عالمی امراء کلب
سرمایہ داری نظام ذرائع، طاقت اور ارتکاز دولت کا بدترین ذریعہ ہے جس کے بل بوتے پر کچھ عرصہ پہلے ایلون مسک کی دولت میں صرف ایک دن میں 92 کھرب روپے کا مزید اضافہ ہوا تھا۔ اس کے کچھ وقت بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان پر مسک کی کمپنی کے شیئرز گر گئے جس سے ان کی کمپنی کو چند ہی دنوں میں کم و بیش 132 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ دولت مندوں کے امیر سے امیر تر ہوتے جانے یا پیسے میں کچھ کمی آنے کا عمل زیادہ دولت جمع ہو جانے کے بعد صرف چند ہفتوں اور دنوں کا کھیل رہ جاتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر امیر ترین لوگوں کی دولت میں ہمیشہ اضافہ ہوتے ہی دیکھا گیا ہے۔ دولت مندوں کے سرمائے پر کسی کو حسد کرنے کا تو کوئی حق نہیں مگر دنیا کی طاقت کا محض ان چند ہاتھوں میں جمع ہونے کا ایک دوسرا مطلب غربت، بھوک پیاس اور بیماریوں میں تڑپتی انسانیت کا ان گنی چنی امیر ترین ہستیوں کا حسرت سے منہ تکتے رہنا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں یہ غلامی کی بدترین شکل ہے کہ ساڑھے سات ارب کی دنیا میں آدھی سے زیادہ آبادی اپنی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے اور گنتی کے ان چند امیروں کی نسل در نسل اولادیں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ سرمایہ داری نظام کو انگریزی زبان میں "کیپیٹل ازم” کہتے ہیں جس میں سرمایہ اکٹھا کرنے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ شامل ہے۔ دنیا کے باقی سارے نظاموں کی حدود اور قوانین مقرر ہیں مگر سرمایہ جمع کرنے کی کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی قانون یے۔ یہ شائد سرمایہ داری نظام میں آج کی انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ آپ سرمایہ جمع کرنے پر دنیا کے کسی ملک، معاشرے یا قوم میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
مانا کہ دنیا کے سو امیر ترین افراد ہر سال اربوں روپے چیرٹی میں بھی دیتے ہونگے مگر سوچنے کی بات ہے کہ دولت میں یہ اضافہ انہی کی دولت میں ہی کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ یہ سوال دنیا کے معیشت دانوں کے لئے ایک ایسی کڑوی گولی ہے جو ان کی ذہنی پستی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سرمایہ داری دنیا میں اتنے گہرے پنجے گاڑ چکی ہے کہ اس کے سامنے بڑے بڑے فلسفی اور دانشور بھی شرمندہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہر سال امریکی فوربز رسالہ دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست شائع کرتا ہے۔ جب اس رسالے کے ماتھے پر دنیا کے سب سے امیرترین شخص کا نام اور تصویر چھپتی ہے تو ہمدردی اور نرم دلی کی خوگر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ نیویارک میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے مالک ایلون مسک دنیا کے امیر ترین شخص ہیں اور اب ان کی دولت میں کئی گنا مزید اضافہ ہوا ہے۔
ایک نجی ٹی وی کے مطابق درحقیقت ایلون مسک نے ایک دن میں اتنا پیسہ کما لیا جتنا بیشتر ممالک کا سالانہ بجٹ بھی نہیں ہوتا۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ایلون مسک کی دولت میں اس دن 33 ارب 50 کروڑ ڈالرز (92 کھرب پاکستانی روپے سے زائد) کا اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمتوں میں ایک دن میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیسلا کی جانب سے جولائی سے ستمبر کی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں ایلون مسک نے پیشگوئی کی تھی کہ سنہ 2025ء میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ حالانکہ اس سے قبل مسلسل ایک سال تک ٹیسلا کی جانب سے سہ ماہی رپورٹس میں آمدنی میں کمی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایلون مسک ٹیسلا کے 21 فیصد حصص کے مالک ہیں اور ان کی مجموعی دولت کا 68 فیصد حصہ بھی اسی کمپنی کے حصص سے منسلک ہے۔ ایلون مسک اب 270.3 ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں اور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر موجود جیف بیزوز ہیں جو ان سے 61 ارب ڈالرز پیچھے ہیں۔ جیف بیزوز 209 ارب ڈالرز کے مالک ہیں جبکہ میٹا اور فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ 201 ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص ہیں۔
اس سے قبل دنیا کے جن امیر ترین افراد نے اپنی دولت کی وجہ سے شہرت حاصل کی ان میں امریکہ کے بل گیٹس، میکسیکو کے کارل سلم روز اور فرانس کے برنارڈ آرنالٹ اور امریکہ ہی کے سٹیو بالمر وغیرہ بھی شامل ہیں۔
گذشتہ برس فوربز کی امیر ترین افراد کی فہرست میں صرف 6 افراد شامل تھے جن کے پاس انفرادی طور پر 100 ارب ڈالرز سے زیادہ مالیت کے اثاثے اور دولت تھی۔ سنہ 2024ء کی فوربز رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں 14 افراد سامنے آئے جنھوں نے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہوئے 100 ارب ڈالرز کے کلب میں شمولیت حاصل کی۔ سو ارب ڈالر کتنی زیادہ دولت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دولت دنیا کے بہت سے غریب اور ترقی پزیر ممالک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حجم سے زیادہ ہے یعنی ان تمام اشیا اور خدمات کے مجموعہ سے بھی زیادہ مالیت ہے جو ایک قوم پیدا کرتی ہے۔
فوربز میگزین کا دعوی ہے کہ سنہ 2024ء میں ریکارڈ 2781 لوگ ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔ امیر اشرافیہ کا یہ گروہ آج پہلے سے زیادہ امیر ہے اور ان کی دولت کی مجموعی مالیت 14.2 کھرب ڈالرز سے زیادہ بنتی ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم دنیا بھر کے غرباء کا منہ چڑا رہی ہے۔
دنیا میں دولت اور ذرائع ہمیشہ موجود رہتے ہیں مگر ان کے مالکان ہمیشہ نہیں رہتے ہیں۔ مائیکروسافٹ کمپنی کے شریک بانی بل گیٹس سنہ 1995 سے 2017 تک 23 برسوں میں سے 18 برس تک دنیا کے امیر ترین فرد کے درجے پر رہے ہیں۔ لیکن آج ایلون مسک دنیا کے امیر ترین فرد ہیں۔ لگثرری برانڈز لوئی ویٹون، کرسچیئن ڈائر اور سیفورا کا مالک برناڈ ہو یا انڈیا کا مکیش امبانی ہو، رتن ناتھ ٹاٹا ہو یا باہر کے ممالک میں جائیدادوں کے مالکان میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری ہوں، ان میں سے دولت کوئی بھی ساتھ لے کر دنیا سے رخصت نہیں ہو گا۔ ان کا صرف کردار اور اچھا پن ان کے ساتھ جائے گا۔ بہتر ہے کہ ان امراء سمیت ہم سب دولت کی بجائے اعمال اکٹھے کرنے پر توجہ دیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |