حسین کی ہے ۔
سوال : صحافت میں بھی ادب جیسی فرحت و مسرت محسوس کرتے ہیں ۔؟
جواب : ادب اور صحافت دو الگ الگ آسمانوں کے نام ہیں ادب کا انحصار موڈ پر ہوتا ہے ، لیکن صحافت کا موڈ سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ، اگر آپ صحافی ہیں جیسے ہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے آپ کا موڈ ہے یا نہیں آپ نے لکھنا ہے اور ادارے کو بھیجنا ہے ،
اور یقیناً صحافت میں بھی ادب جیسی فرحت و مسرت محسوس ہوتی ہے ، جب صبح اخبار کا نیا شمارہ شائع ہوکر ہاتھ میں آتا ہے تو میں وہی مسرت محسوس کرتا ہوں جیسے کوئی غزل ، نظم کہہ کر یا شعری مجموعہ شائع ہوکر محسوس کیا جا سکتا ہے میرے خیال میں یہ تمام عشق کے معاملے ہیں جب تک آپ کوئی بھی کام عشق یا جنون کے ساتھ نہیں کریں گے آپ ایک معیاری ادب یا اچھا اخبار نہیں دے سکتے ۔
اخبار شائع کرنے میں میرا جنون شامل ہے میں اکثر دوستوں کو کہتاہوں شاعری کے ساتھ ساتھ اخبار بھی میری محبوبہ ہے ، ادب کی طرح انسان کی صحافت میں بھی کتھارسس ہوجاتی ہے ، شعر و ادب میں آپ
بہترین معاشرہ کی تشکیل کیلئے لوگوں کی ذہنی تربیت کررہے ہوتے ہیں اور صحافت میں آپ عملی طور پر عوامی مسائل کو اعلیٰ حکام تک پہنچا نے اورظالم کے مقابلے میں مظلوم کاساتھ دے رہے ہوتے ہیں ۔
سوال : انیل چوہان صاحب! ایک نظم عطا فرمائیں ۔؟
جواب : جی ہاں

نظم
میرا تھل ہے عشق نگر کا اک متوالا چوک
اس کے ہر ذرے پہ اقصاں پیت نگر کے لوگ
میرے تھل کے سارے پودے دھرتی کے ہم نسل
میرے تھل کے سارے باسی لے جاتے ہیں جوک
میرے تھل کی فصلیں یارو مجھ سے شیخ فرید
میرے تھل کے سارے پھل ہیں باہو جیسے لوگ
میرے تھل کی ریت نرالی رانجھوں کی پہچان
بس یہی اک شخص تھا
جس نے پالے
میرے جیسے پاگل ، وحشی لوگ

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دیہاتی مکان، کنویں اور باڑے

پیر مارچ 6 , 2023
1970 تک پورے گاؤں میں صرف دس بارہ بیٹھکیں تھیں۔ ان کی حیثیت ڈرائنگ روم سے زیادہ مردان خانے/ حجرے کی تھی ۔
دیہاتی مکان، کنویں اور باڑے

مزید دلچسپ تحریریں