گجرات پام ٹری کالجیٹ سکینڈل
کنیڈا میں مقیم پاکستانی پروفیسر رضوان خالد چوھدری سے پرانی یاد اللہ ہے۔ چند سال قبل تک ہم میسنجر اور وٹس ایپ پر باقاعدہ رابطے میں تھے، جب وہ گجرات میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ لانچ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ انہی دنوں انہوں نے میری ایک کتاب "خدا کی سائنسی پہچان” کو شائع کرنے کے لیئے 50 ہزار روپے بھیجنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ مجھ سے ان کا نمبر مس پلیس ہونے کی وجہ سے ہمارا رابطہ کٹ گیا، اور میں بھی ان کے فیس بک کی تحریریں پڑھنے تک محدود ہو گیا۔ اس کو حسن اتفاق کہا جائے کہ تب میں ان سے میسنجر پر بھی رابطہ نہ کر سکا کہ ان سے رابطہ نمبر دوبارہ مانگ لیتا۔
البتہ ان کی فیس بک پر شائع ہونے والی تحریروں کے ذریعے پتہ چلتا رہا کہ انہوں نے گجرات میں "پام ٹری” تعلیمی ادارے کی واقعی بنیاد رکھ دی، ایک بلڈنگ بھی بن گئی، ہاسٹل بھی بن گیا، اور جہاں طلباء و طالبات کو مفت دینی اور سائنسی تعلیم بھی دی جانے لگی۔ پھر ایک وہ وقت آیا کہ انہی کی تحریروں سے یہ پتہ چلا کہ ان کے اس تعلیمی پروگرام میں کچھ گروپس کی طرف سے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مکرمی رضوان خالد چوھدری صاحب کے خلاف کچھ جھوٹے (اور خطرناک) مقدمات درج ہوئے اور کچھ طلباء اور والدین کی طرف سے ادارے کے خلاف شکایات بھی آنے لگیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف رضوان خالد چوھدری صاحب اور ان کا حامی گروپ ہے اور دوسری طرف اس کے مخالفین ہیں جن کی واضح شکایات سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ اگرچہ میری رضوان خالد چوھدری صاحب سے کبھی روبرو ملاقات نہیں ہوئی مگر بلاواسطہ طور پر میں ان کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں۔ بلکہ ہم دونوں کے درمیان سوشل میڈیا کے کچھ مشترکہ دوست بھی ہیں جن کی طرف سے رضوان خالد چوھدری صاحب کے بارے کچھ نئے اور حیرت انگیز انکشافات آنا شروع ہو گئے ہیں جن میں امریکہ سے بشری سلمان، متحدہ عرب امارات سے قاری محمد حنیف ڈار اور پاکستان سے ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب وغیرہ سرفہرست ہیں۔ شائد میں اس متنازعہ موضوع پر ہرگز نہ لکھتا مگر چونکہ میں ایک عرصہ سے یہ دو طرفہ تماشہ دیکھنے کا عینی شاہد ہوں تو ضروری سمجھا کہ اپنے تئیں میں قارئین کو حقائق سے آگاہ کر دوں۔
امریکہ سے محترمہ بشری سلمان نے تو اپنی ایک تحریر میں رضوان خالد صاحب کے خلاف سریع الزامات لگائے ہیں جن میں وہ کہتی ہیں کہ رضوان خالد صاحب نے انہیں بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا، وہ مفت طلباء کو آن لائن کلاسیں دیتی رہیں، کالجیٹ بلڈنگ کی تعمیر میں ناقابل واپسی مالی مدد بھی کی اور قرض حسنہ بھی دیا جو اب وہ واپس نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ انہیں بلاک کر چکے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ 2021 اور 2022 میں امریکہ سے آ کر ادارے کا وزٹ کیا تو انہوں نے وہاں بہت زیادہ "بدنظمی” دیکھی۔ یہاں ان کا موقف یہ ہے کہ خالد چوھدری صاحب وہاں موجود سٹاف اور میل و فی میل طلباء کو "کینیڈا ایکسچینج پروگرام” کے زریعے کنیڈا لے جانے کا جھانسا دے کر ان کا استعصال کر رہے ہیں۔ اس جگہ قاری محمد حنیف ڈار صاحب جو پہلے پہل خالد چوھدری صاحب کے معاون کار تھے، ایک کمنٹ میں لکھتے ہیں، "وہ جلد انجام کو پہنچیں گے۔” جبکہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب پام ٹری قضیہ کے بارے لکھتے ہیں، "میں ہمیشہ سے دینی اور دنیوی تعلیم کے امتزاج کا حامی رہا ہوں اور مقدور بھر کوشاں بھی. یہ پروگرام جب سامنے آیا تو بہت اچھا لگا. شروع میں ایک بچہ بھیجا تھا لیکن تعلیمی، انتظامی اور ماحولیاتی نظام حسب توقع نہ ہونے کے باعث اسے واپس بلا لیا تاہم یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ سارے امور درست کر لیں گے ابھی ابتدائی مراحل ہیں. مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہ کارپوریشن ہے اور کچھ لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے. میرے خیال میں یہ فیس یا ڈونیشنز پر مبنی ادارہ تھا. اگرچہ میرے پاس ان کے خلاف پہلے کوئی ثبوت تھا نہ اب ہے تاہم اپنے طویل تعلیمی اور انتظامی تجربے کی بنا پر میں نے مارچ 2023 میں انہیں ایک خط لکھا جس میں کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہمہ وجوہ الگ کر لیا تھا، البتہ اگر کوئی آپ سے رابطہ کرے تو علیک سلیک نہ کرنا بد اخلاقی ہے۔”
میں خالد رضوان چوھدری صاحب کی تحریریں آج بھی بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ جہاں تک میں انہیں جان سکا ہوں وہ ایک نامور مسلم محقق اور سکالر ہیں اور "خدمت خلق” کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کی تقریبا ہر تحریر میں قرآن پاک کی آیات کا حوالہ ہوتا ہے۔ وہ اسلام کو جدید زبان میں سمجھنے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آغاز میں جب شکایت کنندہ محترمہ بشری سلمان پوڈکاسٹ کیا کرتی تھی تو اس میں کبھی کبھار میرا تبصرہ بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ لیکن سچی بات ہے جب سے ان کے خلاف شکایت کا یہ پلندہ سامنے آیا تو بہت زیادہ افسوس ہوا ہے۔ کیا پاکستان میں جدید تعلیم کے ساتھ اسلامی عقائد اور تعلیمات کو ساتھ لے کر چلنے کا یہی مستقبل ہے؟
خاص طور پر علمی دنیا کے خاصان کے علاوہ یہ بیانیہ جاری کرنے کی اس لیئے بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ میرے کچھ سوشل میڈیا دوست پام ٹری پراجیکٹ سے براہ راست وابستہ ہیں، کچھ وہاں ٹیچرز ہیں، کچھ طلباء ہیں اور کچھ نے انوسٹمنٹ کر رکھی ہے، جو مجھ سے بھی خالد چوھدری صاحب کے بارے مشورہ لیتے رہے ہیں۔ اس ادارے پر شروع سے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ یہ اتنا سارا بجٹ کہاں سے آ رہا ہے، اور اس ادارے کے بانی و سربراہ خالد رضوان چوہدری صاحب خود کو نمایاں (سیاسی طور پر) کیوں کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں؟
اس ادارے سے وابستہ افراد کو احتیاط کی ضرورت تو ہے ہی، مگر اب طلباء اور والدین کو بھی چھان بھٹک کی سخت ضرورت پیش آن پڑی ہے۔ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ہر میدان میں مسائل تو ہیں ہی، مگر جب اچھے اور نیک کاموں کو بھی "متنازعہ” بنایا جاتا ہے تو اس کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ جب تعلیم ہی متنازعہ ہو جائے تو علم کا فروغ مشکوک ہو جاتا ہے۔ ہم نجانے حقیقت اور تشکیک پسندی میں فرق کرنا کب سمجھیں گے؟ جو بھی ہو ہمیں تعلیم کے فروغ سے پیچھے نہیں ہٹنا چایئے!
Title Image by Zdeněk Tobiáš from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |