تھیلیسیمیا کا عالمی دن
تحریر محمد ذیشان بٹ
8 مئی کو دنیا بھر میں انٹرنیشنل تھیلیسیمیا ڈے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس بیماری کے بارے میں شعور بیدار کرنا، متاثرہ افراد کے مسائل اجاگر کرنا اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے جئیں۔ یہ دن نہ صرف طبی لحاظ سے اہم ہے بلکہ سماجی، اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے بھی ہمیں بیدار کرتا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پہچانیں اور ان پر عمل کریں۔
تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری میں جسم کے خون میں ہیموگلوبن بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں مریض کو زندگی بھر باقاعدہ خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کوئی متعدی بیماری نہیں کہ کسی کے چھونے یا ساتھ بیٹھنے سے منتقل ہو جائے، بلکہ خالصتاً موروثی بیماری ہے۔ اگر دونوں والدین تھیلیسیمیا کے جین کے حامل ہوں تو بچے کو تھیلیسیمیا میجر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے شادی سے پہلے خون کی سادہ سی سکریننگ سے اس مرض کو روکا جا سکتا ہے۔
یہ دن دنیا بھر میں 1994 سے منایا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف معلومات کی ترسیل نہیں، بلکہ ایک اجتماعی شعور کی تخلیق ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں تھیلیسیمیا کی شرح زیادہ ہے ان میں پاکستان، بھارت، ایران، بنگلہ دیش، اور بحیرہ روم کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ پاکستان میں اندازاً ہر سال 5000 سے زائد بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو انتہائی خطرناک اور قابل تشویش حقیقت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اس بیماری پر قابو پانے کے لیے شادی سے پہلے خون کی سکریننگ کو لازمی قرار دے چکے ہیں، اور تھیلیسیمیا کے مریضوں کو مفت علاج، جدید ٹرانسفیوژن سسٹمز، اور آئرن چیلیشن تھراپی مہیا کرتے ہیں۔ ان ممالک میں بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی، طبی سہولیات، عوامی مہمات، اور تعلیمی اداروں کے ذریعے مسلسل آگاہی دی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی کئی تنظیمیں اس میدان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن ان میں سب سے نمایاں نام "پاکستان سویٹ ہومز” کا ہے، جس کے بانی زمرد خان ہیں۔ زمرد خان کی قیادت میں یہ ادارہ نہ صرف تھیلیسیمیا کے بچوں کو پناہ، تعلیم اور خوراک دیتا ہے بلکہ ان کے علاج، خون کی فراہمی اور مستقل نگہداشت کا بھی بندوبست کرتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح نجی سطح پر عوامی خدمت کو عبادت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ زمرد خان کی خدمات نہ صرف ستائش کے قابل ہیں بلکہ ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہمارے نوجوان طبقے کو چاہیے کہ وہ تھیلیسیمیا کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔ سب سے اہم کردار خون کا عطیہ ہے۔ ایک صحت مند انسان ہر تین ماہ بعد خون دے سکتا ہے، اور ایک عطیہ کسی تھیلیسیمیا کے مریض کو دو سے تین ہفتے کی زندگی دے سکتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ کر خون نہیں دیتے کہ کہیں نقصان نہ ہو، حالانکہ طب کے مطابق باقاعدگی سے خون دینا صحت کے لیے مفید ہے اور اس سے نئے خون کے خلیے بننے کا عمل بھی تیز ہوتا ہے۔
اسلام بھی جان بچانے کو عظیم نیکی قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"جس نے ایک جان کو بچایا گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچایا۔” (سورہ المائدہ: 32)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، پس اللہ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے۔”
ہمارے اسلاف میں بھی ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ "لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا عبادت ہے۔”
اس عظیم تعلیمات کے باوجود اگر ہم صرف سرکاری سطح پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ ہمارے ہاں صحت کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے ہسپتال کم، سہولیات ناقص اور ادویات مہنگی ہیں۔ عوامی سطح پر نہ کوئی منظم سکریننگ پروگرام ہے، نہ آگاہی مہم، نہ ہی قانون سازی جو شادی سے پہلے خون کی جانچ کو لازمی قرار دے۔ حکومت کی بے حسی نے ہزاروں ماؤں کی گود اجاڑی ہے، اور اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرنا ظلم کے مترادف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور فرد، بطور معاشرہ، اور بطور ریاست اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ دن محض تقاریب، تقاریر، اور تصویریں لگانے کا دن نہیں، بلکہ عملی اقدامات اٹھانے کا دن ہے۔ اگر ہم سب مل کر اپنے حصے کی شمع روشن کریں، خون کا عطیہ دیں، آگاہی پھیلائیں، اور مریضوں کی داد رسی کریں، تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب تھیلیسیمیا جیسی بیماری صرف کتابوں میں پڑھنے کو ملے گی۔
Title Image by allinonemovie from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |