نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کا دورۂ کابل
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حالیہ دنوں میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ پاکستان، سینیٹر اسحٰق ڈار کا دورہ نہ صرف دو طرفہ سفارتی تعلقات کی بحالی کی ایک اہم کڑی ثابت ہوا بلکہ اس نے خطے میں ایک نئے علاقائی اور اقتصادی تعاون کے باب کی بنیاد بھی رکھ دی۔ اس دورے میں اسحٰق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند، وزیر خارجہ امیر خان متقی اور قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقاتیں کیں، جن میں تجارت، سلامتی، سرحدی تعاون، ٹرانزٹ اور علاقائی رابطہ کاری جیسے کلیدی موضوعات پر بات چیت کی گئی۔
پاک افغان تعلقات تاریخی طور پر کئی اتار چڑھاؤ سے گزر چکے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی سے یہ تعلقات مختلف وجوہات کی بنا پر پیچیدگی کا شکار رہے۔ تاہم، اقتصادیات، جغرافیائی قربت، مشترکہ مذہبی و ثقافتی اقدار اور افغان عوام کی ضروریات نے دونوں ممالک کو بارہا ایک دوسرے کے قریب لایا۔ سابقہ سوویت حملہ ہو یا امریکہ کی زیرِ قیادت جنگ، پاکستان ہمیشہ افغان قوم کا پُرجوش مددگار رہا۔ اب جبکہ افغانستان ایک عبوری حکومت کے تحت استحکام کی طرف گامزن ہے، پاکستان کی جانب سے اس اہم دورے نے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کی جانب سے افغان قیادت کے ساتھ سکیورٹی اور امن کے معاملات پر گفتگو اس امر کی عکاس ہے کہ پاکستان افغانستان کو محض ایک ہمسایہ نہیں بلکہ ایک قابلِ اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔ سراج الدین حقانی جیسے اہم شخصیت سے ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان خطے میں دیرپا امن کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ فعال و براہ راست مکالمہ چاہتا ہے۔ اس ملاقات میں دہشت گردی، سرحدی خلاف ورزیوں، اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے اہم موضوعات پر بات ہوئی اور خطے کے خطرات کے خاتمے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
دورے کا سب سے اہم اور انقلابی پہلو ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے کوریڈور (UAP Railway Corridor) سے متعلق مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے فریم ورک معاہدے پر دستخط ہے۔ نائب آباد تا خرلاچی ریلوے لنک نہ صرف پاکستان کو وسطی ایشیا سے جوڑے گا بلکہ افغانستان کی داخلی معیشت کو بھی متحرک کرے گا۔ اس منصوبے کی قیادت سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں اسحٰق ڈار کے ہاتھ میں دی گئی تھی اور اس کا عملی جامہ اب اس دورے میں مکمل ہوا۔
چترال کی سرحد متعدد مقامات پر افغانستان سے جاملتی ہے، خصوصاً لوئر چترال کے ارندو اور اپر چترال کے علاقوں تورکھو، زیوار گول اور اجنو گول میں کے مقامات افغانستان کے کافی قریب ہیں اور ریاست کے دور میں ان جگہوں سے افغانستان اور ریاست چترال کے درمیان تجارت ہوتی تھی۔ ان مقامات سے افغانستان کی سرحد نہ صرف زمینی فاصلہ کے اعتبار سے انتہائی قریب ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی یہ علاقے ریلوے ٹریک بچھانے کے لیے موزوں ترین گزرگاہیں فراہم کرتے ہیں۔ ان راستوں سے ریلوے لائن بچھانے کی صورت میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت و ترسیل کے نئے دروازے کھلیں گے بلکہ خطے میں روزگار، سیاحت اور علاقائی ترقی کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان فوری طور پر ان راستوں کا تفصیلی سروے کرائے تاکہ چترال سے افغانستان کی جانب ریلوے ٹریک بچھانے کا عمل جلد از جلد ممکن بنایا جا سکے۔ اس منصوبے پر لاگت بھی نسبتاً کم آئے گی اور یہ خطے کے لیے ایک تاریخی پیش رفت ثابت ہو گا، ان شاء اللہ۔
یہ معاہدہ نہ صرف تین برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کا مظہر ہے بلکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تناظر میں بھی جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے ایک متبادل تجارتی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے۔ ازبکستان، جو زمینی طور پر محصور ملک ہے، اس منصوبے کی بدولت کراچی، گوادر اور بن قاسم کی بندرگاہوں سے جُڑ سکے گا، جو اس کی تجارتی ترجیحات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کرے گا۔
کابل میں ازبک، افغان اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی سہ فریقی ملاقات میں باہمی عزم، تجارتی تعلقات اور علاقائی ترقی کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا گیا۔ تینوں ممالک نے اس امر پر زور دیا کہ خطے کی اقتصادی صلاحیت کو بروئے کار لانے اور اپنے عوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے دیرپا تعاون ناگزیر ہے۔
یہ سہ فریقی میکانزم، مستقبل میں ایک مضبوط علاقائی بلاک کی بنیاد بن سکتا ہے جو نہ صرف باہمی اقتصادی ترقی بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک متوازن قوت بنے گا۔
اسحٰق ڈار کا دورہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان اب صرف مغربی بلاک یا مشرقی شراکت داروں تک محدود خارجہ پالیسی کا حامی نہیں رہا، بلکہ وہ ایک فعال علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جو مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کی بندرگاہیں، اس کا جغرافیائی محلِ وقوع اور اس کی سیاسی قیادت کا وژن اب اس سمت میں گامزن ہے جہاں تجارت، رابطہ کاری، اور مشترکہ ترقی بنیادی ستون بنیں گے۔
اسحٰق ڈار کا دورہ کابل صرف ایک رسمی سفارتی ملاقات نہیں تھا بلکہ یہ خطے کے مستقبل کے لیے ایک تزویراتی سنگِ میل ہے۔ اس نے پاک افغان تعلقات میں نئی روح پھونکی ہے، اور ازبکستان کو ساتھ ملا کر ایک وسیع اقتصادی وژن پیش کیا ہے۔ یو اے پی ریلوے منصوبہ ایک علامتی اور عملی قدم ہے جس سے خطے میں نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ معاشی انحصاری کے ذریعے امن و استحکام کو فروغ بھی حاصل ہوگا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہ تازہ اقدام اس امر کی دلیل ہے کہ اب اسلام آباد سفارتی بیانیے سے آگے بڑھ کر عملی علاقائی شراکت داری کی طرف گامزن ہے، جس کا محور امن، تجارت، رابطہ کاری اور مشترکہ خوشحالی ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |