آزادی کب ملے گی۔۔۔؟

آزادی کب ملے گی۔۔۔؟

آزادی کب ملے گی۔۔۔؟

تحریر: جوسف علی

علامہ محمد اقبال نے اہل ہند کے مسلمانوں کی قومی بیداری کے لئے امید اور ترقی پسندی پر مبنی جس سوچ اور فکر کو تجویز کیا تھا اور جس کے نتائج 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کی شکل میں ظاہر ہوئے تھے وہ انہوں نے اس شعر میں نمایاں کیئے تھے کہ:

“تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا،
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔”

پاکستان کا معرض وجود میں آنا آزادی کی پہلی منزل تھی اور دوسری منزل ہماری غلامی سے مکمل آزادی کے لئے ہمارے ضمیروں کا بدلنا تھا جسے ہم آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک حاصل نہیں کر سکے ہیں کیونکہ ہمارے اندر غلامی کی خو ابھی تک باقی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے ہندو صدیوں تک غیر ملکی حملہ آوروں کے غلام رہے تھے، ان حملہ آوروں میں مسلمان حملہ آور بھی شامل تھے جنہوں نے لگ بھگ 100 سال تک ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ لیکن جب 1757ء میں جنگ پلاسی اور 1857 میں جنگ آزادی کے بعد مغلیہ خاندان کے آخری مسلمان شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تو 90 سال کے بعد 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کے مسلمان اگلے 75 سال کے لئے زہنی غلامی میں پھنس گئے۔ انڈین نیشنل کانگریس (جسے کانگریس پارٹی اور آئی این سی بھی کہا جاتا ہے) بھارت کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کا قیام دسمبر 1885ء میں عمل میں آیا تھا جب دو انگریز کلرکوں ایلن اوکٹیوین ہیوم اور ولیم ویڈربرن نے دادا بھائی نوروجی، ڈنشا واچا، ومیش چندر بونرجی، سریندرناتھ بینرجی اور مونموہن گھوش کو ہندوستانیوں کے لئے اپنے سیاسی حقوق لینے کے لئے تیار کیا تھا۔ اس سے پہلے خود ہندووں کو یہ ادراک نہیں تھا کہ انگریز حکمرانوں سے اپنے سیاسی حقوق لینے کی جدوجہد کیسے اور کس پلیٹ فارم سے کرنی چایئے۔ غلامی کی یہ لیجیسی آزادی حاصل کر لینے کے باوجود پاکستانی مسلمانوں میں اس سے بھی بدتر ثابت ہوئی ہے۔

پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 10 اگست 1947ء کو کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں منعقد ہوا تھا جس میں پاکستان کی پہلی حکمران جماعت ​آل انڈیا مسلم لیگ کے نامزد وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی تجویز اور خواجہ ناظم الدین کی تائید پر اسمبلی کے غیر مسلم رکن اور نامزد وزیر قانون و محنت جوگندر ناتھ منڈل کو عارضی صدر منتخب کیا گیا تھا۔ اگلے روز یعنی 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس دوبارہ منعقد ہوا جس کی صدارت جوگندر ناتھ منڈل نے کی تھی جس میں قائداعظم محمد علی جناح متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب قرار پائے تھے۔

اس دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں کچھ ردوبدل کے ساتھ 1935 کے انڈین ایکٹ کو ہی عبوری آئین کے طور پر اپنایا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے 13 ماہ بعد قائداعظم وفات پا گئے جس وجہ سے پاکستان کو ایک پائیدار مستقل آئین نہ دیا جا سکا۔ جس کے یکے بعد دیگرے تین آئین بنے اور چار مارشل لاء لگے اور جسٹس منیر صاحب نے جب قائداعظم کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دیا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں ہے اور اس کی پارلیمان کی ملکہ برطانیہ کے نمائندے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یہاں تک کہ جسٹس کارنیلیس نے لکھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی خود مختاری کی توہین ہے جس کی تصدیق برطانوی کمیشن نے بھی کی۔

پاکستان کا پہلا آئین دستور ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956ء کو “ون یونٹ” کی بنیاد پر بنایا جس میں مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ختم کر کے ایک صوبہ بنایا گیا تھا اور اس کی کل 46 فیصد آبادی کی نمائندگی، صوبہ مشرقی پاکستان کی 54 فیصد آبادی کے برابر کر دی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس غیر منصفانہ اور جابرانہ آئین کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یہ آئین، صدارتی طرز کا تھا جس میں گورنر جنرل سکندر مرزا کے اختیارات صدر سکندر مرزا کو مل گئے تھے، جس نے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ کم نہیں، چار مزید وزرائے اعظم برطرف کئے تھے۔ یہ غیر متفقہ آئین، محض ڈھائی سال بعد سکندر مرزا ہی نے منسوخ کر کے ملک پر مارشل لاء کی لعنت مسلط کر دی۔

یکم مارچ 1962ء کو جنرل ایوب خان نے اپنا دوسرا آئین نافذ کیا جس میں بنیادی انسانی حقوق کی مشروط ضمانت دی گئی تھی! یہ ایک صدارتی آئین تھا جس میں طاقت اور عقل کل، صدر کی ذات تھی اور عوام محض رعایا اور تماشائی تھے۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندی تھی لیکن خود صدر صاحب کے مسلم لیگ کو ہائی جیک کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس آئین میں پاکستان کو “اسلامی جمہوریہ” کی بجائے صرف “جمہوریہ” یا The Repblic of Pakistan قرار دیا گیا تھا اور مزے کی بات ہے کہ کسی مذہبی حلقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی یا شاید رینگنے ہی نہیں دی گئی تھی۔۔۔!!!

