نعتیہ مجموعہ “زادِ شفاعت”

تعارفی نشست          ٭   نعتیہ مجموعہ “زادِ شفاعت”

ایک بندۂ مومن کے لیے آخری سہارا حضور ختمی مرتبت ،رحمة للعالمین اور شافعِ محشرﷺ کی یومِ حشر شفاعت ہے جس کے لیے وہ اپنے اعمال کو درودشریف اور اظہارِ محبّت کے مختلف ذرائع سے آراستہ کرتا ہے اس تناظر میں ہر ایک کا طریقہ اور عمل مختلف ہے لیکن ایک شاعر اپنی عاقبت میں اس سفر کے لیے حضور ﷺ کی نعت کو بطورِ زادِ شفاعت منتخب کرتا ہے کیونکہ اس کا یہ پختہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت اعلیٰ و ارفع ہو کر اپنے حبیب کی مدحت کرتا ہے تو یہ امر ایک امتی کے لیے تو یقیناً سعادت افروز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے  آخری سفر میں شفاعت کا بہترین سامان ہے اسی لیے شعراء کے کلام میں جا بجا شفاعت کی امید پر مبنی اشعار ملتے ہیں

اس سوچ اور فکر کے پیشِ نظر “زادِ شفاعت” کے  خالق استاذ الشعراء ،ماہرِ عروض اور شیریں لب و لہجے کے معیاری اور عمدہ شاعر جناب حافظ محبوب احمد صاحب بہت زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں جو انہوں نے اپنی عاقبت کو نعتِ نبی کے چراغ سے روشن کرنے کا سامان حضور ﷺ کی نعت کو بنایا ہے

حافظ صاحب کے اس مجموعۂ نعت کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر عیاں اور واضح ہوتی ہے کہ آپ ایک معیاری شاعر ہیں اور کلام میں رنگ بھرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں اور مکمّل کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ڈھیلا پن اور جھول نہ رہے ،آپ نے زرخیز زمینوں میں کاشتکاری سے اشعار کو استعارات ،تلمیحات اور بلاغت کے حسن سے مرصّع کیا ہے کہ قاری پر لطف و سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ہر صفحے پر بہترین اشعار سے انتخاب کرنا اتنا آسان نہیں بہرحال کوشش کی ہے کہ آپ کے عمدہ اشعار کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ان کا اشتیاق بڑھے اور مجھے مکمّل یقین ہے کہ جو اس کو ایک بار پڑھنا شروع کرے گا وہ پڑھ کر ہی دم لے گا

Zaad E Shafat

آئیے اب آپ کے درمیان زیادہ دیر حائل ہوئے بغیر ان کے کیف آور اشعار سے لطف اٹھاتے ہیں

ان کے در کا گدا سائل بے نوا کیوں رہے بے عطا

دھیرے دھیرے سے خیرات ہوتی رہی نعت ہوتی رہی

کہہ رہے تھے کہنے والے دیکھ کر ان کا جمال

سارے منظر مسترد سارے نظارے مسترد

صرف ہم ہی نہیں مصروفِ ثنا اے یارو

کرے جبریلِ امیں بھی یہ ریاضت ! آہا

مجھے مے کشی سے کیا غرض ،نہیں مبتلا دریں مرض

ترے کیف سے ہے بھرا ہوا مرا میکدہ ہے کہ جام ہے

 ۔

ترے روبرو مری ہر خطا، ترے ہاتھ ہے مرا فیصلہ

ترے پیش ہے مرا ہر سقم ،تری نعت میرا درود ہے

بحرِ حیرت میں گئے ڈوب سبھی انس و جاں

ہم کہاں اور یہ الطاف کہاں بسم اللہ

قبر کی رات سے ظلمات سے ڈر لگتا ہے

آپ ناراض ہوں اس بات سے ڈر لگتا ہے

محمد کا ہی کلمہ پڑھتی ہیں موجیں سمندر کی

صدف شاہد گہر شاہد ہے بحرِ بیکراں شاہد

میرے شہ نے مجھے انگلی سے پکڑ رکھا ہو

روز محشر جو مجھے پل سے گزارا جائے

رخسار قمر ،مازاغ نظر ،تابندہ جبیں مانندِ سحر

یوسف بھی ہے جن کا مدح سرا سبحان اللہ ماشاءاللہ

 ۔

سراپا رحمت ہے جن کی بعثت ،کلیدِ جنت ہے جن کی طاعت

وہ سب سے اعلیٰ ،وہ سب سے برتر درود ان پر سلام ان پر

موسمِ گل ہو یا طاری فصلِ خزاں ،کوئی صحرا ہو یا رونقِ گلستاں

روز اول سے اپنا ہے مسلک یہی ،ان کی باتیں کریں ان کی نعتیں کہیں

نفاق کے لیے اس میں جگہ نہیں کوئی

زمانے سے ہے نرالی ادا مدینے کی

گل لالہ ہو کہ گلاب ہو کوئی رنگ و بو کا نصاب ہو

انہی کے جمال کے رنگ ہیں جو دمک رہے ہیں دھنک دھنک

میں زمینِ مردہ ہوں یا نبی ،مجھے زندگی سے نواز دے

تو حیاتِ سرمدی کا نشاں مری کھیتیوں پہ برس برس  

یہ میرا “زادِ شفاعت ” یہ میرا حاصلِ زیست

حضور میرا یہ ہدیہ قبول کر لیجیے

مجھے تو یہ مجموعہ بہت اچھا لگا ہے آپ کی آراء کا انتظار رہے گا کہ ان کے شعری انتخاب کو دیکھتے ہوئے آپ اس کو کہاں دیکھتے ہیں

آخر میں اتنے اچھے مجموعے کی اشاعت پر حافظ صاحب کو بہت بہت مبارکباد ،اللہ تعالی اس کو ان کے لیے توشہ آخرت بنائے آمین

muhammad ahmad zahid

محمد احمد زاہد

سانگلہ ہل

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

چراغِ مصطفوی اور شرارِ بُو لَہبی

منگل نومبر 30 , 2021
جنابِ مونس رضا کی کتاب دائمی سچائیوں سے بھری پڑی ہے، اس سچائی کے سارے باب بہت روشن تھے، لیکن (ہجرتوں کی داستاں) میں آ کر اس کے کئی نئے پرت کھلے
چراغِ مصطفوی اور شرارِ بُو لَہبی

مزید دلچسپ تحریریں