جنگ اور مسلمان خواتین کا کردار
سدرہ منور
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت کیا اور اہل مکہ کو دعوت توحید دی تب سے لے کے آج تک دشمنان اسلام اہل ایمان سے ٹکراتے رہیں ہیں۔ اور یہ ٹکراؤ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ کبھی بھی حق اور باطل ایک نہیں ہو سکتے اسلام حق ہے اور حق کے پیروکار کبھی بھی باطل کے سامنے نہیں جھک سکتے۔اسلام کبھی بھی جنگ کا اور خون ریزی کا حامی نہیں ہے۔ مگر اپنے دفاع اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کا حکم دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والسلام نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ….
لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھو۔
بلکہ اللہ تعالی سے امان اور عافیت کی دعا کیا کرو۔
البتہ جب دشمن سے مد بھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر اور استقامت کا ثبوت دو۔
یاد رکھو کے جنت تلواروں کے سائے تلے ہے،
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والسلام نے یوں دعا کی۔
«اَللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ مُجْرِيَ السَّحَابِ، هَازِمَ الْأَحْزَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ، وَزَلْزِلْهُمْ».
’’اے اللہ! اے کتاب نازل فرمانے والے، جلد حساب لینے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور لشکروں کو شکست دینے والے! اے اللہ! انہیں شکست دے اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔‘‘
صحیح بخاری 2966۔
اسلامی تاریخ میں جس طرح سے مردوں نے بہادری جرات اور جواں مردی کی تاریخ رقم کی اسی طرح سے خواتین نے بھی تاریخ کی اوراق میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوایا غزوات هو یا جنگیں مردوں کے شانہ بشانہ شرکت کی ۔
جہاد میں خواتین بھی برابر مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ غزوہ احد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے ہاتھوں سے مشک بھر بھر کر زخمی سپاہیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ ان کے ساتھ دو اور صحابیات حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہ اور ام سلیط رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس خدمت میں شریک تھی ۔جنگ کے دوران صحابیات زخمیوں کو پانی پلاتی فوج کے کھانے کا انتظام کرتی شہدا کی قبریں کھود تی زخمی سپاہیوں کو میدان جنگ سے اٹھا کر لاتی اور زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹی کرتی ضرورت کے وقت فوج کو ہمت دلانا ان کی مدد کرنا اور میدان جنگ میں خود نکل جانا ان تمام بہادر خواتین کے ذمے تھا ۔
آج ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کو پڑھنے کی ضرورت ہے اور اپنے بچوں کو یہ واقعات سنانے کی ضرورت ہے۔
یہ ان چند غیر مسلم خواتین کے نام ہیں جنہوں نے جنگ میں خدمات سر انجام دی جن کے بارے میں یورپی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ بچوں کو بتایا جاتا ہے اور ان کے کارناموں کو سراہا جاتا ہے ۔
- *جون آف آرک (فرانس)
- *فلورنس نائٹنگیل (برطانیہ
- *نور عنایت خان (برطانیہ):
- *لیوڈمیلا پاولچینکو (یوکرین/سوویت یونین)
- *بوبولینا (یونان)
- *ایڈتھ کیول (برطانیہ):
اس کے مقابلے میں اسلامی تاریخ میں اس قسم کے سینکڑوں واقعات اور سینکڑوں نام ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے کان ان سے آشنا نہیں ہے۔ ان بہادر اور عظیم خواتین کے کارناموں سے آشنائی ضروری ہے ۔تاریخ کے اوراق سے چنے چند سنہری واقعات حوالہ قلم کروں گی ۔
غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ یہودیوں سے لڑ رہے تھے کہ بنو قریظہ لڑتے لڑتے اس مقام کے قریب پہنچ کے جہاں مسلمان عورتیں اور بچے چھپے ہوئے تھے۔ اسی اثنا میں ایک یہودی ان عورتوں کی طرف نکل آیا خوف یہ تھا کہ اگر یہ یہودی بنو قریظہ سے کہہ آیا کہ ادھر عورتیں ہیں تو میدان خالی پا کر وہ عورتوں پر حملہ کریں گے ۔حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی تھیں خیمے کا ایک ستون اکھاڑ کر خود میدان میں اتری اور اس یہودی کو اسی ستون سے مار کر وہی گرا دیا مورخ ابن اثیرجزری نے لکھا ہے یہ پہلی بہادری تھی جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا کے زمانے میں مسلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعوی کیا اور مقام یمامہ میں ایک خون ریز لڑائی کے بعد مسلمہ کذاب مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس جنگ میں جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہورہوئی ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شریک تھی اور جب تک ان کا ہاتھ زخمی نہ ہوا دشمنوں سے لڑتی رہی اس دن ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہ کو 12 زخم آئے۔
جنگ یرموک کے موقع پر جب مسلمانوں کے قدم اکھڑنے لگے رومی فوج عورتوں کے خیموں کے قریب پہنچ گئی مسلمان خواتین انتہائی جوش کے ساتھ فور خیموں سے باہر نکل آئی اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کا سیلاب جو نہایت سرعت سے آگے بڑھ رہا تھا دفعتا تھم کر پیچھے ہٹ گیا اب خواتین نے مسلمان فوج کی ہمت پڑھائی فوج کی پشت پر آ کر مسلمانوں میں جوش پیدا کرنے لگی عورتوں کی ان کوششوں کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے اُکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے قریش کی عورتیں تلوار گھسیٹ گھسیٹ کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑی اور حملہ کرتے ہوئے مردوں سے آگے نکل گئی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا نہایت دلیری سے لڑ کر زخمی ہوئی ۔ ضرار بن ازور کی بہن خولہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ شعر پڑھ کر مسلمانوں کو غیرت دلاتی تھں۔
پاک دامن عورتوں کو چھوڑ کر بھاگنے والو تم موت اور تیر کے نشانہ نہ بنو
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کی پھپھو زاد بہن اسماء بنت یزید نے تنہا نو رومیوں کو مار ڈالا ۔
جنگ قادسیہ میں عرب کی مشہور شاعرہ خنسہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شریک تھی خنسہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ان کے چاروں بیٹے بھی شریک تھے۔ شب کےابتدائی حصے میں جب ہر سپاہی صبح کے ہولناک مناظر پر غور کر رہا تھا آتش بیاں شاعرہ نے اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلانا شروع کیا ۔
ترجمہ
پیارے بیٹو; تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے اور تم نے ہجرت کی اللہ واحد لا شریک کی قسم ہے کہ تم جس طرح ایک ماں کے بیٹے ہواسی طرح ایک باپ کے بھی بیٹے ہو میں نے تمہارے باپ سے بد نیتی نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو ذلیل کیا ۔اور نہ تمہارے حسب و نسب میں داغ لگایا ۔ جو ثواب عظیم اللہ تعالی نے کافروں سے لڑنے میں مسلمانوں کے لیے رکھا ہے تم اس کو خود جانتے ہو۔ خوب سمجھ لو کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس دار فانی سے بہتر ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے مسلمانوں! صبر کرو اور استقلال سے کام لو اللہ تعالی سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو ؛ کل جب خیریت سے تم ان شاءاللہ صبح کرو تو تجربہ کاری کے ساتھ اور اللہ تعالی سے نصرت کی دعا مانگتے ہوئے دشمنوں پر جھپٹ پڑنا ۔اور جب دیکھنا کہ لڑائی زوروں پر ہے اور ہر طرف اس کے شعلے بھڑک رہے ہیں کہ تم خاص آتش دان جنگ کی طرف رخ کرنا ۔اور جب دیکھنا کہ فوج غصے سے آگ ہو رہی ہے تو تم غنیم کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا اللہ تعالی کرے کہ تم دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں عزت پاؤ ۔