یہ ایک شخصی آئین تھا جس کے نتیجے میں 25 مارچ 1969ء کو پاکستان میں دوسرا مارشل لاء آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کا تختہ الٹ کر ملک بھر میں یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور 1962ء کا آئین منسوخ کر دیا گیا، قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔

پاکستان کو تیسرا اور متفقہ آئین پیپلزپارٹی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں دیا جسے معطل کر کے جنرل ضیاالحق نے 5 جولائی 1977ء کو تیسرا مارشل لاء پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر لگایا گیا تھا اور بعد میں 4 اپریل 1979 کو عوام کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرتے ہوئے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا اور ثابت کیا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اس ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں چوتھا مارشل لاء 12 اکتوبر 1999ء کو وزیراعظم محمد نواز شریف کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف نے لگایا تھا۔ جنرل مشرف ایک ترقی پسند فوجی ڈکٹیٹر تھے، ان کے پونے نو سالہ دور حکومت میں کل پانچ وزرائے اعظم تبدیل کئے گئے۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگائے گئے عدالتوں نے انہیں ہمیشہ تحفظ دیا اور آخری دو فوجی ڈکٹیٹروں کو ججز نے آئین میں من مرضی کی تبدیلیاں کرنے کی بھی قانونی اجازت دی۔

کیا وجہ ہے کہ ہم نے “تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا”، کی پہلی منزل تو حاصل کر لی مگر دوسری منزل،
“کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔” حاصل کرنا ابھی بھی تشنہ تکمیل ہے۔ جیسے پنجرے کے پنچھی اڑنے کو بیماری سمجھتے ہیں، کہیں ہم خود کو ابھی بھی غلام تو نہیں سمجھتے ہیں کہ ہمارے ضمیر اس حوالے سے نہیں بدلے ہیں کہ ہم آزاد ہیں بلکہ اس حوالے سے بدلے ہیں کہ “ہم ابھی بھی غلام ہیں!”

ہم آج بھی نوآبادیاتی قوانین اور کلچر کے ساتھ لارڈ میکالے کا پیدا کردہ طبقہ ہیں جہاں مجموعہ تعزیرات پاکستان وہ قانون ہے جو انگریزوں نے 1860ء میں نافذ کیا۔ فوجداری قانون کی دوسری دستاویز ’مجموعہ ضابطہ فوجداری’ ہے جو 1898ء میں نافذ ہوا۔ ہماری عدالتیں آج بھی ان قوانین کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ یہی نہیں ضابطہ دیوانی بھی وہی ہے جو 1908ء میں انگریزوں نے نافذ کیا تھا۔ جبکہ پولیس ایکٹ 1860ء میں انگریزوں نے ایک پولیس کمیشن کی سفارشات کے ذریعے نافذ کیا تھا جو ہمارے ہاں آج بھی رائج ہے۔

کسی بھی جمہوری ملک کے قوانین اس کے آئین کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ہمارے پاس جیسا بھی ہے 1973 کا متفقہ آئین تو موجود ہے مگر ہمارے ملک میں رائج تمام قوانین انگریز کے بنائے ہوئے ہیں (ناکہ ہمارے بنائے ہوئے ہیں)۔
آج جس طرح 1973 کا آئین موجود ہونے کے باوجود ہمارے تمام قوانین ہمارے اور ہمارے آئین کے بنائے ہوئے نہیں، جس طرح آئین میں بار بار ترامیم کی گئ ہیں، جس طرح فوجی آمروں نے آئین کو بار بار روندا ہے، عدالتوں اور ججز نے من مرضی کی تشریحات کی ہیں یا جس طرح آج عدلیہ اور پارلیمان ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں، کیا ہم آزاد ہیں، زرا سوچیئے گا کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ جس طرح ہم گزشتہ پون صدی سے مسلسل سیاسی اور آئینی بحرانوں کا شکار چلے آ رہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آزاد ہیں مگر ہمارے ضمیر آزاد نہیں ہیں جس سے ہم اپنے قومی مفاد میں بھی سوچنے پر مجبور ہوں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

"چوروں قطب"

اتوار اپریل 23 , 2023
یہ کہانی ایک فرد سے لے کر عام معاشرے اور ہماری اشرافیہ تک ہم سب پر کسی نہ کسی حوالے سے صادق آتی ہے۔ بات صرف اپنے کردار کی کیفیات
“چوروں قطب”

مزید دلچسپ تحریریں