شب بیداری میں نماز شب اور صدقہ و خیرات ادا کرنے سے خداوند متعال انسان کی بخشش فرما کر اسکو اعلی و ارفع مدارج پر فائز کر دیتا ہے اور یہی شیعہ اثنا عشری کا وطیرہ ہے۔ شیعہ اثنا عشری جن اوصاف کے مالک ہیں ۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے آغا محمد سلطان مرزا دہلوی نے اپنی کتاب نورالمشرقین من حیات الصادقین کے صفحہ نمبر 212 اور صفحہ نمبر 213 پر لکھا ہے ۔ جناب محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ”
خدا کی قسم ہمارے شیعہ صرف وہ ہیں جو احکام الٰہی کی اطاعت گزاری کرتے ہیں اور فرمایا امام باقرؑ نے یہ کہنا کافی نہیں کہ کوئی شخص محض اپنے منہ سے کہلائے کہ میں اہلبیت رسولؐ سے محبت رکھتا ہوں۔ قسم بخدا ایسا کوئی شخص ہمارا شیعہ نہیں ہے
سوائے اس شخص کے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے (اور ہم سے محبت کرتا ہے)ہمارے شیعہ کی علامتیں یہ ہیں: ۔
١۔ تواضع و فروتنی
٢۔ خشوع
٣۔ ترکِ خیانت
۴۔ کثرتِ ذکرِ خدا
۵ ۔صوم
٦ ۔صلوة
٧ ۔والدین سے حسنِ سلوک
٨ ۔قول کا سچا ہونا
٩ ۔فقراء و مسکین ،قرضداروں ،اور یتیموں کے ساتھ نیکی کرنا
١٠ ۔تلاوتِ قرآن
١١ ۔لوگوں کی برائی سے اپنی زبان کو روکنا
١٢ ۔دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان دیانتداری اور امین ہونا۔
فرمایا جناب محمد باقر ؑ نے کہ” خدا کی قربت صرف اطاعتِ الٰہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے۔ پس تم میں سے جو خدا وند تعالٰی کے حکم کا پابند ہے۔ اس کو ہی محبت فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اور تم میں سے جو خدا وند تعالٰی کی نا فرمانی کرتا ہے۔ اسکو ہماری محبت فائدہ نہیں پہنچائے گی ۔ دیکھو تم دھوکہ نہ کھاو ۔ تم دھوکہ نہ کھاو : ۔
وہ لوگ جو صرف شیعیان اہلبیت منہ سے کہہ دینا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ اس فرمان پر غور کریں شیعیان اہلبیت کے اوصاف و حقوق تو بہت ہیں اور جنت ان کے لیے یقینی ہے لیکن شیعہ ہونے کی شرائط بھی تو پوری کریں۔ جی ہاں! یہی شرائط ہیں شیعہ اثناء عشری ہونے کی۔ اگر آپ امام باقرؑ کے ان فرامین پر پورا اترتے ہیں۔ تو آپ شیعہ ہیں۔ اور آپ کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ اور اگر آپ ان فرامین پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ تو آپ صرف نام لیوا ہیں شیعہ ہرگز نہیں ہیں۔
اگر آپ شیعہ بننا چاہتے ہیں۔ تو ان فرامین کی روشنی میں زیست کی آئندہ ساعتیں گزاریں امام نے شیعہ کے اوصاف میں کثرتِ ذکرِ خدا اور تلاوتِ قرآن کا ذکر فرمایا ہے۔ اور یہی دونوں امر نمازِ شب میں زیادہ سے زیادہ ادا کیے جا سکتے ہیں ۔ اپنی خود احتسابی کیجیے اور وہ یہ کہ نمازِ شب نہ پڑھنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا کہ مشہور کتاب “دارلحکمت ” میں مصنف نے مولا علی علیہ السلام کا ایک فرمانِ ذیشان نقل کیا ہے مولا فرماتے ہیں :۔
“جس شخص سے دن کے وقت کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو خدا وند کریم اسے نمازِ شب پڑھنے کی توفیق نہیں دیتا”
اس کا مقصد یہ ہوا کہ نماز شب کا تعلق دن کے درخشاں و تاباں اوقات کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے
جو شخص اپنا دن خوشنودی ء رب العزت کی خاطر امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے عظیم کاموں میں گزارے اسے ہی خدا وند عالم رات کی تاریک ساعتوں میں اپنے ذکر کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ مومن اور کافر کی ایک پہچان رکھی گئی ہے کافر جب اپنے اطوار کے مطابق مذہب کی پیروی کر کے فارغ ہو جاتا ہے تو اگر وہ تاجر ہے تو تجارت کو اپنی ذات کے نفع کے لیے استعمال کرے گا اور اگر اس کا تعلق کسی اور شعبے سے ہے تو پھر بھی وہ اپنے مذہب سے کٹ کر اپنا کام سرانجام دیتا ہے لیکن مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ مکمل ضابطہء حیات یعنی اسلام کی جاوداں تعلیمات پر زیست کے تمام معاملات حل کرنے کی کوشش کرے گا وہ مذہب کی طرح معاملات میں بھی کھرا ہو گا۔اس کا ہر عمل رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہو گا وہ آفاق کی ناپائیدار چمک میں کبھی گم نہیں ہوگا بلکہ اسلام کی روشنی اسے منور کر دے گی۔ شاعر مشرق جناب علامہ اقبال رح نے کافر اور مومن کے معاملات کو کس خوبی سے بیان فرمایا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہیں
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
یہی تعلیم یہی فلسفہ ہمیں آئمہ معصومین علیہ السلام کی منور سیرت سے حاصل ہوتا ہے وہ شب بیداری میں مناجات و نوافل، ذکر و فکر، سوز و گداز اور خوف خدا سے اتنا گریہ کرتے ہیں کہ ریش تک آنسووں سے بھیک جاتی ہے۔ حضور اکرمؐ سے لے کر اہل بیت کے ہر مرد و عورت پر نگاہ دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شب بیداری کو آپ سب نے اپنی زندگی میں بہت اہمیت دی۔
اللہ تعالی سے لو لگانے کا معیار آپ کے ہی در سے ملتا ہے آپؐ نے بھی اللہ پاک کی عظیم بارگاہ میں اشکوں کے نذرانے نچھاور کیے اس لیے کہ عاجزی و فروتنی رات کے سناٹے میں رو رو کر بہارِ مغفرت سے ہمکنار کرتی ہے۔ شائد اسی کے متعلق سراج لکھنوی نے یہ شعر لکھا تھا :۔
اب کہیں جا کے محبت میں بہار آئی ہے
پھول دامن پہ نہ تھے دیدہ ء تر سے پہلے
شب بیداری اور دیگر علم و حکمت،مناجات و نوافل کے متعلق حجتہ الاسلام علامہ مفتی جعفر اپنی مشہور کتاب “سیرت امیر المومنین” میں رقم کرتے ہیں کہ ہمیں رات کی تاریکیوں میں سجدہ ریز ہونے کی تعلیم مولا علیؑ نے دی ہے۔ علامہ جعفر مولا علی کرم اللہ وجہہ کے اخلاق و عادت کے متعلق اپنی کتاب ” سیرت امیر المومنین” کے صفحہ نمبر 121 اور صفحہ نمبر 122 پر رقم طراز ہیں :۔
مولا علیؑ بغض و کینہ اور انتقامی جذبات کو پاس نہ بھٹکنے دیتے۔ حیرت انگیز حد تک عفو و درگزر سے کام لیتے دینی معاملات میں سختی برتتے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے۔حق و صداقت کے جادہ پر گامزن رہتے اور کسی کی رو رعایت نہ کرتے ۔دشمن کے مقابلے میں مکر و فریب اور داو پیچ سے کام نہ لیتے رات کا بیشتر حصہ مناجات و نوافل میں گزارتے۔ صبح کی تعقیبات کے بعد قرآن و فقہ کی تعلیم دیتے خوفِ خدا سے لرزاں و ترساں رہتے اور دعا و مناجات میں اتنا روتے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی”۔
یہ تھا اسوہء حیدر جو مختصرا “سیرت امیرالمومنین” سے لیا گیا ہے یہی وجہ تھی کہ مولا علیؑ نے رضائے الٰہی خرید لی تھی اور آپ کو حضور اکرمؐ نے جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والا کہا ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنا نفس بیچ کر رضائے الٰہی خرید لی تھی۔ آپ کی ہر دعا بارگاہِ خدا میں مستجاب ہوتی تھی۔ آپ نے دن کے اجالوں اور رات کی تاریکیوں میں ہمیشہ رب کریم کو یاد رکھا ہماری بھی ہر دعا قبول ہو سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر عمل قرینے سے کیا جائے ۔ معروف شاعر صفی لکھنوی نے لکھا ہے:۔
کون سی دعا ہے جو اثر نہیں رکھتی
ہاں مگر یہ لازم ہے مانگیے قرینے سے
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