صبح کو جنگ چھڑتے ہی خنساء رضی اللہ تعالی عنہ کا چاروں بیٹے ایک ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑے اور آخر کار بڑی بہادری سے لڑ کر چاروں شہید ہوئے خنساء رضی اللہ تعالی عنہ کو جب خبر پہنچی تو انہوں نے کہا اس اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے بیٹوں کی شہادت کا مجھے شرف بخشا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ 800 دینار حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کے چاروں بیٹیوں کی تنخواہ دیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب بنو امیہ کے مقابل حجاز میں اپنی خلافت قائم کی اور حجاج بن یوسف نے ان پر بڑے سر و سامان سے فوج کشی کی تو ان کے ساتھیوں نے ان سے علیحدہ ہونا شروع کر دیا ۔صرف چند مخلص ساتھیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ان کے ساتھ رہ گئی ۔اس وقت حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہا گھبرا کر اپنی ماں سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور اجازت طلب کی کہ; اگر مناسب ہو تو میں حجاج سے صلح کر لوں ؛ بہادر ماں نے جواب دیا،،
فرزند من ! اگر تم باطل پر ہو تو آج سے بہت پہلے تم کو صلح کر لینی چاہیے تھی۔ اور اگر حق پر ہو تو ساتھیوں کی کمی سے پریشان نہ ہو حق کی رفاقت خود کیا کم نصرت ہے ؛ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ماں کے پاس سے واپس آئے اور تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر ماں سے اجازت طلب کی ماں نے سینے سے لگایا تو جسم بہت سخت نظر آیا پوچھا کیا واقعہ ہے فرمایا میں نے دوہری زرہ پہن لی ہے ۔حضرت اسما رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یہ شہدائے حق کا شیوہ نہیں ،،ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے زرہ اتار ڈالی پھر کہا مجھے ڈر ہے کہ دشمن میری لاش کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دے ؛فرمایا بیٹا جب بکری ذبح ہو جاتی ہے تو اس کو کھال کھینچنے کی تکلیف نہیں ہوتی ۔ااور اس طرح ماں نے بیٹے کو مقتل میں بھیجا اور حق و صداقت کی قربان گاہ پر اپنے جگر کے ٹکڑے کو نثار کر دیا ۔
حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حجاج نے ان کی لاش کو سر راہ سولی پر لٹکا دیا کچھ دنوں کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ کا جب ادھر سے گزر ہوا تو بیٹے کی لاش سولی پر لٹکی نظر آئی کون ایسی ماں ہوگی جو اس بھیانک منظر سے تڑپ نہ جائے لیکن وہ نہایت بے پرواہی کے ساتھ ادھر سے گزر گئی اور لٹکی لاش کی طرف اشارہ کر کے یہ بلیغ فقرہ کہا ۔۔کیا اب تک یہ سوار اپنے گھوڑے سے اترا نہیں ۔اس شجاعت اخلاقی جرات اور بے مثال صبر و استقلال کا نمونہ کہاں نظر آ سکتا ہے ۔ان تمام واقعات سے خواتین کا دینی ولولہ قومی ہمدردی غیرت اور بہادری کا جو جذبہ نظر آتا ہے وہ آج کے دور میں ناپید ہے ۔قائرین سے رخصت ہوتے ہوئے اس منظر کو ان کے سامنے کرنا چاہوں گی جب غرناطہ کا آخری سلطان ابو عبداللہ اپنے آخری قلعے کی کنجیاں عیسائی فاتحین کے سپرد کر رہا تھا اور اپنی تھوڑی سی جماعت کے ساتھ اس سرزمین پر جہاں مسلمانوں نے 800 برس حکومت کی آخری نظر ڈالتے ہوئے آنسوؤں اس کی دونوں آنکھوں سے رواں تھے ۔اس وقت سلطان کی والدہ عائشہ آگے بڑھ کر کہتی ہیں کہ ،،بیٹا جس سلطنت کو تم مرد بن کر نہ بچا سکے اب اس کے لیے عورتوں کی طرح مت رو اس ایک جملے میں استقلال اور جرات کی کتنی روح ملتی ہے یہ گزشتہ بہادر مسلمان خواتین کی کارناموں کا ایک دھندلا سا خاکہ تھا ۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ خواتین اسلام
آئندہ کی تاریخ اسلام کے لیے کیا کارنامہ دنیا میں چھوڑ جانا چاہتی ہیں ؟؟؟؟

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |