پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے مستقبل کی عمارت کی بنیادوں میں فکری عنوانات شامل نہیں ہیں تو ہمارا مستقبل غیرمحفوط ہے۔ ظاہر ہے کہ آج ہم کچھ غیرمناسب یا غلط کر رہے ہیں تو کل ہم اس کے منفی اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ چیزوں کے نتائج ہمیشہ منطقی نکلتے ہیں۔ کسی زمین میں وہی پودا اگتا ہے جس کا بیج بویا جاتا ہے۔ آپ یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اچار کا پودا اگانا ہے۔ لیکن ہماری حالت حقیقتا چوں چوں کا مربہ ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ زمین کتنی ہی زرخیز ہو، ہم بیچ تو کالی مرچوں کا ڈالیں مگر اس سے پودے سرخ امرودوں کے اگنے لگیں۔ ہماری ایجوکیشن منسٹری، تعلیمی ادارے، اساتذہ اور اہل دانش کو چایئے کہ وہ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں ایسی فکر کو پروان چڑھائیں اور دلچسپی کے ایسے موضوعات کو جنم دیں کہ جن کا تعلق جدید سائنسی آزمائشوں اور فکری تقاضوں کے عین مطابق ہو تاکہ اس کے دنیا میں ہمارے ترقی کرنے کے انفرادی اور اجتماعی مستقبل پر مثبت اور تعمیری اثرات مرتب ہوں۔
اس خبر کے مطابق کراچی کے سعید مسعود عثمانی نے 80سال کی عمر میں کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع "کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین” تھا۔ یہ مقالہ ڈاکٹر توصیف احمد خان کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم مسعود عثمانی کے لیئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق عثمانی صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ محترم عثمانی صاحب کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد (مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آراء پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!
پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی) ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ "ڈاکٹر” کا اضافہ کر سکتا ہے۔ عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لیئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لیئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح "ایکسپرٹ” ہو جاتا ہے۔
بے شک سعید عثمانی صاحب کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ ایک "چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” ہیں۔ وہ ایک سرگرم کارکن اور علم کے شوقین فرد کے طور پر ضرور جانے جاتے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع کا انتخاب کرنے میں غلطی کی۔ اسلام کے مطابق علم حاصل کرنا ہر مرد و زن پر فرض ہے۔ ایک حدیث نبوی ﷺ ہے کہ، "علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔” اسلام کے مطابق علم کی اعلی سے اعلی ڈگری کسی مقدس اعزاز سے کم نہیں ہے، خواہ اس کے لیئے کتنا ہی دور دراز کا سفر کرنا پڑے مگر سوال یہ ہے علم بھی ایسا ہو جو نافع ہو اور جو دوسروں کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے راہیں ہموار کر سکے۔ یہ نہیں کہ ہم ایسے موضوعات کا چناو’ کریں جو روایتی یا گھسے پٹے ہوں۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئیندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، "سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا” یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، "بہادر شاہ ظفر کو اردو شعراء کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے” وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے "اسباب بغاوت ہند” اور علامہ اقبال نے "اسلامی عقیدے کی تشکیل نو” کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور "اسلامی مملکت خداداد” وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی "سپر پاور” بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع "لوٹا کریسی” ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہو ہے؟
Title Image by congerdesign from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |