سنگت اور سنگیت اور مرتی ہوئی کلاسیکی موسیقی
زندگی کی ساری خواہشیں اور خواب پورے ہونے کے لیئے نہیں ہوتے، کیونکہ ان میں سے کچھ کو اپنے اندر زندہ رکھنا جذبوں کو جلا بخشتا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے پر مجبور ہوا اور مطالعہ کے دوران شدت سے احساس ہوا کہ خوشگوار اور مسرت بھری زندگی میں ادھوری خواہشات کو قائم رکھنا کتنا ضروری ہے۔ یہ مختصر کتاب "سنگت اور سنگیت” جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، موسیقی اور سرتال کی آپ بیتی ہے جسے پڑھتے ہوئے فیض احمد فیض کی ایک غزل کے یہ اشعار بے ساختہ زبان پر گنگنانے لگے کہ:
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام،
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔
دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر،
گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام۔
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں،
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام!
یہ کتاب مصنفہ محترمہ بصیرت رئیس کی خودنوشت ہے جو انہوں نے میوزک، شاعری اور ستار بجانے کا فن سیکھنے کے پس منظر میں لکھی ہے، جس میں کائنات کی ترتیب، نظم و ضبط اور موسیقیت انسان کی عملی زندگی سے ہمکنار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یوں تو دیکھنے اور پڑھنے کو یہ81صفحات پر مبنی ایک مکمل کتاب ہے مگر یہ شائد پہلی کتاب ہے جو صرف "سر سے بہار سر سے سنسار” اور "پیش لفظ” کے دو عنوانات پر مشتمل ہے جس میں ابواب ہیں، کسی پبلشر کا نام اور پتہ درج ہے اور نہ ہی اس کتاب میں فہرست مضامین وغیرہ شامل ہے۔ یہاں تک کہ کتاب میں مصنفہ کے حقوق کا بھی ذکر نہیں ہے۔اس کتاب کے ایک ابتدائی صفحہ پر مصنفہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نام اور تاریخ درج ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کو دسمبر 2024ء میں شائع کیا گیا۔ مصنفہ بصیرت رئیس کی عمر لگ بھگ 80سال ہو گی جس کا اندازہ اس کتاب کے بیک ٹائیٹل پر ان کی شائع شدہ تصویر سے ہوتا ہے۔
کتاب ھذا میں شامل پہلی نظمی غزل میں کتاب کا مدعی اور مفہوم بیان کیا گیا ہے جس میں شامل نمونے کے ان چند اشعار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب معرفت الہی اور آفاقی حکمت و دانش میں ڈوب کر لکھی گئی ہے:
ساز خاموش سہی پر بے آواز نہیں،
سر عبادت ہے عبادت کا جواز نہیں۔
سر ہے نوا جو پنہاں ہے نگاہوں سے،
سر ہے ہوا جو رقصاں ہے اداؤں سے۔
سر ہے مے اور جام روح کا ساقی بھی،
قائم، مدھم، پنجم، اور آفاقی بھی۔
بجتی اسی کے کان میں ہے نے اس کی،
سدا مست رکھتی ہے جس کو مے اس کی۔
یکسوئی آغوش ہے اور لے سر کا جھولا ہے،
کیا کبھی سر کا عاشق خالق کو بھولا ہے۔
ہے مطابقت سر کی جلوہ خداوندی سے،
گر چاہیں اسے عاجزی و دردمندی سے!
بقیہ پوری کتاب صرف پیش لفظ پر مشتمل ہے جس کے آغاز میں مختار صدیقی کا یہ شعر شامل ہے جس سے مثالی اخلاقیات اور کردار کے اعلی نمونہ کو قائم کرنے کا درس ملتا ہے، "فقط دروں نے ہم کو بجھایا خاص بنو اور عام رہو، محفل محفل صحبت رکھو دنیا میں گمنام رہو۔” اسی طرح کتاب کے پہلے پیراگراف میں ہی ادراک ذات کے بارے گفتگو ملتی ہے جو آگے چل کر جگہ جگہ زندگی کے اخلاقی معیار کو قائم رکھنے کا درس دیتی ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران احساس ہوتا ہے کہ خود مصنفہ کی عملی زندگی میں درویشانہ رنگ بھرا ہوا ہے جن کو بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ شاعری پسند ہے جس کا وہ کئی جگہوں پر ذکر بھی کرتی ہیں۔ ایک جگہ موصوفہ رقمطراز ہیں کہ انہوں نے شاعری گانے کے لیئے نہیں کی، ضمیر جگانے کے لیئے کی۔ کتاب کے صفحہ نمبر 28 پر للت، پوریا دھنا سری، درباری، ایمن، کھماچ، راگ ساگر اور بھیرویں وغیرہ کی تفصیل درج ہے۔ یہ ان راگوں کا تعارف بھی ہے جو مصنفہ نے پاکستان کے مشہور موسیقار اے حمید سے سیکھے۔ مصنفہ کے استاد خیال کی گائیکی کرتے تھے جنہوں نے پاکستان میں اردو اور پنجابی کلاسیکی موسیقی کو بام عروج تک پہنچایا جن کے ترتیب کردہ دھنوں کے چند مقبول فلمی گیتوں میں، ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے (سہیلی)، کیا ہوا دل پہ ستم تم نہ سمجھو گے بلم (رات کے راہی)، بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی (شریک حیات) اور زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا (جواب دو) وغیرہ شامل ہیں۔
مصنفہ کی اپنے استاد اے حمید سے عقیدت و احترام کمال حد کو پہنچا ہوا ہے جن کا انہوں نے کتاب میں جابجا ذکر کیا ہے۔ اے حمید (مرحوم) موسیقی کا ایک درخشندہ ستارہ تھے جن کی ترتیب دی ہوئی خوبصورت اور لافانی دھنیں آنے والے زمانوں تک شائقین موسیقی کے کانوں میں رس گھولتی رہیں گی۔ اے حمید ایک کامیاب کمپوزر تھے بلکہ خود بھی بہت اچھا گاتے تھے۔ موصوف پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی میوزک اکیڈمی سے بھی وابستہ رہے۔ اس دوران بہت سے نوجوان طلباء و طالبات نے ان سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی جن میں مغربی ممالک اور جاپان کی طالبات بھی شامل تھیں۔ جاپانی لڑکیوں کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جاپانی حکومت کی طرف سے ان طالبات کو اکٹھا رہنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ وہ آپس میں جاپانی زبان میں بات نہ کر سکیں اور وہاں رہ کر اردو زبان کو دیکھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین چار ماہ بعد یہ جاپانی لڑکیاں اردو میں روانی کے ساتھ بات کرنے کے قابل ہو گئیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں موسیقی کے دلدادہ حلقوں میں مصنفہ بصیرت رئیس "دیدی” کے نام سے مشہور تھیں۔ مصنفہ دیدی نے کتاب کے صفحہ نمبر 56 اور 57 پر ایک متاثر کن واقعہ لکھا ہے کہ، "ایک صبح اور وہ بھی عید الاضحی کی صبح تقریبا آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میں عید کی چھوٹی موٹی تیاریوں میں مصروف تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ میں نے اٹھایا تو شمسی صاحب کی بیٹی تزئین کا فون تھا۔ ایک دھماکہ خیز خبر سنائی کہ ابو کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں جنازہ اٹھنے کے وقت وہاں پہنچ گئی۔ ان کی وفات کیسے ہوئی؟ معلوم ہوا کہ وہ اپنے عزیزوں کے گھر میں شادی کے سلسلہ میں منعقدہ محفل موسیقی میں نغمہ سرا تھے کہ گاتے گاتے خاموش ہو گئے۔ وہ بکھرے ہوئے سروں کے بیچ خود ہی بجاتے ہوئے ہارمونیم کے اوپر جھکے اور سربسجود ہو کر ہماری موسیقی کی ثقافت کے میدان میں شہادت پا گئے۔”
اس کتاب میں مصنفہ کے استاد جان محمد کا ذکر بھی بڑی عقیدت اور عزت و احترام سے کیا گیا ہے جبکہ کیرن نامی ایک جرمن خاتون کا قصہ بھی مزکور ہے جنہوں نے اسلام آباد میوزک سوسائٹی قائم کی جو کہ ایک پرائیویٹ کلب نما سوسائٹی تھی اور جو "ٹمز” (TIMS) کے نام سے بھی جانی جاتی تھی۔
اس کتاب میں جدید موسیقی مثلا "کوک سٹوڈیو” وغیرہ کے مقابلے میں "کلاسیکی موسیقی” کی وکالت کی گئی ہے جس کے بارے میں مصنفہ ایک جگہ لکھتی ہیں کہ
کوک سٹوڈیو نے کلاسیکی موسیقی کو برباد کر دیا ہے۔ لوگ کتنے فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے کوک سٹوڈیو کا انٹرویو پاس کر لیا ہے۔ مغربی تہذیب کے پھیلاؤ سے فائدے بھی بہت ہوئے لیکن ہماری اقدار اور ثقافتی ورثہ کو اتنا ہی نقصان بھی پہنچا۔ صدیوں کے پرانے فن کو جسے بزرگوں نے سینہ در سینہ چلایا اسے برباد کر دیا گیا۔
مصنفہ اسلام آباد میں قائم کلاسیکل میوزک ہیریٹیج ٹرسٹ (CMHT) سے بھی منسلک رہیں، اپنی دھنوں پر مبنی کیسٹس اور سی ڈیز بھی ریکارڈ کروائیں مگر وہ ساری کی ساری اپنے چاہنے والوں میں مفت تقسیم کیں جیسا کہ یہ کتاب بھی ابوظہبی کے کتاب میلہ میں "اردو بکس ورلڈ” کے جناح پویلئین پر مصنفہ کی بیٹی ھنیہ صاحبہ نے مجھے تحفتا دی، جو کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر عزت مآب جناب فیصل نیاز ترمذی صاحب کی شریک حیات ہیں۔
زیر نظر کتاب کا مطالعہ کر کے معلوم ہوا کہ انسان کے جو خواب پورے نہیں ہوتے وہ مرتے نہیں بلکہ وہ احساس بن کر اس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک وہ کسی دوسری شکل میں پورے نہ ہو جائیں۔ ہماری حقیقی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ ان ادھورے خوابوں کے گرد گھومتا ہے جو پورے نہ ہو کر ہماری روح کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ کتاب مصنفہ کے اسی خواب کی تصویر کشی کرتی ہے جو مرتی ہوئی کلاسیکی کو زندہ رکھنے کے لیئے لکھی گئی ہے۔ گویا یہ کتاب "مرحومہ کلاسیکی موسیقی” کا نوحہ ہے جس کے آخری صفحہ کے یہ چند اشعار تصدیق کے لیئے کافی ہیں، چونکہ یہ اشعار اور کتاب کا مجموعی تاثر شکایت و گزارش کے حامل ہیں، تو لگتا یہی ہے کہ یہ کتاب مصنفہ کی آنے والی اگلی کتاب کا پیش لفظ ہے:
"یہ کیسے نغمے ہیں چھوتے ہیں دلوں کو، لب پہ آ نہیں سکتے،
یہ کیسے تار ہیں بجتے ہیں، شرف سماعت پا نہیں سکتے۔
ڈوب رہی ہیں راگوں کی نبضیں، رک رہی ہے تالوں کی دھڑکن،
چارہ گرو کچھ تو کرو، کیا ڈوبتی کشتی کو بچا نہیں سکتے؟”
اس کتاب کا اختمام بھی ایک حسرت و یاس لیئے ہوئے ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ اس نقصان کا ازالہ کیسے اور کس طرح ہو سکتا ہے؟ بگاڑ کہاں سے شروع ہوا؟ یہ سب سوچ کر دکھ ہوتا ہے جو باتیں یا وجوہات میری سمجھ میں آئی ہیں میں بیان کر چکی ہوں۔ اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں یہ کتاب ہی نہیں میری حیات بھی اختتام کے قریب ہے۔ میں کچھ سنوار نہ سکی۔ بس ایک سمت متعین کی ہے۔ اللہ پاک نبی ﷺ کے صدقے مصنفہ کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور ہم تشنگان علم و فیض پر ان کا سایہ تادیر قائم رہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |